قدرتی آفات کیلئے اڑن کاریں
ترقی پذیر ممالک میں حادثات اور قدرتی آفات میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج متاثرہ مقام تک پہنچنا ہوتا ہے۔ ذرا ذہن پر زور دیجئے کہ سال 2005 کے ہولناک زلزلے کے بعد اور 2010 کے سیلاب میں پاکستان میں متاثرہ مقام تک رسائی امدادی کارکنوں کے لئے دردِ سر ثابت ہوا تھا۔
اب دو کمپنیوں نے دو ایسے پروجیکٹس پیش کئے ہیں جو اڑن کار یا پیرا شوٹ گاڑی کہے جاسکتے ہیں۔ ان میں سے فرانس کی ایک کمپنی ویلون نے ایک اڑنے والی کار تیار کی ہے جسے 'پیگاسے' کا نام دیا گیا ہے۔ اس کا کمرشل نمونہ اگلے برس مارکیٹ میں پیش کیا جائے گا جبکہ دوسرا امریکی ڈیزائن 'میورک' اب فروخت کیلئے تیار ہے۔ اس کی قیمت ایک لاکھ ڈالر یعنی ایک کروڑ پاکستانی روپے ہے۔
ان کاروں کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں کوئی بازو (ونگز) نہیں اور ان ہلکی پھلکی کاروں کے پیچھے ایک پروپیلر ہے اور اڑان بھرنے کیلئے پیرا شوٹ سے استعمال ہوتا ہے۔ اسی کے دوش پر وہ ہوا میں اڑتی ہے۔
فرنچ کمپنی ویلون کے شریک بانی، جیریمی فوئشے نے کہا کہ یہ ایجاد ٹیکنالوجی کا ایک شاہکار ہے اور اسے تین بنیادی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاسکے گا یعنی فوجی، امدادی اور تفریحی کاموں کیلئے یہ بہت موزوں ہے۔
یہ دونوں گاڑیاں، دو افراد کو ہوا میں لے جاسکتی ہیں اس کے علاوہ اضافی تین سو کلو گرام وزن اٹھا سکتی ہیں جن میں دوائیں، خوراک اور دیگر سامان ہوسکتا ہے۔ پوری طرح ایندھن بھرے ٹینک سے دو سو کلومیٹر دور تک جاسکتی ہیں اور اڑنے کیلئے صرف ایک سو میٹر کا رن وے درکار ہوتا ہے۔ یہ تقریباً پانچ کلومیٹر بلندی پر پرواز کرسکتی ہیں۔
اڑنے والی ان کاروں کو دیگر زمینی گاڑیوں اور کاروان کی رہنمائی کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، مثلاً امدادی سامان سے بھرے ٹرک اگر ایک جگہ پھنس جائیں تو ان کا نکلنا محال ہوجاتا ہے۔ اس موقع پر اڑن کاریں فضائی رہنما کے طور پر صاف راستہ بتاسکتی ہیں اور ساتھ ہی فوری امدادی مقامات کی نشاندہی بھی کرسکتی ہیں۔
'جہاں تک انسانی مدد کا معاملہ ہے تو پیراشوٹ کار میں ایک سیٹ ہٹاکر اس پر اسٹریچر لگائی جاسکتی ہے یا ویکسین اور دوا رکھنے کیلئے ریفریجریٹر کی جگہ نکالی جاسکتی ہے یا پھر نگرانی کیلئے ویڈیو کیمرہ یا کسی ڈاکٹر کو پہنچایا جاسکتا ہے'، فوئشے نے کہا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ اسے آفات میں مدد کیلئے مزید کارآمد بنانے کیلئے کوشش کررہے ہیں۔
میٹس آئی ڈی ٹو نامی کمپنی سے وابستہ لارنس ہرو نے برطانوی شہر آکسفورڈ میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایسی کاروں کا تعارف پیش کیا۔ ان کی کمپنی چھوٹی اور درمیانے درجے کی کمپنیوں میں فاصلہ کم کرنے کی خدمات انجام دیتی ہے۔ اب وہ اس اڑن کار کی مارکیٹنگ کیلئے کوششیں کررہی ہیں۔
