پولیو کے مسیحا
جوناس ایڈورڈ سالک (1995-1914) امریکی ریسرچ سائنٹسٹ تھے جنھوں نے مختلف امراض کی روک تھام اور خاتمے کے لیے تحقیقات کیں- پولیو ویکسین کی دریافت ان کا سب سے عظیم کارنامہ ہے جس کے لیے ساری انسانیت ان کی احسان مند رہے گی- بعد ازاں البرٹ بی سابن نے پولیو کے قطرے ایجاد کیے جو آجکل دنیا بھر میں استعمال کیے جاتے ہیں- پولیو ویکسین اور پولیو کے قطروں میں فرق یہ ہے کہ سالک نے ویکسین مردہ جرثوموں سے تیار کی تھی جبکہ سابن نے زندہ جرثومہ استعمال کیے تھے-
1953 میں جب پولیو ویکسین تیار ہوئی تو سالک نے اس کا تجربہ سب سےپہلے خود پر، اپنی بیوی اور تین بچوں پر کیا- جب ثابت ہوگیا کہ یہ دوا موثر اور محفوظ ہے تو اس کا تجربہ بڑے پیمانے پر کیا گیا- امریکہ کے اسکولوں میں 1830000( اٹھارہ لاکھ تیس ہزار) بچوں کو ایک پروگرام کے تحت پولیو کے ٹیکے دئیے گئے جس کا اہتمام National Foundation for Infantile Paralysis نے کیا تھا جس کا موجودہ نام March of Dimes Birth Defects Foundation ہے-
1957 میں مارچ آف ڈائمز کی جانب سے جاری کیا گیا پوسٹر — فوٹو بشکریہ مارچ آف ڈائمز |
فاؤنڈیشن نے سالک کے پروجیکٹ کے لیے 1700000 ڈالرز کا عطیہ دیا- اپریل 1955 میں اس ویکسین کے محفوظ اور موثر ہونے کا اعلان کیا گیا- سالک کو کئی ایک اعزازات سے نوازا گیا- صدر آئزن ہاور نے انھیں Great Achievements in the Field of Science کا طلائی تمغہ دیا- انھوں نے نقد انعامات لینے سے انکار کردیا اور اپنی لیبارٹری میں مصروف ہوگئے-
آئیے پولیو کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں- پولیو کو پہلی عالمی جنگ کے بعد کی بدترین بیماری قرار دیا گیا ہے- اس مرض کا پہلا کیس امریکہ میں 1853 میں ریکارڈ کیا گیا جس کے بعد یہ تیزی سے پھیلنے لگا-
بیسویں صدی کی ابتداء میں جب اس مرض نے 1918-1914 کے دوران وبائی شکل اختیار کرلی تو ڈاکٹر اور نرس گھر گھر جا کر ان بڑوں اور بچوں کا کھوج لگاتے جو اس مرض میں مبتلا تھے-ان کے خاندانوں کو علیحدگی میں رکھا جاتا، حتیٰ کہ اگر کسی کا بچہ اسپتال میں فوت ہوجاتا تب بھی اس خاندان کو جنازہ میں شرکت کی اجازت نہ ملتی-
امریکا میں پولیو سے متاثرہ گھر کے باہر وارننگ کے اسٹیکر لگا دیے جاتے تھے — فوٹو بشکریہ نیشنل لائیبریری آف میڈیسن، امریکا |
امریکی مورخ ولیم او نیل کے مطابق اس مرض کا شکار زیادہ تر بچے تھے اور ان کی تحقیقات کے مطابق امریکہ کی بیس ریاستوں میں اس مرض سے ہلاک ہونیوالے بچوں کی تعداد دوسرے تمام امراض سے زیادہ تھی- 1916 میں اسکے 27363 کیس ریکارڈ کیے گئے- صرف نیویارک ہی میں اس مرض نے 9023 افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا جن میں سے 2448 افراد لقمہ اجل ہوگئے- لیکن یہ مرض قومی توجہ کا مرکز اس وقت بنا جب نیویارک کے گورنر، روزویلٹ جو بعد ازاں امریکہ کے صدر بھی بنے 39 سال کی عمر میں پولیو کا شکار ہوئے اور انھوں نے اپنی صدارت کا بڑا حصہ وہیل چیئر پر گزارا-
