اپنی مدد آپ
گزشتہ ہفتے انسانی بھلائی کا عالمی دن تھا۔ یہ اس بات کی یاد دہانی ہے، کہ طویل مدت سے مسائل میں گھرے ممالک کے لوگوں کے لیے اب دنیا بہتر جگہ نہیں رہی ہے۔ دنیا بھر میں اب حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں، کہ اب انسانی بھلائی اور بھائی چارے کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔ لیکن اسی وقت فلاحی کارکنوں کے خلاف تشدد بڑھتا جا رہا ہے۔ 2013 میں 155 رضاکار مارے گئے تھے، جبکہ 134 کو اغوا کر لیا گیا تھا۔
انسانیت کی بنیادوں پر اس امداد کی کیا ضرورت ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اب بڑھتے ہوئے تنازعات اور قدرتی آفات کی وجہ سے ایمرجنسیاں زیادہ ہوتی جا رہی ہیں، اور ان میں بڑی تعداد، جیسے سیلاب اور قحط وغیرہ، انسانی غفلت کے نتیجے میں پیش آتی ہیں۔
پاکستان نے حالیہ کچھ وقتوں میں ایسی بہت سی آفات دیکھی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک مسئلے سے دوسرے مسئلے کی جانب ہی سفر کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح کے ابنارمل حالات کی وجہ سے معاشی، اقتصادی، اور معاشرتی ترقی رک جاتی ہے، جبکہ پہلے سے حاصل شدہ ترقی بھی ضائع ہو جاتی ہے۔
اس کی وجہ سے بیک وقت سیاسی، اقتصادی، اور معاشرتی اداروں کا بریک ڈاؤن ہوا ہے۔ پچھلے پندرہ دنوں کے واقعات اس بریک ڈاؤن کی واضح مثال ہیں۔ طویل مدت کے لیے دیکھا جائے، تو یہ پبلک سیکٹر اسکولوں اور صحت کے شعبوں میں بھی واضح ہے، جو کہ شدید ابتری کا شکار ہیں۔
غریب سے غریب لوگ بھی اب اپنے بچوں کو سرکاری اسکول نہیں بھیجتے۔ وہ سرکاری اسپتالوں کا رخ کرنے سے گھبراتے ہیں۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا، اور ہماری نسل کے بہت سارے لوگوں نے سرکاری اداروں میں تعلیم حاصل کر کے ایک اچھی زندگی گزاری۔ سرکاری اسپتال کسی زمانے میں بہت اچھی کارکاردگی کا مظاہرہ کرتے تھے، اور مڈل کلاس بھی علاج کے لیے وہاں جاتی، اور سروسز سے مطمئن نظر آتی تھی۔
اب وہ سب کچھ تباہ ہو چکا ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری نے جینا مشکل بنا دیا ہے۔ ان نام نہاد نارمل حالات میں ہی یہ اتنا مشکل ہے۔ ایمرجنسی کی صورت میں سب سے زیادہ غریب لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ نارمل حالات کے ابنارمل ہو جانے کی صورت میں ان کے پاس کوئی بچت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے انہیں انتہائی تنگی میں گزارا کرنا پڑتا ہے۔
ورلڈ بینک ہمیں لوور مڈل آمدنی میں شمار کرتا ہے، جبکہ اس کے 2013 کے ڈویلپمنٹ انڈیکیٹرز کے مطابق 60 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے جی رہی ہے۔
37 فیصد کے پچھلے اعداد و شمار سے یہ اعداد و شمار انتہائی زیادہ ہیں۔ اور اصل تعداد میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، کیونکہ ہماری آبادی اب 18 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔
ابتدا میں تو یہ غلط طور پر سمجھا گیا تھا، کہ کثرت سے ملنے والی بیرونی امداد معیشت کی بہتری میں کردار ادا کرے گی، اور نچلے طبقات تک اس کے فوائد پہنچیں گے۔ امداد دینے والوں نے شرائط اپنے مفادات کے تحت رکھیں، لیکن پھر بھی ہم امداد پر امداد لیتے رہے۔ اس سے کرپشن بڑھی، اور حکمرانوں کی تجوریاں بھرتی گئیں، پر عوام تک اس کے ثمرات کبھی نہیں پہنچے۔
ان حالات، جو تیسری دنیا میں کافی عام ہیں، میں کچھ مثبت ضرور ہو رہا تھا۔ غریبوں نے اپنی مدد خود کرنی شروع کی۔ کئی لوگوں کو بیرون ملک کام کرنے کے مواقع حاصل ہوئے، اور وہ ملک سے دور رہنے لگے۔ ترقی یافتہ اور تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشتوں میں کام کر کے وہ زیادہ پیسہ کما کر اپنے گھروں کو واپس بھیج سکتے تھے، اور ان پر سے غریبی کا بوجھ کم کر سکتے تھے۔ گلوبلائزیشن نے لوگوں اور پیسے کی آمد و رفت میں کافی مدد کی۔
اس ٹرینڈ سے پاکستان نے بھی فائدہ اٹھایا۔ 1970 کا دبئی چلو سنڈروم تو یاد ہی ہوگا نا۔ سالہا سال میں بیرون ممالک سے ترسیل زر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، اور اب یہ 2014 میں سٹیٹ بینک کے مطابق 10 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر اب بڑی حد تک ان ترسیلات زر پر منحصر ہیں۔ بھلے ہی اس میں سے سب سے زیادہ پیسہ پاکستان سے باہر مقیم اچھی تنخواہیں لینے والے پاکستانی پروفیشنلز سے حاصل ہوتا ہے، لیکن جب غیر تربیت یافتہ ورکر اپنے خاندانوں کو سپورٹ کرنے کے لیے پیسے بھیجتے ہیں، تب بھی غریبوں کو فائدہ ہوتا ہے۔
لیکن پھر بھی اسے غربت ختم کرنے کے مستقل حل کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔ بیرون ممالک سے آنے والے پیسے کو ملک میں روزگار کے مزید مواقع پیدا کرنے کے لیے انویسٹ نہیں کیا جا رہا۔ وہ خاندان جو اپنے باہر مقیم رشتیداروں کی جانب سے بھیجا گیا پیسہ وصول کرتے ہیں، وہ کچھ ہزار سے زیادہ نہیں ہیں۔ پریشانی کی بات یہ ہے، کہ بیرون ممالک میں مقیم تربیت یافتہ و غیر تربیت یافتہ پاکستانی ورکروں کی تعداد میں تبدیلی آرہی ہے، کیونکہ خلیجی ریاستوں سے پاکستانی بڑی تعداد میں واپس بھیجے جا رہے ہیں، جبکہ مغربی ممالک اپنے امیگریشن قوانین سخت کرتے جا رہے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کم آمدنی والے وہ گھرانے جو اپنے باہر مقیم رشتیداروں کی سپورٹ پر ہیں، ان کی تعداد کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ غربت بڑھے گی۔ پاکستان میں جب بھی سیاسی بحران آتا ہے، تو ایک معاشی بحران بھی آتا ہے، جس سے امداد کے مستحق لوگوں کی تعداد میں اظافہ ہوتا ہے۔
سب سے بری بات یہ ہے، کہ سیاسی کھیل تماشے میں سب سے زیادہ نقصان غریبوں کا ہوتا ہے۔ بھلے ہی ہر کوئی ان کے بارے میں بات کرتا ہے، ان کے حقوق کی آواز بننے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن کیا غریبوں کے مسائل واقعی بڑی بڑی باتیں کرنے والے ان لیڈروں کی ترجیحات میں شامل ہیں؟
www.zubeidamustafa.com