ایہام الاحمد: شامی متاثرین میں پیانو سے ہمت جگاتا نوجوان
بیروت : دمشق کے جنوب میں واقع یرموک کیمپ میں پیانو کے مدھم سر بربادی کے مناظر کو بھلانے کی کوشش کررہے ہیں اور ایہام الاحمد بچوں کے ایک چھوٹے سے گروپ کے ساتھ گانوں کے ذریعے اپنی بھوک اور مشکلات کا ذکر کر رہا ہے۔
شام کے اس پناہ گزین کیمپ جو ایک سال سے تشدد اور تباہی کی زد میں رہا ہے، میں موسیقی ارگرد جاری موت کے رقص کو دیکھتے ہوئے بہت عجیب لگتی ہے۔
یہ دوسری جنگ عظیم کے عہد کے ایک پولش پیانسٹ ودسوخش یامین کی یاد دلاتا ہے، جس کی زندگی کو رومن پولانسکی نے ایک فلم ' دی پیانسٹ' بنا کر امر کردیا تھا۔
ایہام الاحمد نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا" میں اس فلم سے محبت کرتا ہوں، جسے میں نے 2007ءمیں دیکھا تھا مگر میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کسی دن میں بھی اس جیسا کردار بن جاﺅں گا"۔
فیس بک پر شائع ہونے والی تصاویر میں یہ 26 سالہ شامی شہری ملبے سے اٹی گلیوں میں پیانو بجاتا نظر آتا ہے اور ہر گزرتے مہینے کے ساتھ اس کا چہرہ کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جارہا ہے۔
ایک زمانے میں یرموک ڈیڑھ لاکھ فلسطینی مہاجرین کا گھر تھا مگر مارچ 2011ء میں شروع ہونے والی خانہ جنگی نے شامی شہریوں کو وہاں پناہ لینے پر مجبور کردیا۔
باغیوں اور حکومت کے درمیان جنگ میں پھنس جانے والے اٹھارہ ہزار پناہ گزین یرموک کیمپ میں حکومتی محاصرے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں، جس کے نتیجے میں ایک سال کے دوران دو سو کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوئے جن میں سے 128 فاقوں کی وجہ سے ہمیشہ کی نیند سوئے۔
احمد نے بتایا" پہلے میرا وزن ستر کلوگرام تھا مگر اس محاصرے کے باعث آج میرا وزن صرف 45 کلو رہ گیا ہے"۔
جون کے اختتام پر جب حکومت اور باغیوں کے درمیان یرموک کیمپ کے فلسطینی دھڑوں ی منظوری سے ایک معاہدہ طے پاگیا تھا، کے بعد سے محاصرے کی شدت میں کچھ نرمی آئی ہے مگر کیمپ میں فاقوں اور مفلسی کی صورتحال اتنی سنگین ہے کہ احمد کو اپنے بیوی اور دو سالہ بیٹے کو وہاں سے نکالنے پر مجبور ہوگیا جو خون کی شدید کمی کا شکار ہوگئے تھے۔
مایوسی کی کوکھ سے موسیقی کا ابھرنا###
مشکل حالات کے باوجود احمد نے ایک گروپ یوتھ ٹروپ آف یرموک کو گزشتہ سال تشکیل دیا جو کہ امید کی ایک کرن ہے اور اس کا کہنا ہے" یہ ضروری ہے کہ ہم مایوسی کے اندھیرے سے نکل کر زندگی میں آگے بڑھیں"۔
احمد کا کہنا ہے کہ جب وہ موسیقی بجاتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ زندگی میں کچھ اچھا ہورہا ہے۔
احمد کے والد احمد الاحمد نابینا وائلنسٹ ہیں جو اس وقت تک اپنے بیٹے کے گروپ کے لیے وائلن بجاتے رہے جب تک فاقہ کشی نے انہیں دور ہونے پر مجبور نہیں کردیا۔
عربی موسیقی کے پرستار احمد الاحمد کو اپنے بیٹے پر فخر ہے جو کیمپ کے نوآموز شاعروں اور بیرون ملک موجود مہاجرین کے گیتوں کی موسیقی مرتب کرتا ہے۔
ان کا کہنا ہے" موسیقی ایک عالمی زبان ہے یہ ایسا پاسپورٹ ہے جس کے ذریعے آپ کہیں بھی جاسکتے ہیں"۔
ایہام الاحمد نے کہا" میں بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنا چاہتا ہوں"۔
اس کا ایک نغمہ جو کیمپ سے چلے جانے والوں کے جذبات کا اظہار کرتا ہے اور جس کے بول " بردار وی مس یو ان یرموک" ہیں، سوشل نیٹ ورکس پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔
اس نغمے میں ان شامی افراد کی کہانی بیان کی گئی ہے جنھیں گھروں سے بے دخل کردیا گیا یا دیگر وجوہات کی بناءپر مہاجر بن گئے، جن کی تعداد نوے لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
بچوں کے گانوں کے ساتھ پیانو بجاتے ہوئے احمد نے کہا" جب بچے گاتے ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ امید ابھی باقی ہے"۔
احمد کا خواب ہے ایک دن وہ پروفیشنل آراکسٹرا کا حصہ بنے، تاہم کیمپ کی صحرا کا منظر پیش کرنے والی گلیوں میں احمد کے اس منصوبے پر رائے منقسم نظر آتی ہے۔
خود احمد کے مطابق" کچھ افراد مجھے کہتے ہیں ایک طرف لوگ مررہے ہیں اور تم موسیقی تیار کرنے میں مگن ہو"۔
تاہم دیگر افراد جیسے ابو حمزہ کا کہنا ہے کہ یہ گروپ کیمپ کی مشکلات کا اظہار کرتا ہے اور ان کے اندر زندگی کا جوش جگاتا ہے۔
انگلیاں کاٹ دینے کی دھمکی
صدر بشارالاسد کے اقتدار کے خاتمے کے لیے شروع ہونے والی خانہ جنگی کے عروج میں بھی احمد غیرجانبدار رہے اور ان کا پیغام ہی یہ ہے کہ زندگی گولیوں کے بغیر گزاری جائے۔
ایک نغمہ جو کیمپ میں طویل محاصرے کے نتیجے میں بھوک کے ہاتھوں مرجانے والے افراد کے نام کیا گیا۔
اپنے دوستوں کے ساتھ گلیوں میں پیانو کو لے جاکر اسے بجانے کے دوران احمد کو کیمپ میں موجود باغیوں کے سخت ردعمل کا بھی سامنا کرنا پڑا جو معاہدے سے قبل یہاں نکلنے سے پہلے پوزیشنز لیے ہوے تھے۔
احمد کے مطابق" باغیوں کی نظر میں موسیقی حرام ہے، انہوں نے میری انگلیاں کاٹ دینے کی دھمکی دی، تو میں علی الصبح پیانو بجاتا جب وہ سو رہے ہوتے"۔
احمد نے غزہ کی صورتحال پر بھی گانے کمپوز کیے مگر یرموک اب بھی اس کی موسیقی کا دل ہے۔
اپنے خاندان سے الگ ہوجانے والا احمد یرموک سے جانا نہیں چاہتا اور اس کا کہنا ہے کہ بیرون ملک سے شامی افراد ہمت افزائی کے خطوط لکھتے ہیں۔
احمد نے کہا" لوگ لکھتے ہیں کہ تمہارے پیانو بجانے سے ہمارے اندر واپسی کی امید پیدا ہوتی ہے"۔