بہرحال یہ مرض پھیلتا گیا اور اعداد وشمار کے مطابق 1952 میں پولیو کے مریضوں کی تعداد 58000 تھی- ان میں سے تین ہزار سے زیادہ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اکیس ہزار سے زیادہ افراد فالج کا شکار ہوئے-
لوگ اسقدر دہشت زدہ تھے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے گھبراتے تھے، انھوں نے پارکوں میں جانا اور سوئمنگ پول کا رخ کرنا چھوڑ دیا تھا اور ترجیح یہ ہوتی تھی کہ بچے گھر کے آس پاس ہی کھیلا کریں-
ان دنوں اخباروں میں پولیو کی خبریں شہ سرخیاں بن رہی تھیں- دوسری عالمی جنگ کے بعد لوگوں کی زندگی ایک بار پھر اتھل پتھل ہورہی تھی-
1938 میں National Foundation for Infantile Paralysis قائم ہوا جسکے سربراہ صدر روزویلٹ کے سابق لاء پارٹنر بیسل او کونر تھے- اسی سال فرسٹ مارچ آف ڈائم کا پروگرام شروع ہوا جس کا مقصد اس مرض کے خاتمہ کے لیے فنڈز اکٹھا کرنا تھا- اس پروگرام کے تحت ریڈیو نیٹ ورک قائم کیا گیا جس میں اشتہارات کے لیے تیس سیکنڈ کا مفت وقت دیا گیا اور ریڈیو سننے والوں سے کہا گیا کہ وہ ایک ڈائم (دس سینٹ) وہائٹ ہاؤس بھیجیں-
یہ پروگرام اسقدر کامیاب ہوا کہ چند ہی دنوں میں 2680000 افراد اس مہم کا حصہ بن چکے تھے-
اس مرض کی تحقیقات زورو شور سے جاری تھیں- سالک بھی اس دوڑ میں شامل ہوگئے- ایک دن انھوں نے پارک میں بچوں کو کھیلتے دیکھا تو انھیں احساس ہوا کہ انکی تحقیقات کس قدر اہم ہیں- اس مرض پر قابو نا پایا گیا تو سینکڑوں بچے کبھی چل نہ پائیں گے اور ایک معذور زندگی ان کا مقدر ہوگی- اب انکی ذمہ داری اور بھی بڑھ گئی تھی- کہتے ہیں وہ ہفتے کے ساتوں دن سولہ سولہ گھنٹے کام کرتے- شب و روز کی محنت کے بعد جب 1954 میں پولیو ویکسین دریافت ہوگئی تو اگلا مرحلہ اس کے تجربے کا تھا-
کہتے ہیں یہ تاریخ کی سب سے بڑی مہم تھی-اس مہم میں 20000 ڈاکٹروں اور ہیلتھ افسروں نے حصہ لیا -اسکے علاوہ اسکولوں کے عملے کے 64000 افراد اور 220000 والنٹیئرز نے اپنی خدمات پیش کیں - اسکول کے اٹھارہ لاکھ سے زیادہ بچوں کو پولیو ویکسین دی گئی-
1954 کے گیلپ پول کے سروے کے مطابق امریکہ میں اپنے صدر کا نام جاننے والوں کی تعداد ان لوگوں سے کم تھی جو اس مہم سے واقف تھے- ایک اور سروے کے مطابق اس مہم میں حصہ لینے والوں کی تعداد ان لوگوں سے بھی زیادہ تھی جنھوں نے اپنے صدر کی انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا-ایک اندازے کے مطابق کم از کم دس کروڑ افراد نے مارچ آف ڈائم میں رقومات بھیجی تھیں اور ستر لاکھ افراد نے اپنی رضاکارانہ خدمات پیش کی تھیں-
