آفات سے بچاﺅ کی نئی حکمت عملی
یاسمین لاری قدرتی آفات سے بچاﺅ کے شعبے کی روایتی حکمت عملی کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں جو سیلاب سے بچاﺅ کی تیاریوں کے بجائے سیلاب کے بعد تعمیر نو پر توجہ دیتی ہے۔
یاسمین لاری اب تک 40,000 سے زائد بہت ہی کم قیمت سستے مکانات بنا چکی ہیں اور ان گھروں کی تیاری میں صرف چکنی مٹی ،چونا اور بانس کا استعمال کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے ” مضبوط گھر بنانے کے لیے آپ کو لکڑی، سیمنٹ اور اسٹیل کی ضرورت نہیں ہے۔“
یاسمین لاری پاکستان کی پہلی خاتون آرکیٹکٹ ہیں ، بعد ازاں انہوں نے ایک غیر سرکاری تنظیم دی ہیریٹیج فاﺅنڈیشن (The Heritage Foundation) قائم کی جس کے تحت انجینئرز اورآر کیٹیکٹس پر مشتمل ان کی ٹیم نے 2010ءکے بدترین سیلاب کے بعد تعمیر نو اور بحالی کے لیے نئی تعمیراتی اشیا کا تجربہ شروع کیا۔ اس سیلاب میں 2,000 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے۔ یاسمین لاری کا کہنا ہے کہ ان کے تعمیر شدہ یہ گھر سالوں تک سیلاب کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔
اپنے تعمیر شدہ مکانات کی مضبوطی کے حوالے سے یاسمین نے مزید بتایا کہ پچھلے سال انہوں نے دریائے سندھ کے کنارے واقع دریا خان شیخ نامی ایک گاوں کا دورہ کیا تھا جہاں2010ءکی سیلابی تباہ کاریوں کے بعد ان کی این جی او ”دی ہیریٹیج فاﺅنڈیشن The Heritage Foundation نے تعمیر نو میں مدد کی تھی۔ انہوں نے سیلاب میں ڈوبے گاﺅں کی اس طرح منظر کشی کی۔
” گاوں میں چار فٹ تک سیلاب کا پانی کھڑا تھا لیکن گھر صحیح سلامت تھے۔ گندم اور پانی بھی محفوظ تھا۔ صرف دیواروں سے تھوڑا سا پلاسٹر اکھڑا تھا۔ “ یاسمین نے دی تھرڈ پول سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا۔
یاسمین لاری کے 1980 میں قائم کردہ ادارے The Heritage Foundation کے قیام کا اصل مقصد تو تاریخی اور ثقا فتی جگہوں یا عمارات کی حفاظت تھا لیکن 2005ء کے زلزلے کے بعد اس ادارے کے کام کا رخ تعمیر نو کی طرف مڑ گیا۔7.8 شدت کے اس زلزلے میں صوبہ خیبر پختونخوا ہ اور آزاد کشمیر میں ہولناک تباہی ہوئی تھی۔
یاسمین کی ٹیم کی جانب سے استعمال کی جانے والی اشیا مقامی طور پر دستیاب، سستی اور ماحولیاتی آلودگی کے اعتبار سے انتہائی کم کاربن کے اثرات کی حامل ہیں۔ یاسمین نے اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے بتایا، ”مٹی دوبارہ قابل استعمال ہے اور یہ ہر جگہ دستیاب ہے۔ بانس بہت مضبوط ہوتے ہیں، یہ ماحولیاتی طور پر پائیدار ہیں اور ہر دو سال بعد ہم بانس کی نئی فصل حاصل کر سکتے ہیں۔ چونا واحد ایسی شے ہے جسے گرم کرنے کے لیے ایندھن درکار ہے لیکن اس ایندھن کی بہت کم مقدار درکار ہوتی ہے ۔ہم یہ ایندھن صرف شاخوں کو جلا کر بھی حاصل کر سکتے ہےں۔ اس کے لیے بڑے درخت کاٹنے یا کوئی رکازی ایندھن جلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔“
