جیت یا ہار؟
بہت ممکن ہے پچھلے کئی مہینوں سے جاری اس سیاسی چپقلش کے پیچھے کوئی خفیہ ہاتھ ہو- یہ بھی ممکن ہے کہ آزادی/ انقلابی دھمال کا مقصد محض موجودہ حکومت کو گھٹنوں کے بل جھکانا ہو- آپ جتنے چاہیں اندازے لگا سکتے ہیں پابندی نہیں- لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ معاملات اگر اس نہج تک پنہچے ہیں تو اس کے پیچھے حکومت کی حالات سے نمٹنے میں نا اہلی کا دخل زیادہ ہے۔
کل پارلیمانی اجلاس میں سینیٹر اعتزاز احسن نے بڑے واضح الفاظ میں وزیر اعظم نواز شریف اور انکی کابینہ کی کوتاہیوں پر ناصرف روشنی ڈالی بلکہ یہ بھی باور کرا دیا کہ پارلیمنٹ محض جمہوریت بچانے کے لیے حکومت کا ساتھ دے رہی ہے ورنہ مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف دونوں ہی اپنی سیاسی کریڈیبیلٹی (credibility) کھو چکے ہیں۔
سینیٹر اعتزاز احسن نے اپنے خطاب کے آغاز میں مختصر سے چٹکلے کے ذریعہ میاں صاحب پر چوٹ کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ وزیر اعظم خود کو ملک کا مختار کل سمجھتے ہیں اور پارلیمنٹ کی حیثیت ان کے نزدیک واجبی سی ہے جہاں وہ اپنی تشریف آوری بھی ضروری نہیں سمجھتے۔
انہوں نے یہ بھی واضح کردیا کہ عمران خان کےالیکشن 2013 پر لگائے گئے الزامات میں صداقت ہے اور پارلیمنٹ اس سے اتفاق بھی کرتی ہے چناچہ اگر ان سب باتوں کے باوجود بھی اپوزیشن حکومت کے ساتھ کھڑی ہے تو وزیر اعظم کو اس کا مشکور ہونا چاہیے- یہ تمام باتیں اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ آگے سے میاں صاحب کو مطلق العنان بادشاہت کی روش چھوڑنا ہوگی اور پارلیمنٹ کے وقار کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔
ماڈل ٹاؤن سانحے سے حکومت نے کچھ سیکھنے کی بجائے مزید غلطیوں پر غلطیاں کیں اور نتیجہ آج اس بحران کی شکل میں بھگت رہے ہیں- لیکن افسوس کہ کل اور آج سینیٹرز کی بار بار سمجھانے کے باوجود میاں صاحب اور ان کے وزراء کے مزاج میں کوئی لچک نہیں آئی- آج بھی پارلیمنٹ میں تحریک انصاف کے لیڈر جناب شاہ محمود قریشی صاحب کے خطاب کے دوران وزیر اعظم صاحب اپنی نشست پر موجود نہیں تھے اور ان کے جانے کے بعد پارلیمان میں واپس آئے- اب بھی وہ کسی روٹھے بچے کی طرح ہی برتاؤ کر رہے ہیں۔ کیا ایک ریاست کے سربراہ کا یہی رویہ ہوتا ہے؟
یہ بھی سچ ہے کہ اس حکومت کا تو بس چل چلاؤ ہی تھا اگر جاوید ہاشمی صاحب کے انکشافات نے اس گرتی ہوئی دیوار کو سہارا نہ دیا ہوتا کیونکہ الیکشن میں کلین سوئپ کے بعد سے اب تک حکومت نے صرف سیاسی طور پر لاپرواہی اور غیر ذمہ داری کا ہی مظاہرہ کیا ہے۔
بیس دن سے جاری اس سیاسی دھمال اور پچھلی دو بار ناکام حکومتوں کے باوجود میاں صاحب اپنی کابینہ میں موجود خامیوں کی شناخت نہیں کرپائے- وہ اب تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ اقربا پروری نے پارٹی کی ساکھ کو شدید نقصان پنہچایا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس بار وزیر اعظم اپنے تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے طریق حکومت میں کچھ نمایاں تبدیلیاں لاتے- اپنے مخالفین کے ساتھ کج روی اختیار کرنے کی بجائے ایک صحتمند سیاسی ماحول بناتے جو فقط پنجاب یا یوں کہہ لیں ان کے خاندان تک محدود نہ ہوتا بلکہ پورے پاکستان پر محیط ہوتا- میاں صاحب کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان صرف پنجاب تک محدود نہیں اس کے آگے بھی ہے اور وہ پورے پاکستان کی عوام کو جواب دہ ہیں- اس وقت ملک میں جو سیاسی بحران کی فضا ہے اسکی وجہ حکومتی کوتاہ بینی ہے۔
