تین نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کا ریکارڈ ایوانِ صدر سے غائب
اسلام آباد: ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) جو سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے الزامات کی تحقیقات کررہی ہے، نے خصوصی عدالت کو مطلع کیا ہے کہ تین نومبر 2007ء کو ملک میں نافذ کی گئی ایمرجنسی سے متعلق پورا ریکارڈ ایوانِ صدر سے غائب کردیا گیا ہے۔
عدالت کے سامنے جے آئی ٹی کے سربراہ اور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل محمد خالد قریشی پیش ہوئے اور اپنے بیان میں کہا کہ جب تحقیقاتی ٹیم ایمرجنسی سے متعلق ریکارڈ حاصل کرنے کے لیے ایوانِ صدر پہنچی تو اس کو مطلع کیا گیا کہ تمام ریکارڈ یہاں سے ہٹادیا گیا تھا، لہٰذا وہ اس سلسلے میں انہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے۔
تاہم محمد خالد قریشی نے، جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت کو یہ نہیں بتایا کہ کس نے یہ ریکارڈ غائب کیا تھا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ متعدد کوششوں کے باوجود جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) اور پرویز مشرف نے انہیں ہنگامی حالت کے نفاذ کے سلسلے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی۔
محمد خالد قریشی نے کہا کہ وزارتِ داخلہ، کیبینٹ ڈویژن، وزارتِ قانون، اٹارنی جنرل کے دفتر، پاکستان ٹیلی ویژن اور پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان سے کچھ ریکارڈ حاصل کرنے کے بعد تحقیقاتی ٹیم کا اگلا اہم قدم وزارتِ دفاع سے ریکارڈ حاصل کرنا تھا۔
انہوں نے کہا ’’وزارتِ دفاع میں جب سے انظار رضوی کی بطور فوکل پرسن تقرری ہوئی تھی، جے آئی ٹی نے کئی خطوط انہیں تحریر کیے۔ فوکل پرسن نے جی ایچ کیو کو کئی خطوط ارسال کیے اور یاددہانی کروائی اور پھر ہمیں مطلع کیا کہ وہ ریکارڈ حاصل نہیں کرسکے ہیں۔‘‘
جے آئی ٹی کے سربراہ نے اپنے بیان میں کہا کہ دستیاب ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد جی آئی ٹی نے متفقہ طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سابق فوجی حکمران کی نافذ کردہ ہنگامی حالت سے منسلک ٹھوس ثبوت موجود تھا۔
چنانچہ اس نے مجاز حکام کو سفارش کی کہ وہ سنگین غداری کے ایکٹ 1973ء کے تحت سابق صدر کے خلاف کارروائی شروع کریں۔
جنرل مشرف کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے سلسلے میں جے آئی ٹی کے سربراہ نے بتایا کہ تحقیقاتی ٹیم نے سابق فوجی حکمران کو گزشتہ سال بارہ نومبر کو طلب کیا تاکہ وہ اپنا نکتہ نظر اور اپنے دفاع میں کوئی ثبوت ریکارڈ کرواسکیں۔
انہوں نے اپنے بیان میں بتایا کہ جنرل مشرف کے سیکیورٹی مشیر ریٹائرڈ کرنل الیاس نے ایف آئی اے کے سمن کے جواب میں کہا کہ سابق فوجی حکمران اچانک بیمار ہوگئے ہیں، انہیں ہلکا بخار ہےاور وہ تحقیقات میں شامل ہونے کے قابل نہیں ہیں۔
محمد خالد قریشی نے مزید کہا کہ پرویز مشرف کو دوسرا سمن گزشتہ سال چار دسمبر کو جاری کیا گیا، لیکن انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
انہوں نے کہا کہ بالآخر میں نے چھ دسمبر 2013ء کو ایف آئی اے کے ڈائریکٹر حسین اصغر کے ساتھ جنرل مشرف سے چک شہزاد میں ان کی رہائشگاہ پر ملاقات کی۔
ملاقات کے موقع پر میں نے جنرل مشرف کے سامنے ان کے دستخط پر مشتمل ہنگامی حالت کے نفاذ اور عبوری آئینی احکامات اور ججز کے عہدوں کے حلف 2007ء کا ریکارڈ جو سب تین نومبر 2007ء کی تاریخ کا تھا، پیش کیا۔لیکن انہوں (مشرف) نے جواب دینے سے انکار کردیا۔
محمد خالد قریشی نے عدالت کو مطلع کیا کہ تحقیقاتی ٹیم نے اہم گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے تھے، جن میں جنرل مشرف کے قانونی مشیر شریف الدین پیرزادہ، اس وقت کے اٹارنی جنرل ملک قیوم اور سانق وفاقی سیکریٹری مسعود عالم رضوی، محسن حفیظ، کمال شاہ اور ریٹائرڈ جسٹس اجمل میاں شامل ہیں، انہوں نے ہنگامی حالت کے نفاذ میں اپنے کردار کو مسترد کردیا، اور آئین کی معطلی کا ذمہ دار سابق فوجی حکمران کو قرار دیا۔
انہوں نے بتایا کہ چار رکنی اس تحقیقاتی ٹیم نے جنرل مشرف کے خلاف تحقیقات کا آغاز پچھلے سال جون میں کیا تھا۔
جے آئی ٹی کے سربراہ نے کہا ’’رازداری کے مقصد کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ جے آئی ٹی کے اراکین نہ تو میڈیا کو کوئی جواب بیان دیں گے اور نہ ہی میڈیا کے نمائندوں کے کوئی سوالات کو جواب دیں گے۔‘‘
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کے بیان کے بعد عدالت کی کارروائی منگل تک ملتوی کردی گئی، اس روز پرویز مشرف کے وکلاء ان پر جرح کریں گے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ محمد خالد قریشی آٹھویں اور آخری گواہ ہیں، جنہیں استغاثہ کی ٹیم اب تک خصوصی عدالت کے سامنے پیش کرچکی ہے۔