خیبر پختونخوا کے کالجوں میں تعلیمی معیار زوال پذیر
پشاور: خیبر پختونخوا میں ہر سال نئی عمارتوں کی تعمیر کے ساتھ سرکاری کالجوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، لیکن ماہرین تعلیم کے مطابق ان اداروں میں معیارِ تعلیم زوال پذیر ہے۔
اعلٰی تعلیم کی ڈائریکٹوریٹ میں ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت صوبے میں 180 سرکاری کالج فعال ہیں، جبکہ پچاس کی عمارتیں زیرِ تعمیر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کالجوں کی یہ تعداد صوبے کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے ناکافی ہے، چنانچہ حکومت کے لیے ضروری تھا کہ مزید کالجوں کی تعمیر کی جائے۔
تاہم ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ صرف چند سرکاری کالج ہی طالبعلموں کو معیاری تعلیم فراہم کررہے ہیں، جبکہ باقی اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے قومی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک نئے کالج کی تعمیر کے لیے تیس کروڑ روپے درکار ہوتے ہیں، جو بعد میں نوجوانوں کو تعلیم دینے کرنے کے بجائے روزگار کی فراہمی کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے۔
ماہرین تعلیم کا کہنا تھا ’’تعلیمی اداروں خاص طور پر سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں انتظامی معاملات کو منظم کرنا اور ان میں بہتری لانا حکومتوں کے لیے ایک انتہائی مشکل کام ہوگیاہے۔‘‘
اعلٰی تعلیم کے محکمے کے ایک اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ وہ چند ایک کو چھوڑ کر سرکاری کالجوں میں اپنے بچوں کے داخلے کے لیے کوشش نہیں کریں گے۔
یہ اہلکار جو سرکاری کالجوں کے معیارِ تعلیم سے واقف تھے، نے بتایا کہ حقیقی معنوں میں کالج صرف اسلامیہ کالج پشاور، جناح کالج برائے خواتین، فضلِ حق کالج مردان، درّانی کالج بنّوں، ایبٹ آباد پبلک اسکول و کالج، وینسم کالج ڈیرہ اسماعیل خان، گورنمنٹ کالج فار بوائز نمبر 2 بنّوں اور گورنمنٹ کالج فار بوائز سوات کو ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا ’’اگر کوئی اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا چاہتا ہے تو اسے چاہیٔے کہ وہ مذکورہ بالا کالجوں میں داخل کروائے، باقی کالجوں میں داخلہ لینے کی صورت میں طالبعلموں کے روشن مستقبل کا بہت کم امکان ہے۔‘‘
اعلٰی تعلیم کے محکمے میں ایک اہم عہدے پر کام کرنے والے ماہرِ تعلیم کہتے ہیں کہ سرکاری شعبے کے زیادہ تر کالج تمام ضروری ساز و سامان اور سہولیات سے آراستہ ہیں، لیکن مسئلہ اساتذہ اور انتظامیہ میں ہے، جو اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کالج کے پرنسپلز یا ایڈمنسٹریٹرز کو طالبعلموں کو تعلیم دینے اور تعلیمی ادارے کے انتظام و انصرام کی کوئی مہارت نہیں ہے۔ انہوں نے بیوروکریسی، سیاسی مداخلت اور اساتذہ کے یونین بازی کو اس صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا۔
ماہرِ تعلیم نے کہا کہ بیوروکریسی اہم فیصلے کرنے کا اختیار کالج انتظامیہ کو منتقل کرنا نہیں چاہتی۔ خاص طور پر اساتذہ کے تبادلے اور طالبعلموں کے داخلوں کے حوالے سے سیاسی مداخلت بھی تعلیمی اداروں کے ناقص معیار کی ایک اہم وجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ تعلیمی معیار کے زوال کی تیسری وجہ ضلعی اور صوبائی سطح پر اساتذہ کی یونینیں ہیں۔ اساتذہ کی یونین اس جمود میں کسی قسم کی تبدیلی کی اجازت نہیں دیتیں۔
ماہرِ تعلیم نے کہا کہ کہ اگر حکومت کالجوں میں اصلاحات لانا چاہتی ہے تو انتظامیہ اور اساتذہ کے عملے کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسرے یہ بھی کہ ایک انتظامیہ کے قیام کی ضرورت بھی ہے جو سال بھر گاجر اور چھڑی کی طرز کی پالیسی کے ساتھ اساتذہ کی تعلیمی صلاحیت کی جانچ کرے۔
اُن کا کہنا تھا کہ صوبائی سطح پر مرکزی ڈائریکٹوریٹ کے بجائے علاقائی دفاتر قائم کیے جائیں، جو اساتذہ کے تبادلوں، چھٹیوں اور پنشن وغیرہ جیسے معاملات کو دیکھے، اس سے اساتذہ کو باآسانی اپنے مسائل کروانے میں مدد ملے گی، جبکہ انہیں دوردراز علاقوں سے پشاور آنا پڑتا ہے۔
جب صوبائی وزیر برائے اعلٰی تعلیم مشتاق احمد غنی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اساتذہ کی ترقی کو ریفریشر کورسز کے ساتھ منسلک کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا ’’ پہلی مرتبہ ایک تربیتی اکیڈمی قائم کی گئی ہے، جس نے ملازمت سے پہلے اور ملازمت کے بعد اساتذہ کو تربیت دینا شروع کردیا ہے۔ اس سے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔‘‘
صوبائی وزیر سنے کہا کہ اعلٰی تعلیم کے محکمے کا ارادہ ہے کہ اساتذہ کی ترقی کو ان کی کارکردگی سے منسلک کیا جائے۔
تبصرے (1) بند ہیں