جمہوری جمورے
جمہوریت کے علم برداروں کے مطابق تبدیلی، انقلاب، آزادی مارچ یہ سب ان کے جمہوری حقوق ہیں جن کے استعمال سے کوئی مائی کا لال انہیں روک نہیں سکتا اور یہ بات سچ بھی ہے کیونکہ 'حقوق' نام کی چڑیا صرف انہی لوگوں کے لئے بنائی گئی ہے اور وہ اپنے حقوق ڈنکے کی چوٹ پر استعمال بھی کرتے ہیں-
اب رہ جاتے ہیں ہم اور آپ جیسے لاچار لوگ جنہیں عرف عام میں 'عوام' کہتے ہیں، تو جناب ہمارے کوئی حقوق نہیں ہوتے ہمیں صرف اور صرف فرائض انجام دینے کے لئے اس زمین پر بھیجا گیا ہے- ہمارا فرض ہے کہ بنا چوں چراں ان باحقوق حضرات کی اندھی تقلید کریں-
غلامانہ ذہنیت کی ماری قوم کی عقل آزادی حاصل ہوجانے کے باوجود اب تک غلام گردشوں سے باہر نہیں نکل پائی، یہی وجہ ہے کہ میرٹ اور کارکردگی سے آشنائی کبھی ہو ہی نہیں پائی-
اب ایسی صورت میں ہمارے پاس شخصی آئیڈیل ازم کے علاوہ اور کیا آپشن بچتا ہے؟
اپنی حیثیت تو محض مداری کے اس جمورے جیسی ہے جو ڈگڈگی کے اشارے پر چلتا ہے- جس مداری کی ڈگڈگی میں زیادہ دم ہے جمہوری جمورے اسی پر ناچتے ہیں- اندھی تقلید ہمارا مقدر ہے اور سیاست کے میلے میں ایسے جمہوری مداری بھرے پڑے ہیں-
مذہب، قومیت اور زبان کی تفریق نے ہمیں پہلے ہی بھلے برے کی تمیز بھلا دی تھی، جب سے 'تبدیلی' اور 'انقلاب' کی عینک چڑھائی تب سے تو بالکل ہی آنکھوں کے اندھے اور عقل سے بہرے ہوگئے ہیں-
ایک مداری چیخ چیخ کر تشدد پر اکساتا ہے، کہتا ہے میرے لوگوں کو ہاتھ لگاؤ گے تو یہ کردوں گا وہ کردوں گا! یہ سن کر جموروں کا سینہ اتنا چوڑا ہوجاتا ہے کہ اسی وقت خوشی کے مارے گلاٹیاں لگانے لگتے ہیں-
دوسرا مداری مگرمچھ کے آنسو بھر کر شہادت شہادت للکارتا ہے، جمورے روتے ہیں منہہ بسورتے ہیں، یہ بھول جاتے ہیں کہ جو شخص ہفتوں سے اپنے گھر کی پہرہ داری آپ سے کروا رہا ہو اسے شہادت کی کتنی چاہ ہوگی؟
دیگر مداری اس بہتی گنگا میں اپنی اپنی ضرورت کے مطابق نہانا دھونا کر رہے ہیں، انتظار کر رہے ہیں کہ کب تختہ الٹے اور انہیں قوم کے جسم سے اپنی حصّے کی بوٹیاں نوچنے کا موقع ملے-
بچے جمہوری جمورے جو یہ نہیں جانتے کہ خوشحالی اس طرح کے میلوں ٹھیلوں اور متعصبانہ جذبوں سے نہیں آتی، اپنے وطن کی مخلص اور ایماندارانہ خدمت سے آتی ہے، یکجہتی سے آتی ہے، ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنے سے آتی ہے-
انکا بھی قصور نہیں، انکی رہی سہی فکری آزادی تو انقلابی ڈھول تماشے نے خبط کردی ہے اسی لئے اپنے مداریوں کے مقاصد پر سوال کرنے کی بجاۓ ٹھمک ٹھمک کر ان کے پیچھے چلے جا رہے ہیں چاہے وہ انہیں انارکی کے کسی اندھے کنویں میں ہی کیوں نہ لے گریں-
ایک ایسا دن جو قوم کی آزادی اور یکجہتی کی علامت تھا اس دن طاقت کے مداریوں نے فقط اپنی انا اور ذاتی مفاد کے لئے ناصرف ہمیں تقسیم کردیا بلکہ آپس میں دست و گریبان بھی کر ڈالا-
قوم اپنی وفاداری کے ہاتھوں مجبور ہوکر انکی تقلید تو کرے گی لیکن خدا نخواستہ کسی بنا پر اس دن کی حرمت پامال ہوئی تو چودہ اگست سنہ دو ہزار چودہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن بن کر رہ جاۓ گا-
تبصرے (1) بند ہیں