• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

پاکستانی تدریسی کتب میں شامل بڑے جھوٹ

شائع August 16, 2014 اپ ڈیٹ May 26, 2015
ایوب خان اور محمد علی جناح کی اسٹیج پر لگی ایک تصویر— وائٹ اسٹار فوٹو
ایوب خان اور محمد علی جناح کی اسٹیج پر لگی ایک تصویر— وائٹ اسٹار فوٹو

پاکستان میں قوم پرستی اور حب الوطنی متنازعہ فیہ موضوعات ہیں، یہ ہم پاکستانیوں کو کیا بناتے ہیں، اور اس سے کیسے ہم اپنی سرزمین اور قوم سے محبت کرتے ہیں؟


ان سوالات کے جوابات کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ یہ کس سے پوچھ رہے ہیں، ہماری قوم شناخت کا بڑا حصہ ہمارے تاریخی احساس اور ثقافت پر مشتمل ہے جبکہ خطے کی قدیم تہذیبوں کے ترکے کی جڑیں بھی کافی گہری ہیں، اسی طرح مذہب کا بھی اہم کردار ہے، مگر ہمارے نصاب میں شامل تاریخ کی کتابوں میں ہماری شناخت کے متعدد پہلوﺅں کا ذکر ہی موجود نہیں۔

نصاب میں یہ بتانے کی بجائے ہم کون ہیں، کی بجائے تاریخی حقائق میں ردوبدل کرکے ہمارے اپنی شناخت کے احساس کو تبدیل کرنے میں کردار ادا کیا گیا ہے، اور ان کتابوں میں سب سے بڑا دھوکہ ان واقعات کے بارے میں جو ابھی تک ہماری یادوں میں زندہ ہیں۔

ہیرالڈ نے اس معاملے پر ایسے مصنفین اور ماہرین کو دعوت دی جو تاریخ پر عبور رکھتے ہیں تاکہ وہ ان سوالات پر اپنے جوابات کو شیئر کرسکیں جن کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ پاکستانی تاریخی نصابی کتب میں انہیں غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔


ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان بنیادی تقسیم


پاکستانی تعلیمی کتب میں جو چیز سب سے بڑا جھوٹ سمجھا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کی واحد وجہ ہی ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان بنیادی اختلافات تھے، یہ تصور اس خیال پر مبنی ہے کہ ہندوﺅں اور مسلمانوں تہذیبی طور پر منقسم ہے، جو کہ بالکل بھی ٹھیک نہیں۔

مذہب پر زور دینے کی وجہ سے دیگر عناصر کو نظرانداز کردیا گیا جو کہ دونوں شناختوں کے درمیان فرق کو ظاہر کرتی ہیں، مثال کے طور پر جنوبی ہندوستان کے بیشتر مسلمان شمالی علاقوں کی مسلم برادری کے مقابلے میں ہندوﺅں کے کافی قریب لگتے ہیں جس کی وجہ اس خطے کی خاص ثقافت اور زبانیں ہیں۔

اسی طرح ہندو اور مسلم ادوار کی تقسیم کے تاریخ میں ذکر کے حوالے سے اہم حقیقت یہ ہے کہ یہ برطانوی دور میں سامنے آیا، جس میں مسلم بادشاہتوں کو زیادہ نمایاں کیا گیا جو اقتدار کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے رہتے تھے، یعنی بابر نے ابراہیم لوڈھی کو شکست دی اور دہلی سلطنت کا خاتمہ کرکے مغل عہد کا آغاز کیا۔

یہ نصابی کتب دیکھنے میں ایسی تصاویر لگتی ہیں جس مین دونوں مذہبی برادریوں نے ایک دوسرے سے نفرت کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر اس اس کی مثال 1937 کے انتخابات کے بعد کانگریس حکومت کے قیام کی دی جاسکتی ہے۔

دیگر عناصر جو جنوبی ایشیاءکی تاریخ میں تاریخی طور پر مذہبی منافرت کا اظہار کا سبب بنے انہیں نظرانداز کیا جاتا ہے، درحقیقت رچرڈ ایٹن کی ایک مندروں کے بارے میں ایک تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ لگ بھگ ایسے تمام واقعات جن میں ہندو مندروں کو لوٹا گیا، وہ واقعات سیاسی یا اقتصادی وجوہات کی بناءپر پیش آئے۔

بیشتر واقعات کی وجہ یہ تھی کہ مسلم حکمران باغی ہندو حکام کو سزا دینا چاہتے تھے، ورنہ مغل عہد میں تو مندروں کو تحفظ فراہم کیا گیا، اس سے آگے بڑھ کر دیکھا جائے تو بین المذاہب تعاون کا مقصد سیاسی کنٹرول کو برقرار رکھنا تھا جس کی ایک مثال یونینسٹ پارٹی کی بھی دی جاسکتی ہے جو 1946 تک کسی نہ کسی شکل میں پنجاب میں حکمران رہی۔

پاکستان کے قیام کے بعد یہ تصور سامنے آیا کہ اس نئے ملک کی تشکیل ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان طویل اور بنیادی اختلافات کی بناءپر عمل میں آئی۔

— تحریر انوشے ملک: انوشے نے لندن یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی میں ڈگری لی ہے اور وہ اس وقت لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔


رہنماﺅں کی قصیدہ خوانی


مقدمہ ابن خلدون کے دیباچے میں ان سات غلطیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو تاریخ دان اکثر کرتے ہیں، ان میں سے ایک"اعلیٰ حکام کی حمایت حاصل کرنے کی عام خواہش ہوتی ہے، اس مقصد کے لیے ان کی تعریف کی جاتی ہے اور انہیں مشہور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے"۔

