بجلی کا حل: کوئلا
حکومت نے پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے کوئلے سے چلنے والے بجلی کے 10 نئے پلانٹس کی منظوری دی ہے۔ اس وقت ملک کے کچھ علاقوں کو 20 گھنٹے روزانہ بجلی نہیں مل رہی۔
پاکستانی وزیر بجلی و پانی، خواجہ آصف، نے قوم سے معافی مانگتے ہوئے بجلی کی بحالی اور لوگوں کی مشکلات کم کرنے میں ناکامی کا اعتراف بھی کیا ہے۔
پاکستان کے پاس 22,797 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے، لیکن اس کی پیداوار محض 12,000 میگاواٹ تک محدود ہے۔ پورے ملک میں درجہ حرارت 40 ڈگری سے تجاوز کرنے کی وجہ سے بجلی کی طلب بڑھ کر 19,000 میگاواٹ ہوچکی ہے۔
وزیر موصوف نے کہا ہے کہ اعلان کردہ لوڈ شیڈنگ کا فیصلہ گردشی قرضے کے مسئلے کی وجہ سے کیا گیا ہے جو بڑھ کر 300 ارب روپے (3 ارب امریکی ڈالر ) تک پہنچ چکا ہے۔ ’’گردشی قرضہ‘‘ بجلی کے شعبے میں کیش فلو کا مسئلہ ہے جو نجی اور سرکاری صارفین کی جانب سے بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اور جس کی وجہ سے سبسیڈیز میں تاخیر ہوتی ہے۔ نتیجتاً، بجلی کمپنیاں تیل کی کمپنیوں کو ادائیگی نہیں کر پاتیں اور بجلی کی فراہمی کا پورا سلسلہ متاثرہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے ایندھن کی کمی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے واقعات پیش آتے ہیں۔
اب حکومت ماہرین ماحولیات کے لئے سخت تشویش کا باعث بنتے ہوئے کم لاگت کی بجلی پیدا کرنے کی کوشش میں گندے ترین دقیانوسی ایندھن کوئلے کی طرف متوجہ ہو رہی ہے۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف کی حکومت نے پورے ملک کے مختلف صوبوں میں کل 12,000میگاواٹ بجلی کی پیداوار حاصل کرنے کے لئے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے 10پلانٹس کی منظوری دی ہے جوکہ ملک بھر میں بجلی کی موجودہ پیداوار سے دوگنا ہے۔ان پلانٹس میں سے زیادہ ترکو چائینیزاور دیگر غیر ملکی کمپنیاں فنڈ کریں گی اور انہیں چلائیں گی۔ حکومت نے کوئلے کے استعمال پر تبدیل ہونے کے لئے تیل کے سرکاری پلانٹس کے ابتدائی منصوبے بھی بنا رکھے ہیں۔
بجلی کے بغیر
پاکستان میں بجلی کی کمی بحرانی حدوں کو چُھوچکی ہے۔ حالانکہ 70 فیصد گھرانے قومی گرڈ سے منسلک ہیں، صرف چند ایک کو بلا تعطل بجلی حاصل ہو رہی ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ شہری مراکز میں 10 اور دیہی علاقوں میں 20 گھنٹوں تک پہنچ چکی ہے۔
منصوبہ بندی کی شدید کمی کی وجہ سے، توانائی کا شعبہ بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ماہرین کئی برسوں سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے ناہموار توانائی مکس کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان انرجی بک 2012 کے مطابق، پاکستان کی 31 فیصد توانائی تیل، 50 فیصد گیس اور صرف 6.6 فیصد کوئلے سے پیدا ہو رہی ہے۔ اس کے برعکس، چین اور بھارت علی الترتیب 63 فیصد اور 47 فیصد اپنی بجلی کوئلے سے پیدا کر رہے ہیں۔ تیل اور گیس پر انحصار کی وجہ سے صارفین کو انتہائی مہنگی بجلی مل رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پانی، ایٹمی توانائی اور ہوا سے بجلی حاصل کرنے کی ملکی استعداد انتہائی کم ہے۔
جب مئی 2013 میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) حکومت میں آئی تو اس کے رہنما نواز شریف نے دو سال کے اندر اندر بجلی لوڈشیڈنگ کی لعنت کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ پارٹی نے اپنی ترجیحات کی فہرست میں بجلی کے بحران کو معیشت کے بعد دوسرا درجہ دے رکھا ہے۔