12 اپریل 1955 کو یونیورسٹی آف مشی گن کے ڈاکٹر فرانسس تھامس نے ٹیسٹ کی کامیابی کا اعلان کیا تو روزویلٹ کے انتقال کو دس سال گزرچکے تھے- جس کمرے سے اس تجربے کی کامیابی کا اعلان ہوا وہاں 500 افراد بیٹھے تھے جن میں سے 150 پریس، ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے نمائندے تھے- کیمروں کی قطاریں لگی تھیں، ملک کے سنیما گھروں میں بیٹھے 54000 ڈاکٹر کلوزڈ سرکٹ ٹیلی ویژن پر اس خبر کو دیکھ رہے تھے- امریکہ کا ہر خاندان ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھا تھا- کورٹ روم میں ججوں نے اپنی کارروائی روک دی، لوگوں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے، فیکٹریوں میں سناٹا چھا گیا، گرجا گھروں کی گھنٹیاں بج اٹھیں اور دوکانداروں نے اپنی دوکانوں پر بورڈ لٹکائے،"تھینک یو، سالک"- یوں محسوس ہورہا تھا جیسے کوئی جنگ ختم ہوئی ہو-
سالک کے ٹیسٹس کے کامیاب ہونے پر اخبارات میں شائع ہونے والی شہ سرخیاں — فوٹو بشکریہ مارچ آف ڈائمز |
ایک شخص اپنی دکان کے باہر تھینک یو ڈاکٹر سالک لکھوا رہا ہے — فوٹو بشکریہ مارچ آف ڈائمز |
البرٹ سابن(1993-1906) دوسرے سائنسدان ہیں جن کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا- وہ روس کے اس علاقے میں پیدا ہوئے جو آج کل پولینڈ کا حصہ ہے- 1922 میں وہ اپنے والدین کے ساتھ امریکہ چلے گئے- نیویارک یونیورسٹی سے انھوں نے 1931 میں میڈیکل کی ڈگری لی اور مختلف اداروں سے منسلک ہوکر تحقیقات میں مصروف ہوگئے-
جن دنوں سالک پولیو ویکسین تیار کر رہے تھے سابن بھی اپنی تحقیقات میں مصروف تھے- انھوں نے 1957 میں پولیو کے قطرے دریافت کیے- سالک اور سابن کے ویکسین اور قطروں میں فرق یہ تھا ، جیسا کہ اوپر کہا جاچکا ہے، سالک نے مردہ جرثوموں سے دوا تیار کی تھی جبکہ سابن نے کمزور زندہ جرثوموں سے قطرے دریافت کیے-
سالک کے ویکسین میں نقص یہ تھا کہ اس سے آنتوں کا انفیکشن ابتدائی مرحلے میں ختم نہیں ہوتا تھا- دوسرے یہ کہ، ویکسین کے مقابلے میں قطرے پلانا آسان تھا اور اس کا اثر طویل عرصے تک قائم رہتا تھا- ایک اور خرابی یہ تھی کہ سالک کے ویکسین میں پولیو کے جراثیم مریض سے دوسرے لوگوں میں منتقل ہوسکتے تھے- 1954 میں سابن نے اوہائیو میں تجربے کیے- اسکے بعد انھوں نے روسی ماہرین کے ساتھ کام کیا تاکہ قطروں کو زیادہ سے زیادہ محفوظ اور موثر بنایا جاسکے- سابن کے قطروں سے انفیکشن کو آنتوں ہی میں کنٹرول کرلیا گیا تاکہ وہ خون میں داخل نہ ہوسکیں-
امریکا کے صدر آئزن ہاور جوناس سالک کو طلائی تمغہ دے رہے ہیں — 27 جنوری 1956 — فوٹو بشکریہ امریکی حکومت |
1955 سے 1961 کے دوران دس کروڑ افراد کو روس، مشرقی یورپ، سنگاپور، میکسیکو اور نیدرلینڈز میں پولیو کے قطرے پلائے گئے- پولیو کے قطروں کی تیاری سب سے پہلے میخائیل چوماکوف نے صنعتی پیمانے پر شروع کی- امریکہ میں سب سے پہلے اپریل 1960 میں سنسناٹی میں 180000 اسکول کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے- سوویت یونین نے پولیو سے متاثر ہونیوالے ممالک مثلاًجاپان میں لاکھوں کی تعداد میں پولیو کے قطرے بھیجے -