یہ غلطی یا جھوٹ پاکستان کی نصابی کتب کو 1950 کی دہائی سے اپنا شکار بنا رہا ہے اور اسے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر گزشتہ حکمرانوں چاہے سویلین ہو یا فوجی، کی قصیدہ خوانی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور بیوقوفی مختلف فریقین کو غائب کرنا ہے، یعنی ہندوستان اور کانگریس کو غیرضروری طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے اور قوم پرستی کی سوچ کو فروغ دینے کے لیے تاریخ کا یکطرفہ تصور پیش کیا جاتا ہے۔

برصغیر کی تقسیم کے بعد سے سکولوں کے طالبعلموں کے لیے تاریخی کتب میں یہ خلاءمووجد ہے اور ان حیرت انگیز طور پر تاریخی حقائق کو موڑ تروڑ کر پیش کرنے کی منظوری وفاقی اور صوبائی ٹیکسٹ بورڈز کی جانب سے دی جاتی ہے۔

مزید یہ کہ ' دشمن' کے خلاف اپنی دشمنی کا اظہار سرکاری تاریخی کتب میں کھلم کھلا اور غیرضروری طور پر بڑھ چڑھ کر کیا جاتا ہے، بدقسمتی سے ایسا ہی سرحد کی دوسری جانب ہندوستانی اسکولوں میں بھی ہوتا ہے۔

بیشتر ریاستیں انیس ویں اور بیس ویں صدی میں تاریخ کے سرکاری ورژن کو استعمال کرتی تھیں تاکہ قوم پرستانہ اور یکساں شناخت کو قائم کیا جاسکے، پاکستان کے پہلے وزیر تعلیم فضل الرحمان نے 1948 میں ہسٹوریکل سوسائٹی آف پاکستان کو قائم کای تھا، تاکہ نئی قوم کی تاریخ کو منصفانہ اور متوازن انداز میں لکھ کر اسے مستند اور قابل اعتبار ذرائع کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔

گزشتہ حکومتوں نے اس مقصد پر توجہ نہیں دی اور پاکستانی اسکولوں میں تاریخ پر لکھنا ٹیکسٹ بک بورڈز کا ہدف بن گیا جس میں مصنفین کے غیراخلاقی اور غیرعالمانہ کاموں کی توثیق کی جاتی جنھیں سرکاری اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔

ذاتی مفاد کے حصول کا یہ طریقہ 2004 کی اوپن ڈور پالیسی کے باوجود ختم نہیں ہوسکا، جس کے تحت نجی پبلشرز کو معیاری درسی کتب کی اشاعت کا موقع فراہم کیا گیا۔

— تحریر عصمت ریاض: عصمت تعلیمی مشیر اور ایک درسی کتاب انڈراسٹینڈنگ ہسٹری کی مصنفہ ہیں۔


تاریخی ادوار کی اکھاڑ پچھاڑ


پاکستانی تاریخ کے حوالے سے درسی کتب میں سب سے نمایاں جھوٹ تاریخی حقائق میں ردوبدل تھا، جو ہماری بین الثقافتی، کثیر النسلی اور بین المذاہب ماضی کو جھٹلانے کا نتیجہ ہے، یہ ایک عام شکایت ہے کہ پاکستان تاریخ کو اس زمانے سے پڑھانے کا آغاز کیا جاتا ہے جب اموی فوج نے سندھ کو فتح کیا تھا۔

سندھ کی بیشتر درسی کتب میں موہنجوڈارو اور وادی سندھ کی تہذیب کا تذکرہ تو موجود ہے مگر اس پر بامقصد انداز میں بحث اور اس کی ثقافتی و دیگر عناصر کا تذکرہ موجود نہیں۔

اس کی بعد کی صدیوں کے اہم ادوار اور واقعات کا ذکر بھی نکال دیا گیا ہے، مثال کے طور پر آریان تہذیب جس نے طاقتور سماجی نظام اور رزمی شاعری (مہابھارت جس میں سندھ اور خیبرپختونخوا نے اہم کردار ادا کیا)، برہمن مذہب، بدھ ازم کے ایک ہزار سال، اس کی یونیورسٹیوں اور گندھارا تہذیب جو کہ موجودہ عہد کے پاکستان میں موجود تھی، کا تذکرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

پاکستانی اسکولوں کا کوئی طالبعلم ہمیں نہیں بتاسکتا کہ پاکستان کا موجودہ خطہ ماضی میں سائرس اعظم اور داریوش کی حخمانیشی سلطنت اور بعد میں ساسانی سلطنت، جس کا حکمران لیجنڈری نوشیرواں تھا، کا حصہ رہ چکا ہے۔ اسی طرح بہت کم لوگ ہی اس بات سے آگاہ ہیں کہ اشوکا اعظم خیبرپختونخواہ، سندھ اور پنجاب پر بھی حکمران تھا۔

اس تاریخی ردوبدل کے پاکستانی نوجوانوں کے ذہنوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں، اور وہ خود کو متعدد تہذیبوں کا وارث کی نظر سے دیکھنے کی بجائے دنیا کو تنگ نظری اور یکطرفہ نظر سے دیکھتے ہیں، یہ وہ تضاد ہے جو انفارمیشن ٹیکنالوجی اور معلومات کے پھلاﺅ کے اس عالمی دور میں زیادہ نمایاں ہوگیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ اسلامی تعلیمات کے بعد خلاف ہے، جس کا اظہار قرآن مجید کی پہلی آیت میں کہا گیا تھا کہ تعلیم کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہیں۔