اس وقت کوئلہ جنوبی افریقہ، انڈونیشیا اور آسٹریلیا سے درآمد کیا جا رہاہے۔ لیکن پاکستان کے پاس خود اپنے ایسے وسائل موجود ہیں جنہیں استعمال نہیں کیا جارہا۔ صوبہ سندھ کے صحرائے تھر میں بیس سال سے زائد عرصہ قبل ملنے والے 200ارب ٹن کوئلے کے وسائل کو ابھی تک استعمال نہیں کیا گیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کے لئے بہتر ہو گا کہ وہ سمندر پار سے کوئلہ درآمد کرنے کے بجائے ان ذخائر کا استعمال کرے۔ اسلام آباد میں واقع تھنک ٹینک دیرپا ترقیاتی پالیسی انسٹی ٹیوٹ (SDPI) سے منسلک توانائی کے ایک ماہر طاہر ڈھنڈسا کہتے ہیں کہ ’’یہ کوئلہ بخارات بن کر تیزی سے اڑنے والا، انتہائی آتش ہے اور اسے ماخذ پر جلایا جا سکتا ہے جس سے بہت کم آلودگی پیدا ہوگی۔‘‘
لیکن ماہر توانائی ارشد ایچ عباسی اس بات سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت آب و ہوا کی تبدیلی، ماحولیات اور انسانی صحت کے بہت بڑے پہلو کو نظر انداز کر رہی ہے۔ ہارورڈ میڈیکل اسکول کی جانب سے 2011 میں کی جانے والی اسٹیڈی میں بیان کیا گیا ہے کہ کوئلے سے چلنے والا ایک مخصوص پلانٹ ہر سال تقریباً 3.5ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتا ہے۔ اس اسٹیڈی میں اس کی کھدائی سے لے کر اس کی نقل و حمل اور جب تک اسے جلایا جاتا ہے، انسانی صحت اور ماحول پر کوئلے کے تمام ناموافق اثرات کی تفصیل شامل کی گئی ہے۔
پاکستان کی توانائی کی مشکلات کے حل کے لئے پانی سے بجلی کا حصول تجویز کرتے ہوئے عباسی کہتے ہیں کہ بڑے یا چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کو غیر ضروری طور پر سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے اور اس کے زیادہ تر حصے کے لئے، میں ڈیم مخالف بین الاقوامی لابی کو ذمے دار ٹھہراتا ہوں
انہوں نے سوال کیا کہ ہمارے پاس بارہ ماہ بہنے والے دریا موجود ہیں تو پھر ہم کیوں اس پر کام نہیں کرتے؟
ڈھنڈ سا بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پانی سے بجلی کی پیداوار ایک بہتر ترجیح دی ہے۔ تھرڈپول ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’یہ انتہائی سستی ہے۔ منگلا ڈیم سے حاصل ہونے والے بجلی کی لاگت 0.0025 سینٹ فی یونٹ سے زائد نہیں ہے جب کہ تھرمل پلانٹ سے حاصل ہونے والی بجلی کی لاگت 14 سینٹ فی Kwh ہے۔ اس کے لئے صرف ابتدائی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، جس کے بعد یہ مفت پڑتی ہے۔ اور اس کا پانی زرعی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘
اگرپانی سے بجلی پیدا کرنے کے بڑے اور چھوٹے پلانٹس لگا دیئے جائیں تو 50,000 میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کی جاسکتی ہے لیکن فی الوقت اس ذریعے سے صرف 7,000 میگا واٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔
ڈھنڈسا کہتے ہیں کہ ’’بد انتظامی اور بد عنوانی‘‘ دو ایسی بڑی وجوہا ت ہیں جن کی وجہ سے کوئلے کو پانی سے بجلی پیدا کرنے پر ترجیحی دی جاتی ہے۔
پانی سے بجلی پیدا کرنے کے پراجیکٹس مکمل کرنے کے لئے ایک لمبی مدت درکار ہوتی ہے اور منتخب حکومت کا دورانیہ محض پانچ برس تک رہتا ہے؛ دوسری جانب، رشوت لے کر کوئلے سے بجلی حاصل کرنے کے پلانٹس لگانے میں یہ پلانٹس محض چھ ماہ میں کام شروع کر سکتے ہیں۔
چین اور امریکہ سے سبق حاصل کریں
سن دوہزار بارہ میں، جنوبی ایشیا میں کوئلے کا استعمال 685 ملین ٹن کے قریب تھا، بھارت میں اس کا ستعمال 98 فیصد تھا، جس کا ایک بڑا حصہ بجلی پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