ان کے مطابق پیگاسے اب تک ایک 'احمقانہ' خیال ہے لیکن یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ اب سے پانچ سال قبل فلاحی اور سماجی تنظیمیں ڈرونز کے استعمال کو بھی احمقانہ تصور کرتی تھیں لیکن اب انہیں استعمال کیا جارہا ہے اور کچھ ایسا ہی مستقبل ان گاڑیوں کیلئے بھی ہے۔
اسی طرح کی ایک فلائنگ کار ایک اور تنظیم نے بھی تیار کی ہے جو دنیا کے الگ تھلگ رہنے والے قبائل کی تعلیم اور ترقی کیلئے کام کرتی ہے۔ آئی ٹی ای سی نامی اس تنظیم نے اس گاڑی کو ’میورک‘ کا نام دیا ہے۔ اسے بناتے وقت ایکواڈور کے قبائل کو ذہن میں رکھا گیا تھا۔
تنظیم کے سی ای او ٹرائے ٹاونسینڈ نے کہا جو کام ہیلی کاپٹر ڈالروں میں کرتا ہے، وہی کام یہ اڑن کاریں سینٹس میں کرتی ہیں۔ واضح رہے کہ وہ اس کار کے ٹیسٹ پائلٹ اور ڈیزائن مینیجر بھی ہیں۔
ان کا خواب تھا کہ ایسی اڑن کار بنائی جائے جیسے ہر ڈرائیور استعمال کرسکے اور اس کے لئے کسی خاص تربیت کی ضرورت نہ ہو۔
اس کیلئے پہلے ایک فکس ونگ والا چھوٹا ہوائی جہاز بنایا گیا لیکن اس سے کام نہیں چلا۔ پھر مختلف قسم کے پیراشوٹ لگائے گئے بالکل انسانی پیراشوٹ کی طرح۔ لیکن پیراشوٹ کے عین درمیان میں ایک پائپ لگا کر اسے کار سے جوڑا گیا تاکہ پرواز کے وقت گاڑی دائیں بائیں نہ جھولے اور سیدھی پرواز کرسکے۔
'ہم اس ایجاد کے ممکنہ استعمال کے بارے میں بہت پُر امید ہیں،' آئی ٹی ی سی میں ڈویلپمنٹ اور پبلک ریلیشنز کے انچارج، جم ٹنگلر نے کہا۔
’میں سمجھتا ہوں کہ اب ہم اس جگہ پہنچ چکے ہیں اور یہ (ایجاد) بالکل تیار ہے جسے فوری طور پر سماجی کاموں اور آفات کے مواقع پر استعمال کیا جاسکتا ہے اور اسی لئے اسے ڈیزائن کیا گیا ہے‘، انہوں نے کہا۔
میورک سے پہلے جو گاڑی بنائی گئی اسے کاکروچ (یعنی لال بیگ) کا نام دیا گیا کیونکہ اس کی شکل دور سے لال بیگ جیسی لگتی تھی۔ اس کے بعد میورک کا کام آگے بڑھا اور اس کے ڈیزائن میں بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
دوسری جانب پریکٹیکل ایکشن نامی تنظیم میں ٹیکنالوجی جسٹس کی مشیر اور پالیسی ساز امبر مائیکلے کہتی ہیں کہ اڑنے والی کاروں کو انسانی مدد کے کاموں کیلئے اپنی وہ اہلیت ثابت کرنا ہوگی جو ٹرانسپورٹ کے دیگر ذرائع ثابت نہیں کرسکے جن میں دو پہلو سب سے اہم ہیں، اول کم خرچ دوم محفوظ۔.
دوسری جانب ناقدین کا خیال ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں آفات اور حادثات سے نمٹنے کا موثر نظام موجود ہوتا ہے لیکن ترقی پذیر ممالک کیلئے اس ایجاد کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ تاہم تمام ایجادات وقت کے ساتھ ساتھ کم خرچ اور بہتر ہوتی جاتی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان اڑن گاڑیوں میں بھی بہتری آتی جائے گی۔
اس بلاگ کی تیاری میں اس رپورٹ سے مدد لی گئی ہے