اس کے برخلاف ہم نے کتابوں، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز جیسے یوٹیوب اور یہاں تک کہ اخبارات پر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پابندی لگارکھی ہے۔

— تحریر حمیدہ کھوڑو: حمیدہ کھوڑہ ایک تاریخ دان اور سندھ کی سابق وزیر تعلیم ہیں۔


دیگر نظریہ


قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان مسلم لیگ کے دیگر اراکین کے ہمراہ
قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان مسلم لیگ کے دیگر اراکین کے ہمراہ

یہ کہنا کہ پاکستانی تاریخی کا بڑا حصہ ہندوستان کے ساتھ مشترکہ ہے، بالکل واضح ہے، اصل فرق دونوں اطراف کے تاریخ دانوں کی جانب سے اسے اپنے انداز سے پیش کرنا ہے، جسے دونوں فریقین ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے بگاڑتے ہیں۔

اس حوالے سے ہیرالڈ نے معروف ہندوستانی تاریخ دان اور جواہر لعل نہرو کے فیلو مشاہیر الحسن کو مدعو کیا تاکہ وہ سرحد کے دونوں اطراف کی درسی کتب میں موجود غلط حقائق کو سامنے لاسکیں۔

تاریخ کو صرف اسباق کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور یہ تاریخ دانوں کا فریضہ ہے کہ وہ دیکھیں کہ اسے کس حد تک ٹھیک طریقے سے پڑھایا جارہا ہے، برصغیر میں بہت کم ہی افراد اس مشورے پر عمل کرتے ہیں، ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہ کی دانشورانہ فضاءنے تاریخی پیشے کو بدنظمی کا شکار کردیا ہے۔

بحث و مباحث کا حصہ بننے والے افراد کی طاقت اور اثررسوخ کی وجہ سے ایسے افراد کی تعداد بڑھی ہے جو بامقصد سوچ سے دستبردار ہوچکے ہیں، حال ہی میں انڈین کونسل فار ہسٹوریکل ریسرچ کا چیئرمین راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو بنانا اعتدال پسند اور سیکولر تاریخ دانوں کے لیے تشویش کا باعث بنا ہے۔

خیالات میں تنوع ہندوستانی تاریخ نویسی کا خاصہ رہی ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کی تخلیق اور ایک ریاست کے طور پر آگے بڑھنے کو مختلف ادوار میں مختلف انداز میں پیش کیا گیا۔

تقسیم کے بھوت کو پس پشت رکھ کر مزید پوسٹمارٹم سے گریز کرنا چاہئے، جبکہ بائیں بازو کے تاریخ دانوں نے پاکستان کے خیال اپنانے سے کبھی انکار نہیں کیا، بلکہ وہ کانگریس قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جو اس تحریک کو آگے بڑھانے میں ناکام رہی جس کا آغاز کمیونزم کی حامی طاقتوں نے کیا تھا۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ مولانا عبدالکلام آزاد اور رام منوہر لوہیہ، خاص طور پر مولانا نے 1937 میں کانگریس مسلم اتحاد سے نجات کے نہرو کے منصوبے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

تارا چند کی ہندوستان میں تحریک آزادی کی تاریخ 1977 تک کافی اہمیت رکھتی تھی پھر جنتا حکومت نے سیکولر درسی کتب کو دوبارہ تحریر کرنے کا فیصلہ کیا، جبکہ اکتوبر 1999 میں بی جے پی کی اتحادی حکومت نے تاریخ کی تباہی کا سلسلہ مداخلت، درسی کتب کی دوبارہ تحریر اور نصاب کی ' فائن ٹیوننگ' کے ذریعے شروع کیا۔

تعلیم کو زعفرانی رنگ پہنانے سے متعصب، اونچی ذات اور جبر وغیرہ ایک طالبعلم کی متوازن اور باشعور سوچ متاثر ہورہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے تاریخی حقائق کو سامنے لانا یا بامقصد تاریخی تحقیق کا دفاع کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

پاکستان کی کہانی مختلف انداز میں بیان کی جاتی ہے، آئی ایچ قریشی اور عزیز احمد سے شروع کرتے ہین جو ہمارے پڑوسی عالم ہیں اور جن کا ماننا ہے کہ مسلم ریاست کا قیام قدرتی عمل کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے دو قومی نظریہ کی وضاحت مکمل طور پر اسلامی اصولوں کے مطابق کی ہے، اس کے دوران وہ ہندوستانی معاشرے کی اتحاد پسند اور جامع پوزیشن کی جانب سے آنکھیں کیے رکھتے ہیں، جس کا آغاز محمد اقبال کی یادگار فقروں سے ہوتا ہے اے آب رود گنگا، وہ دن ہیں یاد تج کو؟ اترا تیرے کنارے جب کارواں ہمارا۔

