سول نافرمانی کی چوہیا
گرمی، حبس، بارش کی کچ کچ اور لوگوں کی پچ پچ اس کے لئے ناقابل برداشت تھی- سوچنے سمجھنے کے لئے تنہائی درکار تھی، ایک ایسا ماحول جہاں وہ آگے کی منصوبہ بندی کرسکے اور گھر سے زیادہ بہتر جگہ کیا ہوسکتی ہے، جہاں کا پرسکون صاف ستھرا ماحول غور فکر کے لئے نہایت موزوں تھا-
ویسے پچھلے چار دنوں کی اس بیگار سے کوئی خاطر خواہ نتائج نظر تو آ نہیں رہے تھے- اس نے تو سوچا تھا اپنی پرکشش شخصیت اور کھیل کے شاندار ماضی کی بدولت وہ لوگوں پر اتنا اثر و رسوخ تو رکھتا تھا کہ اسکی کال پر لاکھوں لوگ دوڑے چلے آئیں گے اور وہ اس انسانی طوفان کے ہمراہ دارلحکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیگا اور چند گھنٹوں میں دارالحکومت فتح کر کے اسے تخت نشین کر دیا جاۓ گا-
یہی وجہ تھی کہ اس نے آگے کی کوئی پلاننگ نہیں کی تھی اور نا ہی اس ریس میں شامل دوسرے کھلاڑی کو خاطر میں لایا تھا- میڈیا نے اس پر مزید بگھار ڈال کر کپتان کو اپنی حتمی کامیابی کے مبالغے میں مبتلا کردیا-
دوسرا کھلاڑی جو نا صرف فن خطابت میں طاق ہے بلکہ جانتا ہے کس وقت کیا بات کرنی ہے، کشیدہ صورتحال کا رخ کس طرح اپنی حمایت میں موڑنا ہے بھلے ان حالات کی ذمہ داری خود اس کے اوپر بھی عائد ہوتی ہو- وہ لوگوں کے نزدیک روٹی کپڑے اور مکان کی اہمیت سے واقف ہے- وہ یہ بھی جانتا ہے کہ خالی ایک مخصوص طبقے یا عمر کے لوگوں کو ساتھ ملا کر 'انقلاب' نہیں لایا جاسکتا وہ ملک جہاں سب کچھ مذہب کے نام پر بکتا ہے وہاں مذہبی گروہوں (خاص کر مختلف فرقوں کو) ساتھ ملانا ضروری ہوجاتا ہے اور اگر اس پر استحصال کے شکار کسی مخصوص فرقے کی دلجوئی بھی شامل کر دی جاۓ تو کامیابی پکّی!
نیز ہجوم کو کس طرح اور کب تک کنٹرول میں رکھا جاۓ یہ بھی ایک آرٹ ہے اور وہ اس سے واقف ہے- کپتان یہ آرٹ نہیں جانتا، جوانی کے زمانے کا گرم خون اب بھی ابل ابل کر الفاظ کے راستے باہر آنے کو بیتاب ہے اور اس کے نزدیک کسی کو اپنا مرید بنا کر رکھنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے-
تو ہوا یوں کہ آزادی کے دن شروع ہونے والا 'آزادی مارچ' ربڑ بینڈ کی طرح کھنچتا ہی چلا گیا اور لوگوں میں بے زاری بڑھتی چلی گئی- مزید ستم کپتان کی اپنی حامیوں کی طرف طوطا چشمی نے ڈھایا، موصوف خود تو قیلولہ فرمانے گھر سدھار لئے اور بیچارے مظاہرین بھوک اور دیگر ضروریات کے ہاتھوں مجبور ہوکر گھر گھر بھیک مانگنے لگے-
وہ گھر کے آرام دہ بستروں پر استراحت فرماتے رہے اور ان کے چاہنے والے کیچڑ بھری سڑکوں پر کسی گوشہ عافیت کی تلاش میں بھٹکتے رہے- پہلے دن حامیوں نے سوچا کپتان کو آرام کی ضرورت ہے جانے دو، لیکن اگلے دن پھر وہی تماشا، چہہ مگوئیاں شروع ہوگئیں- حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی.
