قومی اسمبلی میں آڈیٹر جنرل کا محاسبہ، مارچ کے شور میں دب گیا
عام حالات کے دوران قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان اختر بلند رانا کے درمیان جاری محاذ آرائی کو اخبارات کے پہلے صفحے پر اور ٹی وی شوز کے پرائم ٹائم میں یقیناً جگہ ملتی۔
لیکن ایوان کی سب سے زیادہ بااختیار کمیٹی کی جانب سے اے جی پی کو پچھاڑے جانے کی سب سے منفرد کہانی ایسا لگتا ہے کہ آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے تنازعے کی شہہ سرخیوں میں کہیں گُم ہوگئی ہے۔
بہر حال پاکستان تحریک انصاف نے 2013ء کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
کچھ بنیاد پر تسلیم کرتے ہوئے حکومت نے پی ٹی آئی کے الزامات کی سپریم کورٹ کے ذریعے تحقیقات کروانے فیصلہ کیا اور چیف جسٹس سے ان الزامات کی تحقیقات کے لیے تین رکنی کمیشن کی تشکیل کے لیے کہا ہے۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ وزیراعظم کی برطرفی کے مطالبے پر اڑے ہوئے ہیں۔ اور حکمران جماعت سے اپنی مشکلات کے پیش نظر ایسا لگتا ہے کہ اختر بلند رانا اس پر عمران خان کے ساتھ جُڑ سکتے ہیں۔
اے جی پی کی پریشانیاں اس سال مارچ میں شروع ہوئیں، جب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ان کی تنخواہ میں خاصے اضافے کا نوٹس لیا۔
حقائق کا پتہ لگانے کے لیے پی اے سی کے چیئرمین خورشید شاہ، جو قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف بھی ہیں، حکمران جماعت کے محمد جنید اے چوہدری اور پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عارف علوی پر مشتمل دو رُکنی ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی۔
ان دونوں نے تقریباً تمام متعلقہ محکموں، اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان فار ریونیو، فائنانس اینڈ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور وزارتِ قانون سے رابطہ کیا۔
تحقیقات کے دوران ایک خصوصی میٹنگ اعتزاز احسن سمیت آئینی ماہرین کے ساتھ بھی کی گئی۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ اگر پی اے سی بطور ایک پارلیمانی کمیٹی اختر بلند رانا کے خلاف کارروائی کرتی ہے، جو بطور آڈیٹر جنرل آف پاکستان ایک آئینی عہدہ رکھتے ہیں۔ آئین کے تحت ایک آئینی عہدے کے حامل فرد کو آئین کے آرٹیکل کے تحت صرف سپریم جیوڈیشل کونسل کی کارروائی کے ذریعے ہی برطرف کیا جاسکتا ہے۔
تمام متعلقہ افراد کی رائے حاصل کرنے کے بعد اس کمیٹی نے متعدد بار اختر بلند رانا کو ایک ذاتی سماعت کے لیے مدعو کیا، لیکن انہوں نے آنے سے انکار کردیا۔
نتیجے میں اس دو رُکنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ پچھلے مہینے کے اوائل میں مکمل کرکے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے پیش کردی۔ اپنی رپورٹ میں کمیٹی نے تصدیق کی کہ اختر بلند رانا نے اضافی تنخواہ اور مراعات حاصل کی تھی، جس سے ان کے عہدے کا وقار مجروح ہوا ہے۔
اختر بلند رانا کا تنازعہ کوئی نیا نہیں ہے۔ اگست 2011ء کے میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری اختر رانا کے بچاؤ کے لیے سامنے آئے تھے، جب ان کی تقرری کو ان کی دوہری شہریت (کینیڈین) اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات کی وجہ سے چیلنج کیا گیا تھا۔
چوہدری نثار علی خان اس وقت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین تھے، اور اس وقت سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی جانب سے اختر رانا کو اے جی پی مقرر کیے جانے پر انہوں نے یہ معاملہ اُٹھایا تھا۔
نتیجے میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ایوانِ صدر کی وضاحت کے باوجود اختر رانا سے حلف لینے سے انکار کردیا تھا۔
چنانچہ زرداری نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا ، جس میں یہ وضاحت کی گئی تھی کہ اے جی پی کے عہدے پر فائز ہونے والا دوہری شہریت رکھ سکتا ہے۔
اختر بلند رانا کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات سے بھی بری کردیا گیا تھا، یہ واضح تھا کہ صدر بطور اے جی پی ان کی تقرری کے لیے راستہ صاف کررہے ہیں۔ اس تقرری پر ناراض ہوتے ہوئے چوہدری نثار نے بطور پی اے سی کے چیئرمین استعفیٰ دے دیا تھا۔
جب پاکستان مسلم لیگ نواز نے اقتدار سنبھالا تو اختر رانا دوبارہ اس وقت خبروں میں آگئے تھے، جب وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے گردشی قرضوں منظوری پر پوچھ گچھ کی تھی۔
ان کی دلیل تھی کہ حکومت کمپنیز سےپری آڈٹ حاصل کیے بغیر 480 ارب روپے کی ایک بہت بڑی رقم تقسیم نہیں کرسکتی۔ اس مؤقف نے ان کے دفتر اور حکومت کے درمیان تلخی پیدا کردی۔
تاہم پانچ اگست کو ان حیرت انگیز اقدام سامنے آیا، جب انہوں نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے حاضر ہونے سے انکار کردیا۔
ان کا مؤقف تھا کہ پی اے سی کے موجودہ چیئرمین خورشید شاہ پاکستان پیپلزپارٹی کی سابقہ دورِ حکومت کے دوران کابینہ کے وزیر تھے۔
اس طرح اختر رانا نے اپنے مؤقف کو برقرار رکھا کہ وہ ان کے عہدے کے وقت سے سرکاری اخراجات سے متعلق آڈٹ رپورٹ نہیں لے سکتے۔
اختر رانا نے اعلان کیا تھا’’یہ سادہ طور پر مفاد کا تصادم ہوجائے گا، جس کی وجہ سے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اے جی پی کا آفس کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوگا۔‘‘
اس کا مناسب جواب دیتے ہوئے ملک کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی نے گیارہ اگست کو اختر رانا پر لگ بھگ چار کروڑ ساٹھ لاکھ روپے ہڑپ کرنے کا الزام عائد کیا۔
ایوان نے ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل سے ان کی برطرفی کا مطالبہ بھی کیا۔
پی اے سی کے ایک رکن کے مطابق اختر رانا نے پی اے سی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کرکے پیشہ ورانہ خودکشی کا ارتکاب کیا تھا۔
پی اے سی کے ساتھ کام کرنے سے انکار کرنے سے پہلے ان کے بچنے کے امکانات موجود تھے۔
لیکن ان کے خلاف قومی اسمبلی کی ایک متفقہ قرارداد کی متفقہ منظوری کے بعد اختر بلند رانا کا معاملہ اب چل چلاؤ کا ہے۔