اسی شاعر نے ایک امن اور خیرسگالی کے مندر" نیا شوالا" پر بھی بات کی ہے، جبکہ اقبال نے ایک اور جگہ مذہبی برداشت اور مطابقت کا سبق بھی دیا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ان خیالات کا اظہار ہماری درسی کتب میں بمشکل ہی ہوتا ہے، ہم سماجی اور ثقافتی ورثے کے تنوع اور شیئر کرنے کے لیے تیار نہیں، ہم اپنے طالبعلموں کو کبیر، گورو نانک، اکبر اور داراشکوہ کے اعتدال پسندانہ ترکے سے متعارف ہی نہیں کراتے، اس کے مقابلے میں ہم اسے کفرو ایمان کی جنگ قرار دیا جاتا ہے، جس میں مندروں کی تخریب اور جبری مذہب قبول کرنے جیسے واقعات کو اچھالا جاتا ہے، اسی طرح نوجوان طالبعلموں میں اسلامی یا ہندو توا نظریات کو متعارف کرایا جاتا ہے جس سے سول سوسائٹی اور ریاست کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

سعادت حسن منٹو نے ایک زندہ حقیقت کی وضاحت کی ہے وہ یہ کہ دونوں اطراف میں رہائش افراد کے درمیان ثقافتی اور سماجی رابطوں کی طویل تاریخ ہے، جبکہ دونوں سرحدوں کی ایسی شخصیات کو مرکز بنایا گیا ہے جن کے قوموں کی تعمیر کے حوالے سے نظریات مبہم ہیں، منٹو نے کچھ کہے بغیر اس ضرورت پر زور دیا ہے کہ ریاستی سرپرستی میں بننے والی قومی تاریخ میں درستگی لانے کی ضرورت ہے۔

عائشہ جلال نے بالکل صھیح نقطہ اٹھایا ہے کہ پرانے کٹر نسل نئے تاریخی شواہد کا سیلاب سامنے آنے کے بعد پیچھے ہٹ رہے ہیں، جس سے پرانی غلطیاں نئے تضادات میں چھپ رہی ہے، یہ وقت ان کو ٹھیک کرنے کا ہے، اب وہ نظریات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جنھوں نے آزادی کے سورج کو علیحدگی کے تکلیف دہ لمحے میں تبدیل کردیا تھا۔


ہندوستان سے جنگیں


پاکستان میں تاریخ کی تدریسی کتابوں میں سب سے نمایاں جھوٹ ایسے ایونٹس کے بارے میں جو تاحال ہماری یادوں میں زندہ ہیں، اس کی متعدد مثالیں ہیں، جن میں سے نیچے دی جارہی ہیں جو 1965 اور 1971 کی جنگوں سمیت 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے موقع پر ہونے والی خونریزی کے بارے میں ہے۔

اس جھوٹ کی وجہ قوم پرستی کے بارے میں ہمارے مسخ تصورتات ہیں، بچوں کو ہماری تاریخی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا موقع فراہم کرنے کی بجائے ہم انہیں غلط تصویر دکھاتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ہم نسل درنسل وہی غلطیاں دہرائے چلے جارہے ہیں۔

ہندوستان کے ساتھ 1965 کی جنگ کے بارے میں ایک اقتباس خیبرپختونخوا کے ٹیکسٹ بورڈ کی جانب سے 2002 میں شائع کی گئی پانچویں جماعت کی ایک کتاب سے لیا گیا ہے" پاکستانی فوج نے ہندوستان کے متعدد علاقوں کو فتح کرلیا اور پھر ہندوستان خود کو شکست کے دہانے پر دیکھ کر اقوام متحدہ کی جانب بھاگ کر جنگ بندی کی اپیلیں کرنے لگا، اس کے بعد پاکستان عالی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوستان کے فتح کردہ علاقوں سے واپس لوٹ آیا"۔

پنجاب ٹیکسٹ بورڈ نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجوہات پر 1993 میں سیکنڈری کلاسز کے لیے یہ مضمون شامل کیا تھا" مشرقی پاکستان میں ہندو بڑی تعداد میں مقیم تھے، انہوں نے کبھی پاکستان کو دل سے تقسیم نہیں کیا، ان کی بڑی تعداد اسکولوں اور کالجوں میں پڑھانے کا کام کررہی تھی"۔

اس طرح وہ طالبعلموں میں ایک منفی تاثر تخلیق کررہے ہیں، ان کی نظر میں نوجوان نسل کے لیے تصور پاکستان کی وضاحت کی کوئی اہمیت نہیں۔

کتاب میں مزید کہا گیا ہے" ہندو اپنی آمدنیوں کا بڑا حصہ ہندوستان بھیج رہے تھے جس سے صوبے کی معیشت بڑی طرح متاثر ہوئی، کچھ سیاسی رہنماﺅں نے ذاتی مفادات کے لیے صوبائیت کی حوصلہ افزائی کی، وہ مرکزی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور مغربی پاکستان کو دشمن اور استحصال کرنے والا قرار دینے لگے، سیاسی عزائم کے حصول کے لیے قومی اتحاد کو داﺅ پر لگا دیا گیا"۔

انٹرمیڈیٹ کے طالبعلموں کے لیے سوکس آف پاکستان کی 2000 کی کتاب میں یہ خط بھی شامل ہے" اگرچہ مسلمانوں کی جانب سے تقسیم کے موقع پر غیرمسلموں کو پاکستان چھوڑنے کے لیے ہر طرح کی مدد فراہم کی گئی، تاہم ہندوستانی عوام نے پاکستان ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی نسل کشی کی، انہوں نے مسلم مہاجرین کو لیکر جانے والی ٹرینوں، بسوں اور ٹرکوں پر حملہ کرکے انہیں قتل کیا ور لوٹ مار کی"۔

ایم ڈی ظفر کی پاکستان اسٹیڈیز میں دی گئی کچھ مثالیں مکمل طور پر حقائق کے برخلاف ہیں، جیسے " پاکستان کا قیام اسی وقت عمل میں آگیا تھا جب عربوں نے محمد بن قاسم کی قیادت میں سندھ اور ملتان کو فتح کرلیا، عرب حکمرانوں کے زیرتحت زیریں وادی سندھ میں پاکستان قائم ہوگیا تھا۔

