سانحہ ماڈل ٹاﺅن، اکثریتی اراکین کا اختلافی نوٹ سے اختلاف
لاہور : ماڈل ٹاﺅن سانحے کی تحقیقات کے لیے قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے اراکین کی اکثریت نے اپنی ٹیم کے دو اراکین کی جانب پیش کیے گئے اختلافی نوٹس کو "غلط اور خودساختہ شواہد پر مشتمل" قرار دیا ہے۔
محکمہ داخلہ پنجاب نے اکیس جون کو ماڈل ٹاﺅن میں سترہ جون کو پولیس کی کارروائی کے دوران گیارہ ہلاکتوں کی تحقیقات کے لےی جے آئی ٹی کو تشکیل دیا تھا، جس میں انٹر سروسز انٹیلی جنس(آئی ایس آئی)، ملٹری انٹیلی جنس(ایم آئی)، سپیشل برانچ، کاﺅنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ(سی ٹی ڈی)، انٹیلی بیورو(آئی بی) اور پولیس کے اراکین شامل تھے۔
اس ٹیم نے 27 جون کو اپنا کام شروع کیا اور چھبیس اگست کو اس کی رپورٹ شائع ہوئی۔
دو انٹیلی جنس اداروں کے نمائندگان نے 32 صفحات پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ میں اپنے اختلافی نوٹس میں پانچ اعتراضات کو اٹھایا، جس کی نقل بھی ڈان کو حاصل ہوگئی ہے۔
ان اختلافی نوٹس پر اپنا تجزیہ دیتے ہوئے جے آئی ٹی کے اراکین کی اکثریت نے کہا کہ یہ نوٹ غلط اور خودساختہ ہیں۔
اختلافی نوٹ کے پہلے اعتراض جس میں کہا گیا تھا" جے آئی ٹی پی اے ٹی اور منہاج القرآن کی جانب سے شہادتیں پیش نہ کرنے پر غیرموثر ہوگئی ہے، جبکہ تحقیقاتی فائل میں فریقین کے کوئی بیانات موجود نہیں"۔
تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ متعدد بار طلب کیے جانے کے باوجود پی اے ٹی اور منہاج القرآن کی جانب سے کوئی بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی شہادت پیش کی" جس کا مطلب یہی ہے کہ وہ اس سانحے پر اپنے تصور کے مطابق شواہد پیش کرنے میں ناکام رہے"۔
انہوں نے دونوں اراکین کے دوسرے اعتراض جس میں پولیس کی ایف آئی آر میں قابل اعتبار معلومات کی کمی کا کہا تھا، کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس یہ آپشن موجود تھا کہ براہ راست ایف آئی آر کی منسوخی کی سفارشات کرتے یا حقائق کی چھان بین کے لیے مزید تفتیش کرتے ،درحقیقت انہوں نے تحقیقات جاری رکھی اور اسی تفتیش کی بنیاد پر متعدد پولیس اہلکاروں کو حراست میں لے کر ان کے خلاف ٹرائل شروع کیا گیا۔
رپورٹ میں پولیس حکام کی فائرنگ سے زخموں کے بارے میں انہوں نے کہا" یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پولیس کی درج کردہ ایف آئی آر پوری طرح قابل اعتبار معلومات سے عاری تھی" کیس ڈائری سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اختلافی نوٹ سے پہلے ہی جے آئی ٹی کے تمام اراکین اس سانحے کی تحقیقات میں شامل تھے"۔
اختلافی نوٹ میں ایف آئی آر کو کالعدم قرار دینے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس مطالبے کی کوئی قانونی یا منطقی وجہ بیان نہیں کی گئی۔
کے ایک اور اعتراض جس میں کہا گیا تھا کہ" پولیس کی جانب سے استعمال کیے گئے ہتھیاروں کا ریکارڈ اور ماڈل سانحے میں شریک افراد کی مکمل فہرست بھی فراہم نہیں کی گئی"، پر تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ" اس کے برخلاف تفتیش کے ریکارڈ میں ڈی آئی جی آپریشنز کی جانب سے فراہم کیا گیا سانحے کے مقام پر موجود تمام پولیس اہلکاروں کا ڈیوٹی روسٹر دیکھا جاسکتا ہے، جبکہ آپریشن میں حصہ لینے والے 498 پولیس افسران اور اہلکاروں کے بیانات بھی جے آئی ٹی نے ریکارڈ کیے ہیں"۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اعتراض کہ" مکمل چین کے ذمہ داران ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوئے" بالکل غلط ہے کیونکہ سی سی پی او کے ساتھ ساتھ ہر پولیس افسر تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہوا اور نہ صرف اپنے بیانات کو ریکارڈ کرایا بلکہ ان کی چھان بین بھی جے آئی ٹی ٹیم نے کی جس میں اختلافی نوٹ دینے والے اراکین بھی شامل تھے، اور پانچ پولیس افسران پر اس کی ذمہ داری عائد کی گئی تھی۔
انہوں نے آخری اعتراض کو خود ساختہ قرار دیا اور کہا کہ یہ دونوں اراکین پورے تفتیشی عمل کے دوران ٹیم کا حصہ رہے جسے انہوں نے اپنے نوٹ میں غیرواضح اور عمومی قرار دیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ" یہ جے آئی ٹی کی ذمہ داری تھی کہ تفتیش کو شفاف انداز میں کرکے اس سانحے کے ذمہ دار افراد کا تعین کرکے ان پر واقعے کی سنگینی کے مطابق چارجز لگائے"۔