جن پر تکیہ تھا کہ دارلحکومت کو خطرے میں دیکھ کر کوئی ایکشن ضرور لیں گے ان پتّوں نے ہوا تو کجا ذرا سی سرسراہٹ بھی نہ کی، حامیوں کا مورال گرنے لگا-
ادھر دوسرا کھلاڑی اپنی شعلہ بیانی اور تدبر کے باعث بازی جیتنے لگا- اب کیا کریں؟ کپتان پریشان، کیونکر ہاتھ سے نکلتی بازی کو دوبارہ جیتا جاۓ؟ ڈرائنگ میں بیٹھے بیٹھے ذرا اونگھ آئی اسی دوران گاندھی جی رحمت کا فرشتہ بن کر وارد ہوۓ- کپتان کی آنکھ کھلی اور انہوں نے اعلان کردیا کہ وہ عملاً گاندھی جی سے ملتے ہیں-
یہ سنتے ہی ذہن میں ایک خیال آیا کہ ہو نہ ہو کپتان اب تاریخ کی جادوئی پٹاری سے کوئی خرگوش برامد کرنے والے ہیں اور ہوا بھی یہی اپنے اگلے خطاب میں کپتان نے خرگوش تو نہیں پر 'سول نافرمانی' کی چھوٹی سے چوہیا ضرور نکالی-
حامی جو اس امید پر تھے کہ اب کپتان ریڈ زون پر حملے کا اشارہ دیں گے یہ سن کر حیران رہ گۓ- انہیں ہرگز امید نہ تھی کہ کپتان یوں ہاتھ دکھا جائیں گے وہ تو مرنے مارنے کی باتیں کرتے چلے تھے یہ اچانک کیا ہوا؟
سول نافرمانی ہی کروانی تھی تو مہینوں سے عوام کو خوار کیوں کروا رہے ہیں، یوں ہی ایک اعلان کردیتے کہ جی سول نافرمانی کرنی ہے حکومت گرانے کے لئے، کوئی ٹیکس نہ دے، کوئی یوٹیلٹی بل ادا نہ کرے، حکومت منہہ کے بل گر پڑے گی- بہرحال، اپنی روٹی روزی کو لات مار کر کپتان کی محبّت میں دور دراز سے آنے والوں کو سخت خفت اٹھانا پڑی-
ادھر پچھلے چند دنوں میں اربوں کا نقصان اٹھانے والی بزنس کمیونٹی نے کپتان کے اس اعلان کو مسترد کردیا- کپتان نے عوام کے کاندھے پر بندوق رکھ کر جو نشانہ لیا تھا اس نے توپ کی شکل میں بیک فائر کردیا ہے- مین سٹریم میڈیا پر دھرنے کی کوریج میں نمایاں کمی آگئی- سوشل میڈیا پر کپتان کے پرستار ابھی بھی انکی محبّت کا دم بھر رہے ہیں بالکل ایک ایسے عاشق کی طرح جو محبوب کی کج ادائی پر اپنے آپ کو دلاسے دینے کے لئے کوئی نہ کوئی بہانہ خود ہی گڑھ لیتا ہے-
آج اپنے سپورٹرز کی آنکھوں میں مایوسی اور اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لئے کپتان نے آخری پانسہ پھینکا ہے- کل وہ اپنی قیادت میں عوام کو لے کر ریڈ زون کی طرف مارچ کریں گے- بظاہر لوگوں کو پرامن رہنے کی تاکید کرنے والے کپتان صاحب واضح طور پر خاک و خون کی سیاست کرنا چاہتے ہیں-
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق کپتان نے سیاسی خودکشی فرما لی ہے- لیکن یہ بھی نہ بھولیں کہ پاکستانی سیاست میں کھرا اور کھوٹا سب ہی کچھ چلتا ہے- تیسری بار حکومت کے لئے منتخب ہونے والی مسلم لیگ-ن کی مثال ہمارے سامنے ہے-
لکھاری ایک فری لانس جرنلسٹ ہیں
deehanrarsi :Twitter@
تبصرے (1) بند ہیں