اسی طرح" گیارہویں صدی کے دوران غزنول سلطنت ان علاقوں پر مشتمل تھی جو آج پاکستان اور افغانستان کا حصہ ہیں، بارہویں صدی میں غزنوی حکمران افغانستان سے محروم ہوگئے اور ان کا اقتدار پاکستان تک محدود ہوگیا"۔

ایک اور جگہ ذکر ہے" تیرہویں صدی میں پاکستان پورے شمالی ہندوستان اور بنگال تک پھیل گیا، خلجی عہد حکومت کے دوران پاکستان جنوب کی جانب بڑھا اور وسطی ہندوستان اور دکن تک پھیل گیا"۔

کتاب کے مطابق" سولہویں صدی میں ہندوستان مکمل طور پر پاکستان میں جذب ہوگیا"۔

اسی طرح" شاہ ولی اللہ نے افغانستان اور پاکستان کے بادشاہ نادر شاہ درانی سے مغل ہندوستان کے مسلمانوں کی مدد کے لیے اپیل کی تاکہ انہیں مراٹھا جنگجوﺅں سے بچایا جاسکے"۔

ایک اور جگہ لکھا ہے" پاکستانی خطے میں جہاں ایک سیکھ ریاست قائم ہوگئی تھی، وہاں مسلمانوں کو مذہب کی آزادی دینے سے انکار کردیا گیا تھا"۔

کتاب میں مزید لکھا ہے"اگرچہ پاکستان کا قیام اگست 1947 میں عمل میں آیا، تاہم اس کی بنیاد انیسویں صدی کے وسط میں ہی برطانوی راج کے آغاز کے موقع پر پڑچکی تھی، اس وقت نام تو مختلف تھا مگر موجودہ عہد کا پاکستان اس وقت موجود تھا"۔

— تحریر اے ایچ نیئر: اے ایچ نیئر ریٹائرڈ پروفیسر ہیں، جنھوں نے ایس ڈی پی آئی کی ایک رپورٹ کی تیاری میں حصہ لیا، جس میں پاکستان کی درسی کتب کا جائزہ لیا گیا تھا۔


پاکستان مسلمانوں کے تشکیل دیا گیا۔


ڈان اخبار کے بارہ ستمبر 1948 کے شمارے میں محمد علی جناح کی موت کا اعلان کیا گیا
ڈان اخبار کے بارہ ستمبر 1948 کے شمارے میں محمد علی جناح کی موت کا اعلان کیا گیا

تاریخ کی کتابوں میں سب سے بڑا جھوٹ یہ موجود ہے کہ پاکستان کے قیام کا مقصد مذہب کی فروغ اور اس کی توسیع تھا، درحقیقت جب 1906ءمیں ڈھاکہ میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تو اس کے اولین اصولوں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ برطانوی حکمرانوں کی وفاداری کے ساتھ مسلمانوں اور برطانوی حکومت کے تعلقات کو فروغ دینا ہے۔

مذہب کو شامل کرنے خیال مسلم لیگ کے اندر 1937 کے انتخابات سے قبل سامنے نہیں آیا تھا، جس میں مسلم لیگ کو شکست اور کانگریس کو واضح فتح حاصل ہوئی تھی، یہ وہ وقت تھا جب مذہبی قوم پرستی کی لہر ابھری اور اترپردیش، بنگال اور پنجاب کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا احساس پیدا ہوا تاکہ اس تصور کے تحت مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کیا جاسکے۔

پاکستان کے قیام بنیادی طور پر اس طبقے کے تحفظ اور ترقی کے لیے عمل میں آیا جو مسلم لیگ کی تشکیل میں پیش پیش تھا، مسلم لیگ کی تشکیل کے موقع پر جو افراد موجود تھے وہ اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھتے تھے، جنھیں یہ ڈر تھا کہ جب برطانوی سامراج ہندوستان سے چلا جائے گا اور نمائندہ حکومت کا قیام عمل میں آجائے گا تو امراءکی وفادار مسلم طاقت انتشار کا شکار ہوجائے گی، خاص طور پر کانگریس میں موجود طبقات جن میں بیشتر پرھے لگے شہری اور دیہی مڈل کلاس کے افراد پر مشتمل تھے، آگے بڑھ کر سیاسی طاقت حاصل کرلیں گے۔

بنگال کی کاشتکار تحریک کو آگے بڑھانا مکمل طور پر سیاسی مقاصد کے لیے تھا کیونکہ اس کے عزائم اور تصور جاگیردار طبقے کے عزائم کے خلاف تھے۔

یوپی کا پڑھا لکھا مڈل کلاس شہری طبقہ جو بعد میں مسلم لیگ میں شامل ہوگیا جس نے 1940 میں ہندو مسلم تقسیم کی بحث کا اعلان کیا، آزادی کے فوری بعد مسلم قوم پرستی سے اجتناب برتا گیا کیونکہ اس کے سیاسی استعمال کے مقاصد پورے ہوچکے تھے۔

ریاست کا وہ تصور جو پڑھے لکھے شہری طبقے نے 1947 میں پیش کیا تھا، اس کی بنیاد ریاستی جماعتی ویژن پر رکھی گئی تھی جس میں ہر ایک کو یکساں مذہبی و شہری حقوق حاصل ہوں گے۔