عباسی کہتے ہیں کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس سب سے زیادہ آلودگی پھیلاتے ہیں۔ یہ پلانٹ سردیوں میں بین السرحدی دُھند پیدا کرتے ہیں اور مون سون بارشوں وغیرہ سمیت موسمی ترتیب کو بدل دیتے ہیں
انہوں نے کہا کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ گلیشیئر پگھلنے کا عمل کوئلہ جلنے کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان میں واقع پنجاب کے حصوں میں دھند بھارت میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کا براہ راست نتیجہ ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان پھر بھی اپنے پڑوسیوں سے سبق حاصل کرنے سے انکاری ہے۔
چین اور امریکہ اتنا زیادہ کوئلہ جلاتے ہیں جتنا کہ پوری دنیا مل کر جلاتی ہے۔ انہوں نے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی صاف ٹیکنالوجی کے بارے میں معلومات کے تبادلے پر اتفاق کر رکھا ہے۔
چین، امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک پر زور دے رہا ہے کہ وہ غریب قوموں کی مدد، دھوئیں کے اخراج میں کمی کے لئے مالی مدد فراہم کرنے کے طریقہ جات طے کریں اور آب و ہوا کی تبدیلی کو اپنائیں، لیکن امریکہ ایسا کوئی وعدہ کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہا ہے۔ آب و ہوا کے بارے میں دسمبر 2015میں پیرس میں منعقد ہونے والے اگلے سربراہ اجلاس کا انتہائی اہم ہدف گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں کمی اور عالمی درجہ حرارت کو موجودہ سطحوں سے 2ڈگری سینٹی گریڈاوپر تک محدود کرنا ہے۔ چین نے اپنے ہاں دھوئیں کے 2005کے جی ڈی پی فی یونٹ 45فی صد اخراج کو2020تک کم کرنے کا عہد بھی کر رکھا ہے۔
پاکستان جس نے ایک بڑے پیمانے پر کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کیا وہ اس دباؤ کے تحت ان پراجیکٹس کو ختم کر دے گا؟
ڈھنڈسا ایسا نہیں سوچتے کیوں کہ بڑے پیمانے پر آلودگی پھیلانے والے اپنے لالچ کی خاطر کوئلے کے میدان میں اپنی ترقی جاری رکھیں گے۔انہوں نے کہا کہ چنانچہ انہیں وہی کام کرنے پر اب پاکستان کو آنکھیں نہیں دکھانی چاہیے۔ کسی بھی صورت میں، پاکستان جتنا بھی دھواں خارج کرے گا وہ ہاتھی کی کمر پر محض ایک سوئی کے وزن کے برابر ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کولازمی طور پر قدرے مختصر کاربن نشانات کے لئے ایک زیادہ صاف کوئلے کی ٹیکنالوجی اپنانی چاہیئے۔
پاکستان کے سابق وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی پروفیسر عطاالرحمان کہتے ہیں کہ اب ایسی ٹیکنالوجیز دستیاب ہیں جو چمنیوں میں جمع ہونے والے کالے کاربن کو ہٹا دیتی ہیں اور ان سے ’’سفید دھواں‘‘ خارج ہونے لگتا ہے جس سے آلودگی سے پاک گیسیں پیدا ہوتی ہیں جنہیں موزوں ٹیکنالوجیز کا اطلاق کرنے پر اب گندہ تصور نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو لازمی طور پر بجلی کے پلانٹس کی منصوبہ بندی، انہیں لگانے اور ان کی تنصیب کے لئے ایک ملکی استعداد تشکیل دینی چاہیئے۔
عباسی کہتے ہیں کہ اگر کوئلہ استعمال کیا جانا ہے، تو پلانٹس کو لازمی طور پر موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ اعلیٰ اثر پذیری کا مطلب ایک یونٹ بجلی پیدا کرنے کے لئے کوئلے کا کم سے کم استعمال ، کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی، مرکری کا کم اخراج وغیرہ ہے، اور اس طرح صارفین کو بھی کم لاگت ادا کرنا پڑے گی
بشکریہ: تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ
لکھاری: زوفین ابراہیم













لائیو ٹی وی
تبصرے (2) بند ہیں