یاسمین لاری پاکستان کی معروف آرکیٹیکٹ ہیں اور کراچی میں تعمیر شدہ بڑی عمارات میں سے اکثران ہی کی ڈیزائن کردہ ہیں۔ شیشے اور مخصوص پتھر کے استعمال سے ان کی ڈیزائن کردہ عمارات ان کے انفرادی کام کو اجاگر کرتی ہیں۔
ایک طویل عرصے تک کامیابی سے کام کرنے کے بعد یاسمین لاری کا کہنا ہے کہ وہ اب مزید یہ کام نہیں کریں گی۔ 30 سال تک تجارتی بنیادوں پر آرکیٹکٹ کی حیثیت سے کام کرنے کے بعدانہوں نے 2000ء میں اس کام کو چھوڑ دیا۔ اب وہ اپنا وقت لکھنے میں صرف کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا ” اب میں اس کی پابند نہیں ہوں کہ کلائنٹ کیا چاہتا ہے۔ مجھے اب اپنی مرضی کا کام کرنے کی آزادی مل گئی ہے۔“
اب ان کے کلائنٹ غریب اور محروم لوگ ہیں۔ یاسمین کا کہنا ہے ” میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ انہیں بھی ویسی ہی اہمیت اور توجہ دوں جو میں اپنے کارپوریٹ کلائنٹس کو دیتی تھی۔“ اب ان کا مقصد گاوں والوں کو یہ سکھانا ہے کہ اپنی عمارتوں کو پائیدار کیسے بنایا جائے۔
وہ کہتی ہیں ، ” اگر آپ ہر سال اپنے گھروں کو نئے سرے سے تعمیر کرتے رہیں گے تو یہ اضافی اخراجات آپ کو کبھی غربت کی لکیر سے اوپر نہیں آنے دیں گے۔ ایسے اضافی اخراجات سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ کسی کمیونٹی کی تکنیکی صلاحیتوں اور معاشی وسائل میں اضافہ کیا جائے تاکہ جب کوئی قدرتی آفت آئے تو وہ اپنا تحفظ بہتر طریقے سے کرسکیں۔
قدرتی آفات سے بچاﺅ کے ناپائیدار اقدامات
بدلتی ہوئی اور غیر یقینی موسمی صورت حال نے دنیا کو شدید موسمی خطرات اور آفات کا آسان شکار بنادیا ہے۔ پاکستان ان میں سے ایک ہے جو اس لحاظ سے کمزور ترین ملک ہے۔ مزیدیہ کہ ان واقعات کے بعد انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر جولوگ تعمیر نو کے لیے آگے بڑھتے ہیں ، وہ تعمیرات میں اسٹیل اور سیمنٹ کے استعمال کو فروغ دیتے ہیں جو بعد ازاں کاربن کے اخراج اور موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بنتے ہیں اور پھر یہی ان آفات کو جنم دیتے ہیں۔
یاسمین لاری کے خیال میں قدرتی آفات سے بچاﺅ کے شعبے یا ڈیزاسسٹر ریلیف کا موجودہ ماڈل تبدیل ہونا چاہیے۔ بہت سی این جی اوز اور بین الاقوامی تنظیمیں تعمیر نو کا نیک مقصد لے کر سامنے آتی ہیں لیکن ان کا تعمیر نو کا طریقہ کار بہت بڑی مقدار میں کاربن کا اخراج کرتا ہے۔