دنیا پر اسکے کیا اثرات ہوئے؟ ایک اندازے کے مطابق عالمی ادارۃ صحت، یونیسف اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کی کاوشوں سے 1990 تک تقریباً پانچ لاکھ افراد اس سے فیض یاب ہوئے اور 1991 تک دنیا کے مغربی نصف میں اس مرض پر قابو پالیا گیا تھا- ترقی پزیر ممالک میں 1988 تک ہر سال 350000 کیس ریکارڈ کیے گئے تھے- 2002 میں 93 ممالک میں پانچ کروڑ سے زیادہ لوگوں کو پولیوکےقطرے پلائے گئے-
2002 تک دنیا بھر میں اس مرض کے 1924 کیس ریکارڈ ہوئےجو زیادہ تر ہندوستان میں ہوئے تھے- ہندوستان میں بل اور ملینڈا گیٹس فاونڈیشن کی مدد سے پولیو کے خاتمے کی کامیاب مہم چلائی گئی اور یہاں آخری کیس 2011 میں ریکارڈ کیا گیا- اس کے بعد افغانستان، مصر، نائیجر، نائیجیریا، پاکستان اور صومالیہ چھ ایسے ممالک تھے جہاں پولیو موجود تھا-آج 2014 میں، دنیا کے تین ممالک پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا میں یہ مرض اب بھی موجود ہے۔
چین میں 1993 میں قومی مہم چلائی گئی جس میں صرف دو دنوں میں آٹھ کروڑ سے زیادہ بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے اور 1995 میں وہاں صرف پانچ کیس ہوئے تھے-
پاکستان واحد ملک تھا جہاں 2010 میں پولیو کے کیسز میں اضافہ ہوا-
پاکستان میں پولیو کے قطرے پلانا جان جوکھم کا کام ہے جہاں عسکریت پسند پولیو کے قطرے پلانے والوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں- قبائلی علاقوں کے علاوہ پاکستان کے بعض شہروں مثلاً کراچی، پشاور اور کوئٹہ وغیرہ میں دہشت گرد انھیں اپنا نشانہ بناتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پولیو اب بھی یہاں موجود ہے اور بیرون ملک سفر کرنے کے لیے انسداد پولیو کی سرٹیفیکٹ پیش کرنا لازمی ہے-
افسوس اس بات کا ہے کہ ایک طرف اس معاملے میں ہمیں دہشت گردی کا سامنا ہےتو دوسری طرف بعض مشکلات ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں- ہمارے ملک میں یہ شعبہ بھی دیگر اور شعبوں کی طرح سست روی کا شکار ہے جبکہ ہمیں اس منصوبہ کو ہنگامی بنیادوں پر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے- یہ خبر البتہ امید افزا ہے کہ پشاور میں دو دن کے اندرتقریباً پانچ لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے-
مشہور صحافی Edwad R.Murrow نے جوناس سالک سے پوچھا
"اس ویکسین کا پیٹنٹ کس کے پاس ہے؟"
اس عظیم مسیحا نے جو جواب دیا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
انہوں نے کہا "اس کا پیٹنٹ عوام کے پاس ہے، بلکہ میں تو آپ سے یہ پوچھتا ہوں کہ کیا آپ سورج کو پیٹنٹ کر سکتے ہیں؟"۔
تبصرے (1) بند ہیں