بیوروکریٹس کی یونین
ایک افریقی کہاوت ہے، کہ جب دو ہاتھیوں کی لڑائی ہوتی ہے، تو نقصان گھاس کا ہوتا ہے۔ پاکستان میں ہاتھی تو صرف چڑیا گھروں ہی میں پائے جاتے ہیں، جبکہ گھاس بھی نایاب ہی ہے۔ اس لیے پاکستان میں اس کہاوت کو اس طرح تبدیل کر کے کہنا چاہیے، کہ بھلے کوئی بھی کسی سے لڑے، پستا ہمیشہ بیچارہ سرکاری افسر ہی ہے۔
ماڈل ٹاؤن کیس میں واضح ہے کہ کس طرح سیاسی لیڈروں نے اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے ریاستی مشینری کا استعمال کیا۔ اور ستم ظریفی یہ ہے، کہ اب اقتدار میں موجود لوگوں کی جانب سے سانحے کا سارا ملبہ بے آواز پولیس اہلکاروں پر ڈالا جا رہا ہے۔
اسلام آباد میں جاری حالیہ بحران کے بیچوں بیچ آئی جی اسلام آباد کو ہٹایا جانا کوئی معمول کی بات نہیں ہے۔ اسی طرح جب کچھ سال پہلے حکومت نے سپریم کورٹ کے ساتھ حج کرپشن سکینڈل کی تحقیقات کرنے والی افسر کے تبادلے کے معاملے پر اختلاف کیا تھا، تو کورٹ کے احکامات ماننے پر سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔
پہلے نادرا چیئرمین کی معطلی، اور پھر انکا پریشر کے زیر اثر استعفے کا معاملہ بھی ایسی ہی کہانی ہے۔ ہمیشہ بیچارہ سرکاری افسر ہی زد میں آتا ہے، تب بھی، جب وزیر اعظم اگر کچھ منٹوں کے لیے ٹریفک جام میں پھنس جائیں۔
رواں سال فروری میں ڈی ایس پی لاہور کو اسی بنا پر معطل کر دیا گیا تھا۔ میں سوچ رہا ہوں، کہ کیا وزیر اعظم نے کبھی ان کے بارے میں بھی سوچا ہے جو وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے ہر طرح کی موومنٹ سے محروم ہوجاتے ہیں؟
ان تمام کیسز میں سول سرونٹ پر ہی نزلہ گرا ہے۔ اب سول سروس میں ایک شاندار کیریئر حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے، کہ آپ نا تو "نا" کہیں، اور نا ہی آواز اٹھائیں۔
Esta Code، جو پاکستان میں سول سروس کی رول بک ہے، اس کے مطابق سول سرونٹ کو غیر جانبدار، غیر سیاسی، اور غیر متعصب ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ Esta Code لابی سازی اور گروپ بندی پر بھی پابندی لگاتا ہے، لیکن ایسا صرف تصوراتی و خیالی دنیا میں ہوتا ہے۔ جب ہر کسی کی آواز ہو، تو بیوروکریسی، جو فوج کے بعد ریاست کا سب سے بڑا ادارہ ہے، کیوں چپ چاپ سب مظالم سہتی رہے؟
وکلاء کی بار کونسلیں ہوتی ہیں، صحافیوں کی بھی اپنے مسائل اجاگر کرنے کے لیے تنظیمیں ہیں، کلرکوں کی بھی ایسوسیئشن ہیں، مزدوروں کی لیبر یونینیں ہیں، آرمی کی پاس بھی آئی ایس پی آر کی صورت میں ترجمانی کے لیے ادارہ موجود ہے، جو فوج کا موقف بناوٹی الفاظ میں مناسب مواقع پر سب کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ دوسری جانب عدلیہ بھی اب آزادی حاصل کر چکی ہے۔