ان کا خیال ہے کہ آفات غریب آبادیوں کی فوڈ سیکیورٹی اور تعلیم پر بھی ایسے ہی اثر انداز ہوتی ہیں جیسے انفرا اسٹرکچر پر اور بحالی کے کاموں میں ان شعبوں کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ ان کی ٹیم سندھ کے 2 اضلاع میر پور خاص اور ٹنڈو الہیار میں 100 سے300 افراد پر مشتمل 12دیہاتوں میں کام کر رہی ہے اور یہ ہر چیز کو سیلاب کے مقابلے میں مدافعت کرنے والا بناتی ہے۔ وہ محفوظ گھر ، ماحول دوست باتھ روم اور مٹی کے پلیٹ فارمز بنارہے ہیں جہاں سیلاب کے دوران گندم، پینے کا پانی ، مویشیوں اور چارے کو محفوظ کیا جاسکے۔
ان کی تنظیم لوگوں کو اس بات کی بھی تربیت دے رہی ہے کہ لوگ چھت پر سبزیاں اگائیں، مویشیوں اور انسانی فضلے سے کھاد بنائیں، سورج کی روشنی سے پانی کو صاف کریں اور کیمیائی اشیا سے محفوظ نامیاتی صابن بنائیں۔
ان کا کہنا ہے ” ہم کمیونٹیز کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں، اساتذہ ڈیوٹی پر حاضر ہوں اور اگر وہاں صحت کی حکومتی سہولیات موجود ہیں تو نہ صرف ڈسپنسری میں دوائیں موجود ہوں بلکہ اسٹاف کی غیر حاضری کو بھی رپورٹ کیا جائے۔“
خواتین کو خصوصی اہمیت
خواتین کو با اختیار بنانا یاسمین لاری کی حکمت عملی کا مرکز ہے اور شاید یہی ان کے پروجیکٹ کی تیز رفتارکامیابی کا راز بھی ہے۔
ان کا کہنا ہے عموما گاﺅں والے The Heritage Foundation کی جانب سے بنائے جانے والے اونچے چولہے اور باہر کی جانب تعمیرکردہ کچن کو مہنگا یا اضافی خرچ سمجھتے تھے۔ یاسمین لاری نے کہا کہ لوگ نہیں جانتے کہ خواتین کو کھانا پکاتے ہوئے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اب یہ ہماری بنائی ہوئی مقبول ترین شے اور استعمال کردہ خاندان کے لیے انقلاب انگیز ثابت ہوئی ہیں۔
ان کے مطابق ہماری ڈیزائن ٹیم ایک گاوں کی عورت کی ضروریات کو سمجھنے کے لیے وقت دیتی ہے۔ جڑواں برنر چولہے ( Twin Burner Stove) ایندھن کو کفایت شعار ی سے استعمال کرتے ہیں اور اس کے ساتھ جڑی ہوئی چمنی سے دھواں گھر سے باہر نکل جاتا ہے۔ چونکہ یہ ایک اونچے پلیٹ فارم پر بنائے جاتے ہیں تو یہ خواتین کو کام کرنے میں آسانی فراہم کرتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ پتھر پر بیٹھ کر کام کریں۔ اسی طرح اونچی جگہوں پر چولہے نصب کرنے سے یہ سیلابی پانی سے بھی محفوط رکھتے ہیں۔
سب سے بہتر ین بات یہ ہے کہ اب ہر گاوں میں تربیت یافتہ چولہا ساز موجود ہیں۔ انہیں یاسمین لاری رضاکار تاجریا Barefoot entrepreneurs کا نام دیتی ہیں جو دوسروں کویہ کام صرف 200 روپے (US$2) میں سکھاتے ہیں۔ مقامی خواتین کو بھی مٹی سے اینٹیں بنانا سکھایا گیا ہے ۔ یاسمین کہتی ہیں ” ہم خوش ہیں کہ تعمیری عمل پہلے سے بہتری کی جانب گامزن ہے اور تکنیک کو اپنایا اور آگے سکھایا جارہا ہے۔ وہ لوگ بھی خوش ہیں کہ اس سارے عمل کے دوران وہ پیسہ بھی کما رہے ہیں۔“
ترجمہ : شبینہ فراز
تبصرے (1) بند ہیں