— تحریر روبینہ سہگل: روبینہ ایک عالم ہیں اور تعلیم، معاشرے اور حقوق نسواں پر متعدد کتب تحریر کرچکی ہیں۔

تبصرے (35) بند ہیں

akn Aug 16, 2014 04:59pm
Blog would be more fine if the author could have indicated the reasons behind the following. Why was the party named as "Muslim League". Why it was only muslims who migrated to Pakistan. What were the needs of separate state/country, in short.
haider iqbal Aug 16, 2014 06:07pm
> 1. **ap ki achhi bahut achhi koshish ho rahi hay,,, ap ki yee koshish raegaan nahin jaey gee,, insha allah,, ameenn**
Nasar Khan Aug 16, 2014 06:17pm
I am not saying anything against the blogger but she failed to present the things correctly, blog is confusing and blogger has left many discuss-able things incomplete. and yes we use education a s a tool of brainwashing by putting such wrong content in our educational material. over all good effort.
آشیان علی Aug 16, 2014 08:01pm
6ستمبر1965 کی رات دشمن نے بغیر کسی اعلان کے پنجاب پر حملہ کر دیا. ٹینک کا گولہ میجر عزیز کے بائیں کندھے پر لگا اور وہ زخمی ہو گئے. جیسے جھوٹ تو ہزاروں ہیں ہمارے نصاب مٰیں جو ہم پڑھ کر تعلیم یافتہ ہو گئے ہیں. محمد بن قاسم ملتان تک پہنچ گئے اس کے بعد اس کی شہادت یا موت کی تفصیل نہ بتانا جھوٹ سے بھی بڑی بد دیانتی ہے. ٹیپو سلطان نے اپنے بیٹوں کو گروی رکھ کے سلطنت بچانے کی کوشش کی مگر آدھا سچ بتا کر ہمیں تو نصاب نے جاہل ہی بنایا ہے. حیرت انگیز بات ہے اردو، اسلامیات، معاشرتی علوم اور مطالعہ پاکستان کی کتب میں مذہب کے نام پر بہت کچھ شامل ہے حتیٰ کہ فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی کی کتب میں بھی طالب علموں کی مسلمانی کو مظبوط کرنے کے لیے بہت کچھ موجود ہے. مجھے حیرت اس بات پر پے مذہب پر اتنا ذیادہ فوکس کرنے کے باوجود نبی پاک ص کے وصال ان کے کفن تدفین لحد کی تیاری اور نماز جنازہ کی ادائیگی تک سے متعلق ایک فقرہ بھی شامل نصاب نہیں ہے. حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت حسن، حضرت حسین . امی عائشہ کے ادوار حکومت اور ان کی باہمی لڑائیوں اور ایک دوسرے کے خلاف حکمت عملیوں سے متعلق اسلامی اور تاریخی حقائق سے طالب علموں کو جان بوجھ کر لا علم رکھا جاتا ہے. جبکہ ہزاروں سال بعد کے عربی ناموں والے حکمرانوں کے حالات کو اسلامی تاریخ قرار دے کر باقاعدہ تاریخ سے گمراہ بنایا جاتا ہے. میرا ذاتی خیال ہے نصاب مٰیں شامل جھوٹ کی بنسبت آدھا سچ یا سچ بیان ہی نہ کرنا ذیادہ بڑی بد دیانتی ہے. (ایڈیٹر بھائی ایڈیٹ کر دینا ڈیلیٹ نہیں کرنا پلیز)
Mubashir Aug 16, 2014 08:52pm
Writer is having no strength in narrating the topic, all the issues presented seem quite weightless, I think he is not sure what he is going to present
کاشف Aug 16, 2014 08:52pm
@akn: بہت خوب
Muzaffar Ghul Aug 16, 2014 10:13pm
Its a good thing & good topic to be discussed. But here I realised that Pakistan history is flawed according to authors. Reason behind the Partition of sub-continent & creation of Muslim league are not well judged. And above all, Such topic is very critical & sensitive, should be presented cautiously & with due experts not with mere degree holders.
yasar ahmad Aug 16, 2014 11:04pm
@آشیان علی: sahi kaha bhai aap ny
yasar ahmad Aug 16, 2014 11:03pm
بھت خوب
Muhammad Asif Shabbir Aug 17, 2014 05:11am
Kuch samajh nahin aaya - writer kya kehna chahta hai ????
Aijaz Hussain Aug 17, 2014 09:30am
You are wrong don't mis lead people...All are correct history, Pakistan was made based on religion (see how indian muslims are marrying their daughters with hindus but we in pakistan are safe. In 1965 war pakistan captured many cities of india, khem karan, ikhnore, destroyed halwaara, pathankot, they were near to srinagar when indian statarted crying sio their friend russia intervened...and all others you mentioned are correct too.
Sehrish Aug 17, 2014 01:59pm
@Nasar Khan: incomplete material is given .... there is no correction provided to the things called as wrong
kamran Aug 17, 2014 04:19pm
@آشیان علی: well said ali bhai lakin un students ka mind abi itny strong nai hoty. wo mulims ke apas mein hony wali wars ko negatively la ga .jo data ap chahty han wo master level pa btany chiay thanks
noor Aug 17, 2014 04:23pm
Such a confusing blog, Kuch samj nhi araha, Blogger ya authors ne her chiz pa tanqid ki hai, liken ye nhi batay k sahi kia hai, bas logon ko pakistan ki tarikh k baray mn confuse ker rahe hain.
Etruth Aug 17, 2014 05:36pm