اسی طرح بیوروکریٹس کی یونین کی بھی ضرورت ہے، جو بھلے ہی کسی پر پریشر نا ڈالے، پر کم از کم بیوروکریسی کی آواز تو بنے، تا کہ سول سرونٹس کو ذاتی غلام کے طور پر استعمال نا کیا جا سکے۔
وقت کے ساتھ ساتھ ضروریات میں تبدیلی کی وجہ سے اداروں میں بھی تبدیلیاں آتی ہیں۔ آج کی بیوروکریسی برطانوی راج کی بیوروکریسی سے گورننس وغیرہ کے سٹائل میں کافی مختلف ہے۔ جمہوری معاشرے کی بیوروکریسی کو نوآبادیاتی دور کی بیوروکریسی والے قوانین اور خطوط پر نہیں چلایا جا سکتا۔ پاکستان کے سول سرونٹس کو ایک یونین بنانی ہو گی، جو نیم سیاسی اور نیم سرکاری حیثیت رکھتی ہو۔
اس کے ذریعے بیوروکریٹس کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا ہو گا، جہاں وہ دوسروں کے مفادات کے لیے کام آنے کے بجائے اپنی آواز اٹھا سکیں گے۔
ایسا مجوزہ پلیٹ فارم حکومت کی پرفارمنس پر بھی روشنی ڈال سکتا ہے، جبکہ گورننس کی کوالٹی پر سہ ماہی رپورٹس جاری کر کے بیورکریسی میں خود احتسابی کو بھی فروغ دے سکتا ہے۔ اس کے ذریعے ان لوگوں کو بھی تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے، جو کسی بدعنوانی وغیرہ کو سامنے لاتے ہیں یا ان پر آواز اٹھاتے ہیں۔ موجودہ سسٹم میں تو ایسے لوگوں کو علیحدہ کر کے ان کو دوسروں کے لیے عبرت کی مثال بنا دیا جاتا ہے۔ اگر کچھ عناصر غیر قانونی طریقے سے ریاستی مشینری پر ذاتی مفادات کے لیے اثر انداز ہونا چاہیں، تو اس فورم کے ذریعے پریس میں بھی خبر دی جا سکتی ہے۔ ایسے فورم کے ذریعے رائے عامہ کو ہموار کر کے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والی ڈیلز، منصوبوں، اور معاہدات کو بھی روکا جا سکتا ہے۔
یہ موقع ہے کہ بیوروکریسی کو سیاسی ہو جانا چاہیے۔ ذاتی مفادات کے لیے چوری چھپے سیاسی ہونے سے زیادہ بہتر ہے کہ ریاست کے وسیع تر مفاد کے لیے کھلے عام سیاسی ہوا جائے۔
آخر میں ایک بات، وہ یہ کہ اس طرح کے فورم کو ناجائز طور پر اثر انداز ہونے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ بات بھی قابل فہم ہے، کہ مختلف سروس گروپوں سے تعلق رکھنے والے سول سرونٹس کی اجتماعی فہم و دانش سے ایسا ہونے سے روکا جا سکے گا۔
فورم کو مکمل طور پر جمہوری ہونا چاہیے، جس سے اس کا نظام بیوروکریسی کی اپنی Heirarchy سے مختلف ہوگا۔ اسے افسران و ماتحتوں کے گروپ کے بجائے ساتھیوں کے گروپ کے طرح ہونا چاہیے۔
ایک کے بعد دوسری حکومتوں نے کبھی بھی بیوروکریسی میں اصلاحات پر توجہ نہیں دی ہیں۔ اس لیے بیوروکریسی کو اب خود اس کام کے لیے اٹھ کھڑا ہونا چاہیے، تاکہ اس تباہ ہوتے ہوئے ادارے کو بچایا جا سکے۔
منیر نیازی کے الفاظ میں
آواز دے کے دیکھ لو، شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں ہی تو ہے
لکھاری سابق سول سرونٹ ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 28 اگست 2014 کو شائع ہوا۔