• KHI: Fajr 4:55am Sunrise 6:13am
  • LHR: Fajr 4:14am Sunrise 5:38am
  • ISB: Fajr 4:15am Sunrise 5:41am
  • KHI: Fajr 4:55am Sunrise 6:13am
  • LHR: Fajr 4:14am Sunrise 5:38am
  • ISB: Fajr 4:15am Sunrise 5:41am

ہیکروں کی کارروائیاں، ملکی سلامتی کیلئے خطرہ

شائع September 9, 2014
ہیکروں کے ایک مقامی گروہ نے پاکستان میں گزشتہ دنوں حکومت، میڈیا اور دیگر سیکیورٹی فورسز کی متعدد آفیشل ویب سائٹس کو ہیک کیا—۔فائل فوٹو
ہیکروں کے ایک مقامی گروہ نے پاکستان میں گزشتہ دنوں حکومت، میڈیا اور دیگر سیکیورٹی فورسز کی متعدد آفیشل ویب سائٹس کو ہیک کیا—۔فائل فوٹو

جہاں ایک طرف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں نے حکومتی قیادت کو ریڈ زون میں لاکھڑا کیا ہے، وہیں ایسی ہی ایک کوشش انٹرنیٹ پر سرگرم ہیکروں کی جانب سے بھی جاری ہے جن کا ایک خودمختار گروہ مسلم لیگ (ن) حکومت کو گھر بھیجنے کے ساتھ ساتھ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا احتساب بھی چاہتا ہے۔

پوری دنیا میں سرگرم نامعلوم ہیکروں کے ایک مقامی گروہ نے پاکستان میں گزشتہ دنوں حکومت، میڈیا اور دیگر سیکیورٹی فورسز کی متعدد آفیشل ویب سائٹس کو ہیک کیا۔

ایک ہفتے تک جاری رہنے والی اس ہیکنگ مہم کے دوران بہت سی ویب سائٹس عارضی طور پر عوام کی پہنچ سے دور ہو گئیں، کئی ویب سائٹس کے مواد کو تبدیل کردیا گیا اور بیشتر سرکاری ملازمین ارو سیکیورٹی فورسز کے عہدیداروں کی ذاتی معلومات ان ہیکروں نے انٹرنیٹ پر لِیک کرکے انھیں ہر کسی کے لیے قابل رسائی بنا دیا۔


مزید پڑھیں: سرکاری ویب سائٹس پر ہیکرز کے حملے جاری، حساس ڈیٹا لیک


اگرچہ کرپشن اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی داستانوں کو انٹرنیٹ پر بے نقاب کرنے کے حوالے سے ان ہیکروں کے کردارکی پوری دنیا میں تعریف کی گئی، خاص کر وکی لیک اور ایڈورڈ سنوڈن کو پوری دنیا میں سراہا گیا، لیکن پاکستان میں مقامی ویب سائٹس کو ہیک کرنے کی اس کوشش کی شاید ہی کسی نے تعریف کی ہو۔

اس سوال سے قطع نظر کہ یہ حرکت کس نے کی، اس کااصل حدف کون تھا اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب کہ پورا ملک سیاسی بحران کی لپیٹ میں ہے، یہ بات قطعاً عوام الناس کے مفاد میں نہیں ہے کہ سرکاری ویب سائٹس کو ہیک کرکے وہاں سے ہزاروں کی تعداد میں بینک ریکارڈز اور حکومتی عہدیدارروں اور سیکیورٹی افسران کی دیگر ذاتی معلومات کو یوں انٹرنیٹ پر فاش کر دیا جائے۔

حکومتی افسران کے ذاتی بینک ریکارڈز کے انٹرینٹ پر لیک ہونے کے باعث رازداری کے قوانین کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی ہوئی ہے۔

اور مسلح افواج اور آئی ایس پی آر کی ویب سائٹس سے افسران کے نام، رابطوں کی معلومات، یوزرنیم اور پاس ورڈز کے لیک ہوجانے سے ملکی سلامتی کے حوالے سے بھی کافی خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔

اگر یہ ہیکرز اس مہم کو اس گمراہ کن نظریے کے تحت جاری رکھے ہوئے ہیں کہ وہ ا س طرح سیاسی بیداری پیدا کر رہے ہیں تو درحقیقت اُن کے اس عمل پر غیر ارادی طور پر خطرناک نتائج کے حامل فساد کا لیبل لگایا جا سکتا ہے۔

تاہم اس سب کے پیچھے کسی خاص مقصد کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا اور دونوں ہی صورتوں میں حکومت کو چاہیے کہ وہ ہیک کی گئی ویب سائٹوں کی بحالی، ذاتی معلومات تک رسائی کی بندش (بلاکنگ) اور پاس ورڈز کی تبدیلی کے حوالے سے اقدامات کرے۔

الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے حوالے سے نیا بل کافی عرصے سے التواء کا شکار ہے۔

فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے متعدد بار کہا ہے کہ وہ سائبر کرائمز کے حوالے سے اقدامات کرنے سے قاصر ہے، سوائے ان جرائم کے جو الیکٹرانک ٹرانسیکشن آرڈیننس 2002 کے زمرے میں آتے ہوں۔

دوسری جانب پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) آنکھ بند کر کے انٹر منسٹریل ویب ایولیوایشن کمیٹی (بین الوزارتی ویب تشخیصی کمیٹی) کے غیر مبہم احکامات پر عمل کرتی ہے۔

ہیکروں کی جانب سے قومی سلامتی کے اداروں اور دیگر سرکاری ویب سائٹس پر حملوں کا معاملہ انٹرنیٹ کی دنیا میں محض جز وقتی سیاسی فوائد کے لیے نہیں بلکہ ملک و قوم کے بہترین مفاد میں حکومت کی جانب سے ایک مناسب کارروائی کا متقاضی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 12 اپریل 2025
کارٹون : 11 اپریل 2025