میاں صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکلنے والے بھی پاکستان کی عوام ہیں اور اگر وہ کسی بات پر احتجاج کر رہے ہیں تو یقیناً کہیں نہ کہیں کچھ تو غلط ہورہا ہوگا- ایسے حالات میں انہوں نے لوگوں کی شکایت کے ازالہ کے لیے کیا کیا؟ پچھلے بیس دن کے دوران ان کے رویہ سے صاف نظر آتا ہے کہ انہیں عوامی رائے کی چنداں پروا نہیں، وہ اپنی کرسی کے آگے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے- وہ عوام پر گولیاں برسانا تو پسند کر سکتے ہیں مگر انکی شنوائی کرنا لگتا ہے وزیر اعظم کی شان کے خلاف ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ دونوں جانب سے عوام ہی اس سارے معاملے میں پس رہی ہے- خان صاحب نے بھی اپنی انا کی تسکین اور ذاتی مفاد کی خاطر ہزاروں لوگوں کو بحران کی آگ میں جھونک دیا اور خود پیچھے کھڑے ہو کر تماشا دیکھتے رہے- خان صاحب جیسے لوگ قوم کے لیڈر نہیں بلکہ Butcher ہوتے ہیں- آپ نے احتجاج کے نام پر لوگوں کو ورغلایا اور انہیں عمارتوں پر حملہ کرنے پر اکسایا۔
یہ اقدامات احتجاج نہیں بغاوت کے زمرے میں آتے ہیں- آپ نے تحریک انصاف کی حیثیت ایک سیاسی جماعت سے گرا کے ایک پریشر گروپ میں تبدیل کردی ہے۔
جو کچھ عوام نے پچھلے بیس دنوں میں ملک میں ہوتے دیکھا ہے اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ خان صاحب اور طاہر القادری صاحب دونوں پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں، انکا مقصد صرف کسی مخصوص گروہ کے ایماء پر ملک میں انتشار پھیلانا ہے اور وہ اس میں خاصی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں- یہ حضرات کسی قسم کی تبدیلی یا انقلاب نہیں بلکہ اسی فرسودہ نظام کو استعمال کرتے ہوئے اپنی سیاسی دکان چمکا رہے ہیں۔
جاوید ہاشمی کے بیانات نے جہاں نواز برادران کی گردنیں بچائی وہیں پارلیمنٹ کو بھی ایک نکتے پر متحد کر دیا اور تو اور فوج کو بھی ایک واضح موقف اختیار کرنے پر مجبور کردیا- فوج کیطرف سے کی جانے والی وضاحت نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک دونوں ہی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا، ان کے پاس اب کسی تیسرے امپائر کی آس نہیں رہی۔
موجودہ بحران نے تحریک انصاف اور مسلم لیگ-ن دونوں ہی کی سیاسی ساکھ کو ٹھیس پنہچائی ہے، ہوسکتا ہے اس بحران سے نکلنے کے بعد وزیر اعظم سیاسی تدبر استعمال کرکے اگلے چار سالوں میں اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت دوبارہ حاصل کرلیں لیکن جاوید ہاشمی صاحب کے انکشافات سے عمران خان کی ساکھ کو جو دھچکا پنہچا ہے اسکا ازالہ مشکل ہی ہے۔
بہرحال، اس بحران سے نکلنے کے بعد میاں صاحب کو سینیٹر اعتزاز احسن کے مشورے کے مطابق آئندہ کے لائحہ عمل پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور اپنے رویہ میں لچک لانا ہوگی- سچ تو یہ ہے کہ اس سیاسی کشمکش نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کوپارلیمنٹ کے احسان تلے دبا دیا ہے- اب انہیں یہ سوچنا ہے کہ وہ یہ بازی ہار کے جیتے ہیں یا جیت کر بھی ہار گئے ہیں۔
تبصرے (4) بند ہیں