• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

پاکستان ہاکی تیس سال سے اولمپک گولڈ میڈل سے محروم

شائع August 13, 2014
— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

پاکستان کے قومی کھیل ہاکی میں آخری بار اولمپک میڈل کے حصول کو تیس برس مکمل ہوگئے اور بظاہر ایک بار پھر کامیابی کی راہ پر گامزن ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر میں لگتا ہے۔

گیارہ اگست 1984ءکو پاکستان نے لاس اینجلس اولمپکس میں آخری بار طلائی تمغہ حاصل کیا تھا اور اس اعزاز کو تیس برس مکمل ہونے کا لمحہ خاموشی سے گزر گیا۔

یہ وہ دن تھا جب منظور جونئیر کی قیادت میں گرین شرٹس نے مغربی جرمنی کو فائنل میچ میں 2-1 سے شکست دی تھی۔

اس اعزاز کے بعد پاکستان کو اولمپکس میں واحد کامیاب آٹھ اگست 1992ءکو اس وقت ملی جب اس نے اسپین میں نیدر لینڈ کو 4-3 سے شکست دے کر کانسی کا تمغہ اپنے نام کیا۔

ایک زمانہ تھا جب پاکستان ہاکی کی دنیا کا بے تاج بادشاہ تھا، جس نے 1960ء، 1968ءاور 1984ءکے اولمپکس مقابلوں میں طلائی تمغے جیتے، 1956ء، 1964ءاور 1972ءمیں سلور جبکہ 1976ءاور 1992ءمیں کانسی کے تمغوں کو اپنے سینے پر سجایا۔

اسی طرح گرین شرٹس نے 1971ء، 78، 82 اور 1994ءمیں چار بار ورلڈچیمپئن بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا، جبکہ 1975ءاور 1990ءمیں دوسرے نمبر پر رہا۔

پاکسان چیمپئز ٹرافی میں بھی اپنی کامیابیوں کی بدولت نمایاں مقام رکھتا ہے اور اسے یہ ٹورنامنٹ تین بار 1978ء، 80 اور 94ءمیں جیتنے کا موقع ملا، جبکہ 1983ء، 84، 88، 91، 96 اور 98ءمیں وہ تیسرے نمبر پر رہا۔

جب ڈان نے منظور جونئیر سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ لاس اینجلس میں گولڈ میڈل جیتنا ان کے لیے ایک خواب سے کم نہیں تھا۔

انہوں نے کہا" میں نے اس وقت یہ کبھی تصور تک نہیں کیا تھا کہ اس کے بعد پاکستان آئندہ تیس برس تک طلائی تمغہ جیت ہی نہیں سکے گا کیونکہ اس وقت ہمیں دنیائے ہاکی کی ایک اہم طاقت مانا جاتا تھا"۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ہاکی کے کھیل کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے حکومت اور پی ایچ ایف سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے مخلصانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔

منظور جونئیر نے کہا کہ اگرچہ یورپ ٹیمیں ہاکی کی دنیا پر چھا چکی ہیں تاہم وہ ناقابل شکست نہیں۔

سابق کپتان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس اس کھیل کے لیے بہترین صلاحیت موجود ہے تاہم اس کی تعمیر نو کے لیے ایک منظم منصوبے کی ضرورت ہے اور ہر شخص کو اپنی ذات سے بالاتر ہوکر کام کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اس کھیل کو چلانے کے لیے بہترین افراد کو منتخب کیے جانے کی ضرورت ہے، ورنہ کھوئی ہوئی عظمت کا حصول خواب ہی رہے گا۔

لیجنڈ پاکستانی کھلاڑی نے بتایا کہ ان کی ٹیم صلاحیت اور تجربے کا بہترین مجموعہ تھی جس کی موجودہ کھلاڑیوں میں کمی نظر آتی ہے، پی ایچ ایف کو ہاکی کو مقبول بنانے کے لیے مخلص ہوکر سخت محنت کرنا ہوگی۔

اولمپک میڈل کے فاتح اسکواڈ کے ایک اور رکن حنیف خان نے کہا کہ اس زمانے میں ہماری ٹیم تجربہ کار، جیت کے جذبے سے سرشار اور تیکینکی طور پر بہترین تھی، اور 1984ءمیں کسی کو توقع نہیں تھی کہ پاکستان گولڈ میڈل جیت سکے گا مگر ہم نے اپنی کارکردگی سے سب کو حیران کردیا۔

حنیف انہوں نے انکشاف کیا کہ 1984ءمیں اولمپکس میں کامیابی کے بعد فاتح اسکواڈ کے سات کھلاڑیوں کو باہر کا راستہ دکھا دیا گیا جس سے ٹیم میں ایک بڑا خلاءپیدا ہوگیا۔

ان کا کہنا تھ کہ اس وقت اکیڈمیوں کی ضرورت نہیں بلکہ پی ایچ ایف کو کلب ہاکی کو فروغ دینا چاہئے اور مقامی سطح پر انفراسٹرکچر کو بہتر بنانا چاہئے۔

ڈان کی متعدد کوششوں کے باوجود پی ایچ ایف کے صدر اختر رسول چوہدری سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024