So you mean instead of reading about our Islamic culture,Muslim movement for Pakistan only we instead read more about hindu and budhism.what purpose we have to read others as we should only need to learn what our muslim did.
irfan Aug 17, 2014 06:48pm
I am from the south Indian stateTelangana, and feel that we should always be truthful in showing our history to the next generation no matter if this is against of us we will learn from our past experience, based on my personal experience with Muslims of both India and Pakistan that we are still in the sleeping mode, we dont know whats happening around the world.
Nasar Khan Aug 17, 2014 07:48pm
@Sehrish: Ty for correcting me! i was also meant to say confusing or incomplete or missing but i think i used a inappropriate word.
عظیم حسن Aug 18, 2014 12:10am
میرا یہ کنسرن تو نہیں کہ میں تاریخی واقعات کی حقیقی تصویر سامنے لاوں مگر یہ ضرور چاہوں گا کہ ایک سوال اٹھاوں کہ آخر یہ کون لوگ ہیں جو تاریخی حقایق کو اپنی مرضی کا افسانوی رنگ دے کر عوام الناس سے کیا مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں اور خاص طور یہ جو مذہبی ٹھیکداران ہیں جو ہمارے سامنے ایسی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں اور ایسے ایسے غلو پیش کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ ، میں بس یہ درخواست کرتا ہوں کہ روایات کو روایات ہیں رہنے دیں تاریخ کو تاریخ ہی رہنے دیں اگر آپ اس مٰیں اپنی مرضی شامل کریں گے تو ہم تاریخ سے سیکھ نہٰیں سکیں گے اور اس طرح تاریخ ہم سے نہیں گزرے گی
یمین الاسلام زبیری Aug 18, 2014 05:54am
یہ ایک اہم بحث ہے. درست تاریخ پڑھانے سے ہرگز ڈرنا نہیں چاہیے؛ درست تاریخ پڑھ کر ہم اچھے انسان ہی پیدا کر سکیں گے جو ہمارے لیے معاون ہی ہوں گے. یہ چھیاسٹ کی بات ہے میں کینٹ پبلک اسکول میں آٹھویں کا طالبعلم تھا؛ اچانک، ابھی نصف تعلیمی سال بھی نہ گزرا ہو گا کہ اردو کا نصاب تبدیل کرکے اس میں سے غالب و اقبال نکال کر جنگی پینسٹھ کے جنگی نغموں کی کتاب متعا رف کرا دی گئی. ان نغموں کو پڑ کر ہم سب کو اس قدر ہنسی آتی تھی کہ بیان نہیں کر سکتا==== ایک اہم گزارش: ڈان ریڈرز ایڈیٹر کے قیام کے بعد اسقدر ہجا کی اغلاط ہیں اس مضمون میں. اگر ریڈرز ایڈیٹر کا کام کچھ اور ہے تو معاف کیجیے گا.
umar habib Aug 18, 2014 09:46am
sallam to all..muje afsos hay k ..kuch log pakistan khelaf lektay hay..awr ye Blog b against pakistan hay..jo hamari generation ko confuse karti hay..Pakistan muslim awr islam k naam bana hay..awr hamesha qayim rahega inshallah
عظیم حسن Aug 18, 2014 01:24pm
@umar habib: بھائی خدا کرے کہ پاکستان قیامت کے بعد تک سلامت رہے اور یہ اسلام کا قلعہ ثابت ہو جس کے لئے ہر پاکستان اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اگر کہیں ان دونوں کے خلاف کوئی عمل ہو رہا ہو تو اس کو روکیں ہم سرکاری تاریخ اور سرکاری مذہب پڑھنے کے پابند نہیں ہیں کیونکہ سرکار میں ہمیشہ وہ ہی لوگ رہیں ہیں جنھوں نے وطن عزیز کو دانستہ یا دانستہ نقصان ہی پہنچایا ہے یہ قوم کو مذہب اور تاریخ سے وابستگی کی بنیاد پر اس طرح کا علم پھیلا رہے ہیں کہ جو ان کی حاکمیت کو دوام بخش سکے یہ جان بوجھ کر ایسے مذہبی گروپ پیدا کرتے ہیں کو جو لوگوں کو ہمسایوں سے نفرت سکھائیں اور ایسے عقائید پھیلایئں کہ وہ آپس میں بھی لڑتے جھگڑتے رہیں ایسے میں آپ جیسے محب الوطن لوگوں کی یہ ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ محطاط رہیں اگر پاکستان اور ہندوستان کے حکمران عوام الناس کے درمیان نفرت کی تعلیم ی ترویج نہیں کریں گے تو فوجی اخراجات جو ہماری ٹوٹل معیشت کا ایک بڑا حصہ ہے وہ غریب لوگوں کی تعلیم اور صحت پر خرچ ہوتا اور اگر ہمیں ہمارے اسلاف اور حکمرانوں کی خوبیوں کے ساتھ ان کی خامیوں کا بھی ادراک ہو جاتا تو ہم آج تاریخ سے سبق حاصل کر کے ایک بہتر مستقبل ڈیزائین کر سکتے تھے ہمیں تو یہ بتایا گیا کہ وہ فرشتے تھے ان کا بادشاہت عین اسلامی تھیں اور وہ اسلام کہ سربلندی کے لئیے اپنی جانوں کے نظرانے پیش کرتے تھے حا لا نکہ کہ ان میں بیشتر ایسے تھے جو صرف اپنی نسلی برتری اور اپنی خاندانی طاقت کو دوام بخشنا چاہتے تھے اور ہم نے انھیں مذہبی ہیرو بنا دیا ورنہ مجھے یہ بتائیں کہ کون صاحب ایسے گزرے ہیں جنھوں نے اسلامی نظام کا نفاذکیا ہو اور غیر جانبدار مشاور
Abdul Jamali Aug 18, 2014 01:26pm
Totally right,,,, nice article
Muhammad Azeem Khan Aug 18, 2014 02:23pm
