• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

مشتعل ہجوم اور پولیس

شائع August 14, 2014
منظم احتجاجی مظاہروں سے نمٹنا ہجوم سے نمٹنے سے زیادہ مشکل ہے، کیونکہ اس میں زیادہ قابلیت اور صبر درکار ہوتا ہے۔
منظم احتجاجی مظاہروں سے نمٹنا ہجوم سے نمٹنے سے زیادہ مشکل ہے، کیونکہ اس میں زیادہ قابلیت اور صبر درکار ہوتا ہے۔

پولیس کے لیے مشکل ترین کاموں میں سے ایک 'ہجوم' کو کنٹرول کرنا ہے، جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار خود کو قانون اور عوامی جذبات کے بیچ جھولتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ یہ ایسی صورتحال ہوتی ہے، جس میں پولیسنگ کے معیارات پر پورا اترنا مشکل ہوجاتا ہے۔

اگرچہ کہ آئین کے آرٹیکلز 15، 16، اور 17 کے تحت ریاست کے تمام شہریوں کو آزادانہ نقل و حرکت، جمع ہونے اور کسی بھی جماعت سے وابستگی اختیار کرنے کی آزادی ہے، لیکن کریمنل پروسیجر کوڈ کی شقیں 128 اور 129 پولیس کو طاقت کے استعمال سے ہجوم کو منتشر کرنے کے اختیارات دیتی ہیں، بھلے ہی یہ بنیادی انسانوں حقوق جیسے جینے کا حق، آزادی اور تحفظ سے متصادم ہو۔ ہمارا کولونیل ماضی جلیانوالہ باغ جیسی پر تشدّد مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔

اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو جس حد تک ممکن ہو، تشدد کے بغیر اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جبکہ طاقت کا استعمال صرف تب کرنا چاہیے، جب اور کوئی چارہ نا بچے۔ اور جب طاقت کے استعمال کے علاوہ کوئی راستہ نہ ہو، تو صرف اتنی طاقت استعمال کی جائے، جتنی صورتحال کی سنگینی ہے۔ اسی طرح طاقت کے استعمال کو قانونی طریقہ کار کے تحت ہونا چاہیے۔

منظم احتجاجی مظاہروں سے نمٹنا ہجوم سے نمٹنے سے زیادہ مشکل ہے، کیونکہ اس میں زیادہ قابلیت اور صبر درکار ہوتا ہے۔ یہ پولیس کے لیے ایک اعصابی ٹیسٹ کی بھی حیثیت رکھتا ہے۔

فسادات کو کنٹرول کرنے کے لیے مسلسل ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایمرجنسی رسپانس کو بہتر بنانے کے لیے اپریل میں بیجنگ پولیس نے ایک مشق کی، جس میں ہجوم کو سنبھالنے کے علاوہ ریسکیو اور فرسٹ ایڈ کی مشق بھی کی گئی۔

دوسری جانب یوکرائن میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے بعد یوکرائن کی حکومت نے پولیس کے فسادات سے نمٹنے والے یونٹ کو ختم کر دیا تھا، کیونکہ اس پر مظاہرین کو مارنے، تشدّد کرنے، اور ان پر گولی چلانے کے الزامات تھے۔ یونٹ میں 5000 اہلکار تھے۔

اسی طرح 2012 میں تیونس کی پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں 200 سے زائد لوگ زخمی ہوگئے تھے، جس کے بعد پولیس کی ہجوم کو سنبھالنے کی اہلیت پر سوالات اٹھنے لگے تھے۔

اسی سال انڈیا کے بیورو آف پولیس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ نے ایک تحقیق کی، جس کی توجہ کم سے کم طاقت کے استعمال کے ذریعے مشتعل ہجوم سے نمٹنے پر تھی۔ تحقیق کرنے والے گروپ کو یہ ٹاسک دیا گیا تھا، کہ وہ موجودہ پروسیجرز کا جائزہ لے کر ان میں ترامیم کی تجاویز دے۔

دوسری جانب ہندوستانی ورکروں کی جانب سے مظاہروں کے سنگاپور نے فسادات سے نمٹنے والی فورس کو دوگنا کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن صرف افرادی قوّت میں اضافہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔

