• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

پولیس کے حقوق

شائع September 10, 2014
لکھاری ایک پولیس افسر ہیں۔
لکھاری ایک پولیس افسر ہیں۔

پولیس اہلکاروں کے جنازوں اوران کے زخمیوں کی تصویریں عام طور پر دیکھنے کو ملتی ہیں- معاشرے میں شدید تشدد کے نتیجے میں غالباً یہ سب سے خطرناک پیشہ بن گیا ہے- اس صورت حال کو بدلنے کے لیے پولیس کے ڈھانچے میں اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے-

گزشتہ دو سو دنوں میں 100 پولیس اہلکاروں کی ہلاکتیں آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں اور یہ ظاہر کرتی ہیں کہ پولیس کے خلاف تشدد بڑھتا جارہا ہے۔ گزشتہ سال، کراچی میں 166 پولیس اہلکاروں و افسران نے اپنی جانیں دیں- پاکستان کے شہروں پشاور، کراچی اور کوئٹہ میں پولیس اہلکاروں کی ہلاکتوں میں اضافے کا رجحان نظر آتا ہے-

1970 سے اب تک خیبر پختونخواہ میں 1379 پولیس اہلکاروں نے اپنی جانیں قربان کیں- 1970 سے 1980 کے دوران کے پی میں 44 پولیس اہلکاروں کو،1981 سے 1990 کے دوران 78 کو، جبکہ 1991 سے 2000 کے دوران 139 پولیس اہلکاروں کو موت کی نیند سلا دیا گیا-9/11 کے بعد سے کے پی میں 1118 پولیس اہلکار ہلاک کر دیے گئے- 2009 میں کے پی پولیس کے 201 اہلکار مارے گئے جو ایک سال کے دوران ہلاک ہونیوالوں کی ریکارڈ تعداد ہے-

1970 سے پشاور پولیس کے 378 اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا- دوسری طرف 1979 سے بلوچستان پولیس کے 616 اہلکار مارے جاچکے ہیں جن میں سے 239 کا تعلق کوئٹہ سے ہے-

پولیس کے عملے کے خلاف بڑھتا ہوا تشدد صرف بڑے شہروں تک محدود نہیں ہے؛ اس طرح کے واقعات فاٹا کے سرحدی اضلاع میں بھی مسلسل دیکھنے کو ملتے ہیں- چونکہ پولیس والوں کی ہلاکتوں کے زیادہ تر مقدمے نامعلوم مجرموں کے خلاف درج کیے جاتے ہیں، اس لیے کمیونٹی کے تعاون کے بغیر اور مناسب شہادتوں کی غیر موجودگی میں قاتلوں کا پتہ چلانا مشکل ہے-

انڈین نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے مطابق 2011 کے دوران 25 ریاستوں میں 867 پولیس اہلکار مارے گئے- ان میں سے 616 کانسٹیبلز اور ہیڈ کانسٹیبلز تھے اور صرف تین گزیٹڈ افسر تھے- سب سے زیادہ اموات چھتیس گڑھ میں ہوئیں۔ ہندوستان میں 2010 میں ہلاک ہونیوالوں کا مقابلہ 2011 سے کیا جائے تو 2.7 فی صد کی کمی نظر آتی ہے-

پوری دنیا سے مقابلہ کیا جائے تو افغانستان میں پولیس ہلاکتوں کی شرح سب سے زیادہ ہے- بروکنگز انسٹیٹیوشن کے مطابق،2007 سے 2010 کے دوران افغانستان میں 3,290 پولیس والوں کو ہلاک کردیا گیا- گزشتہ تین برسوں میں ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

جنوبی افریقہ میں ہر سال اوسطاً 100 پولیس افسر مار دیے جاتے ہیں- لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر پولیس ان ہلاکتوں سے بچنا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ قانونی اختیارات کے دائرے میں رہ کر کام کرے کیونکہ رپورٹ کے مطابق 2010 میں پولیس آپریشنز کے نتیجے میں 566 جنوبی افریقی موت کا نشانہ بنے-

امریکہ میں ممتاز پولیس افسروں نے پولیس فورس کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کو 'پولیس والوں کے خلاف جنگ' قرار دیا ہے- تاہم، نقادوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ شہریوں کے خلاف غیر ضروری قوت استعمال کرنے کا ایک بہانہ ہے-

ساری دنیا میں بڑھتے ہوئے تشدد کے نتیجے میں، پولیس فورسز نے آتشیں اسلحے اور ہتھیاروں کا استعمال زیادہ کردیا ہے جنھیں فوج استعمال کرتی ہے- یہی وجہ ہے کہ پولیس اپنا دوستانہ چہرہ پیش کرنے کی جنگ ہار رہی ہے-