Most of the topics claimed to be wrong and lie in this article are truth. Discussing only two points here in this review. 1. Two Nation Theory which is the basis of division between hindus and Muslims is claimed to be false. Well originator of this theory is our beloved Prophet Muhammad Sallallah o Alaihi Wassalam, when he said "Islam is one nation and kufr is one nation...". So in fact anyone who questions this idea questions the authority of Prophet. And I let readers decide where such a person stands in terms of his faith in Islam. 2. Second self proclaimed lie of forming a nation in the name of Islam itself asks a big question that if it was not made in the name of Islam, then why even bother to divide. One speech of Quaid e Azam which is also contested by many critics to be fabricated can not deny Pakistan Resolution. Dream of Iqbal which was to establish a state for Muslims. Those who do not believe in Two Nation Theory and Islamic Identity of Pakistan are humbly asked to please leave it, have mercy on millions of Pakistani hearts and stop confusing them.
babar bin dilawae Aug 19, 2014 01:16pm
@Muzaffar Ghul: its true that all the text book histor4y in pak and india is biased.
babar bin dilawae Aug 19, 2014 01:16pm
@Muhammad Azeem Khan: azeem you explained truly for two nation theory but as human being u can not ignore the centires effect
numan May 26, 2015 08:00pm
I am always get confused if there was mo distance between Muslim and hiindus then they why twwo nation theory born
numan May 26, 2015 08:03pm
Brother sometime its good to forget history like europe and germany forgot about thier wars.but yeah its time to update sllybus
Mohammad Khan Sail May 27, 2015 04:45pm
I had watched an interview on GEO NEWS TV Channel of Ahmed Kamal - renowned ex-Pakistan's Ambassador in various countries and Ex-Permanent Representative of Pakistan in UN who categorically said Pakistan was defeated in all wars, it launched against India including of 1965 War whereas people of Pakistan were rest assured by the then rulers that Pakistan had won the war but it was wrong.
junaid May 27, 2015 05:57pm
What is right and what is wrong who will decide? Social subjects have controversies even science too. So what is the point I don't understand. Its all about politics power economy.
Shakeel Ahmad May 27, 2015 08:37pm
نصاب میں جھوٹ شامل ہو یا سچ۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے ۔ اگر اسلام کے نام پر نہیں تو ہندوستان کے ساتھ ہی رہنا بہتر تھا۔ آرٹیکل میں کوشش کی گئی ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ پاکستان کے بنانے کی وجوہات صرف سیاسی تھیں۔
Syed Inam Bukhari May 27, 2015 09:27pm
Who is this guy? What is the counter narrative here else than just saying wrong in most of the cases and what's if any authenticity in it.?
Rahim Sabir May 28, 2015 11:54am
یہ بلکل درست مقالہ ترتیب دیا ہے اور سو فیصد حقیقت پر مبنی ہے۔ہمارے ملک میں نفرت اور تعصب پھیلانے میں بنیادی کردار درسی کتب کا ہے۔ہمیں پرائمری کے کتابوں میں کیا کیا نہیں پڑھایا گیا۔۔۔۔۔اور پتہ ہمیں بی اے کے بعد کچھ تاریخی کتابوں کو پڑھنے کے بعد چلا کہ ہمارے ٹیکسٹ بورڑز والوں نے برسوں سے کھیل کھیلا ہے۔مورخ کے کے عزیز کی کتاب دی مرڈر اف ہیسٹری سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔۔۔۔۔۔ہم تاریخ سے منہ موڑ رہے ہیں اور ساری زمہ داری ٹیکسٹ بورڈ کے سر جاتی ہے۔ہمیں دوسری جماعت میں ہی معشرتی علوم کی کتاب میں پڑھایا گیا کہ ہندو زات پات کی تفریق کا شکار تھے اور بتوں کو پوجتے تھے۔۔۔ہم نے بچپن کی نا سمجھی میں کتاب میں سے ایک بت کی تصویر پھاڑ ڈالی اور ہمیں سزا صرف کتاب پھاڑنے کی وجہ سی ملی۔۔۔۔۔۔ایک طرف پڑھایا گیا کہ پاکستان میں مسلامانوں کے علاوہ بھی دیگر مذاہب کے لوگوں کو جینے کا حق حاصل ہے اور دوسری طرف ان کے خلاف نفرت انگیز مضامین پڑھادئے گئے۔۔۔۔نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔
Rahim Sabir May 28, 2015 11:56am
ہم ایک جھوٹے معاشرے اور جھوٹے نصاب دانوں کے کئے کی سزا بھگت رہے ہیں
Irshad May 28, 2015 05:40pm
@akn ...Please have a look into Quaid e Azam speaches when he is urging Muslim of India not to migrate to Pakistan. Muslim league was founded by one bangali nawab and two Indian nawab and was hijacked by politicians in West Pakistan. How come bangalis termed as traitor if they founded the Muslim League?. Bangladesh was formed in 1971. Why the establishment and politicians waited since 1970 elections and victory was given to party who got only 81 seats instead of 160 by awami league.
Kamran May 29, 2015 12:56pm
@آشیان علی Behtareen comment !!

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024