پولیسنگ میں شفافیت بھی ضروری ہے۔ حال ہی میں لندن پولیس نے اپنے اہلکاروں کے جسم پر کیمرے نصب کرنے کا اعلان کیا ہے، جس سے تشدّد وغیرہ کی شکایات کی صورت میں تفتیش کاروں کو مدد حاصل ہو سکے گی۔ یہ کیمرے جرم ثابت کرنے میں بھی مددگار ہوں گے۔

پاکستان کی طرف واپس آتے ہیں، یہاں پولیس آرڈر 2002 کے تحت پولیس کو 18 شاخوں میں منظم ہونا ہے، جس میں فرنٹیئر ریزرو پولیس، بلوچستان کانسٹیبلری، پنجاب کانسٹیبلری، اور سندھ ریزرو پولیس شامل ہیں۔

اس طرح کی فورسز کے پاس ایک سرگرم قیادت اور سچویشن کو سمجھنے کی اہلیت ہونی چاہیے۔ حالات کا اچھی طرح اندازہ کر لینے کے بعد ہی کمانڈرز طاقت کے استعمال کی اجازت دے سکتے ہیں، وہ بھی صرف اتنی، جتنے سنگین حالات ہیں۔

پر افسوس کی بات ہے کہ یہاں پولیس کو اپنا کام سیکھنے کی ضرورت ہے۔ راولپنڈی پولیس کا خیبر پختونخواہ پولیس کے اسکول آف پبلک ڈس آرڈر مینجمنٹ کے تعاون سے ایک انٹی رایوٹ یونٹ کی تشکیل کا فیصلہ صحیح جانب بڑھایا گیا قدم ہے۔

پاکستان کی پولیس 11 ستمبر کے بعد سے اب تک دوسری ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ دہشتگردی سے نمٹنے کی ذمہ داری بھی سنبھالے ہوئے ہے۔

لوگوں میں پولیس کا ایک بہت ہی نیگیٹو امیج موجود ہے، اور اس امیج کا غلط استعمال پولیس مخالف عناصر کرتے ہیں۔ جھڑپیں تب شروع ہوتی ہیں، جب ہجوم میں سے لوگ پولیس پر پتھراو شروع کر دیتے ہیں، یا پھر تب جب پولیس اور مظاہرین ایک محفوظ فاصلے کی حد کو پار کر جاتے ہیں۔

اس طرح کی صورتحال افواہوں کی وجہ سے مزید خراب ہوتی ہیں۔ ماس میڈیا کے دور میں ہجوم کو کنٹرول کرنا ایک بہت مشکل کام بن گیا ہے۔

ہماری سٹرٹیجی میں مذاکرات شامل نہیں۔ اس لیے بات چیت کیے بغیر ہی فوراً طاقت کا استعمال شروع ہوجاتا ہے۔ پولیس کو ہر حال میں مظاہرین کے ساتھ بات چیت کا عمل جاری رکھنا چاہیے۔

پولیس افسران کو مظاہرین پر یہ بات واضح کر دینی چاہیے کہ وہ عوام کے مظاہرے کے حق کے خلاف نہیں، پر وہ دوسروں کو یا پراپرٹی کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

دوسری جانب پولیس کو طاقت کے تناسب، قانونی تقاضوں، احتساب اور ضرورت کے بارے میں آگاہی دینی ضروری ہے۔

پاکستان میں نیشنل پولیس بیورو کو پولیس کی ہجوم کو کنٹرول کرنے کی اہلیت کا جائزہ لینا چاہیے، قانونی رکاوٹوں اور وسائل کی کمی کو شناخت کرنا چاہیے۔ جب طاقت کے استعمال کی بات آئے، تو بیورو کو اس حوالے سے ٹریننگ فراہم کرنے، اور پروسیجرز بنانے جیسے اقدامات کرنے چاہییں۔ اس طرح کی کوشش میں ریسرچرز اور سائیکولوجسٹس کی مدد حاصل کی جائے، جیسا کہ اخلاقی تقاضا ہے۔

اسی طرح پولیسنگ کلچر میں ٹرانسپیرنسی سے ایک ایسی پولیس وجود میں آئے گی، جو پولیس اور عوام دونوں کو ایک دوسرے کے اشتعال سے محفوظ رکھے گی۔

انگلش میں پڑھیں


لکھاری ایک پولیس افسر ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 14 اگست 2014 کو شائع ہوا۔

محمد علی باباخیل

لکھاری ’پاکستان: ان بٹوین ایکسٹریم ازم اینڈ پیس‘ کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024