پولیس کی خوداعتمادی پر براہ راست ضرب لگانے کے لیے پاکستان میں ان کے ٹریننگ سنٹرز پر بھی حملے کئے گئے-مناوان(لاہور)، ہنگو اور کوئٹہ کے ٹریننگ کالجوں پر حملے اسکی چند مثالیں ہیں- افغانستان میں 2007 میں قندھار میں پولیس ٹریننگ اسکول کے سربراہ کو ہلاک کردیا گیا-اس ملک میں تو باغیوں نے پولیس والوں کے خاندانوں کو بھی نشانہ بنایا- اہم سوال ان پولیس والوں کے خاندانوں کی فلاح و بہبود کا ہے جنھیں انکی ڈیوٹی کے دوران قتل کردیا گیا- کے پی میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں میں سے ںوے فی صد کی عمریں چالیس سال سے کم تھیں، انھوں نے اپنے پیچھے اوسطاً دو بچے چھوڑے جن کی عمر دس سال سے کم ہے- اسکے علاوہ انکی نوجوان بیوائیں اور بوڑھے والدین ہیں-

مالیاتی مشکلات کے باوجود کے پی کی حکومت نے قتل ہونیوالے پولیس اہلکاروں کے خاندانوں کے لیے معاوضے کی رقم پانچ لاکھ سے بڑھا کر تیس لاکھ کردی ہے۔ 2008 سے 2014 تک کے پی پولیس نے 1,649.5 ملین روپے ان کے خاندانوں کو دیے- گزشتہ چار سال کے دوران 387.7 ملین روپے پلاٹوں کی خریداری کے لیے اور 36.54 ملین روپے ہلاک ہونیےوالے پولیس والوں کے بچوں کی تعلیم کے لیے دیے گئے-

ہندوستان میں، ان پولیس والوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جنھوں نے اپنی جانیں ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے قربان کردیں، ریاستی سطح پر مختلف پولیس سروسز کی جانب سے یادگاری تقاریب منعقد کی جاتی ہیں- ڈاک کے شعبہ کی جانب سے پولیس کےشہیدوں کے خصوصی ٹکٹ جاری کیے جاتے ہیں-

پاکستان میں تمام پولیس سروسز کو چاہیے کہ 'یوم پولیس شہدا ' منانے کا منصوبہ بنائے، اور ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کرے جنھوں نے اپنی زندگیاں قربان کردیں- اس سے پولیس فورس کی ہمت افزائی ہوگی۔ قتل ہونیوالے پولیس والوں کی یاد میں شہید پولیس والوں کی ایک یادگار اسلام آباد کی پولیس لائن میں قائم کی گئی ہے- کوئٹہ اور پشاور میں بھی ایسی ہی یادگاریں قائم ہیں- یہ تمام یادگاریں بندش والے علاقوں میں ہیں اس لیے عوام با آسانی وہاں نہیں جاسکتے- ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی عوامی جگہ پر پولیس کی ایک قومی یادگار قائم کی جائے-

موجودہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹریننگ ضروری ہے- زیادہ تر صورتوں میں پولیس والے یا تو بندوق کی گولیوں کا نشانہ بنے یا وہ اچانک کسی دھماکہ خیز مواد کا شکار ہوتے ہیں- بھرتیوں کے بعد ٹریننگ کی جانب توجہ دینا ضروری ہے- ٹریننگ کو جدید ترین بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ضروریات کا اندازہ لگایا جائے- تربیتی نصاب میں اپنی حفاظت کرنے، جسمانی فٹنس، آتشیں اسلحہ استعمال کرنے اور دھماکہ خیز مواد کے بارے میں معلومات بھی شامل کی جانی چاہیئے-

سینئر افسروں کی ہلاکت سے پولیس میں مایوسی پھیلتی ہے، اس لیے انکی ذاتی حفاظت کے انتظام پر بھی نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے- مہذب معاشروں میں ایک پولیس والے کی موت کو بھی ریاست کے لیے چیلنج اور معاشرے کے لیے نقصان دہ سمجھا جاتا ہے- اس لیے ہمیں چاہیئے کہ ہم ان لوگوں کو فراموش نہ کریں جنھوں نے اپنے خون کا نذرانہ دیکر ہماری جانیں بچائیں-

انگلش میں پڑھیں۔

ترجمہ: سیدہ صالحہ

لکھاری ایک پولیس افسر ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 21 اگست 2014 کو شائع ہوا۔

محمد علی باباخیل

لکھاری ’پاکستان: ان بٹوین ایکسٹریم ازم اینڈ پیس‘ کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024