سونامی میں بچھڑنے والی لڑکی دس سال بعد دوبارہ مل گئی
بندہ آچے، انڈونیشیا: چھبیس دسمبر 2004ء کے روز بحرہند میں آنے والے سونامی کے نتیجے میں جہاں بہت سے شہر برباد ہوگئے تھے اور تقریباً تین لاکھ افراد ہلاک اور اس سے کئی گنا زیادہ بے گھر ہوگئے تھے، وہیں اس سمندری زلزلے سے پیدا ہونے والے خوفناک طوفان نے بہت سے بچوں کو بھی اپنے خاندان سے دور کردیا تھا۔
انڈونیشیا کی ایسی ہی ایک لڑکی روضۃ الجنّہ بھی تھی، جو اس دوران اپنے والدین سے بچھڑ گئی تھی۔
پرسوں بدھ کے روز دس برس کے بعد روضۃ الجنّۃ اپنے والدین سے آن ملی، جنہوں نے اس کے بارے میں یقین کرلیا تھا کہ وہ اس تباہی میں ہلاک ہوگئی ہوگی۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو کل بروز جمعرات روضۃ الجنّہ کی والدہ جمالیہ نے بتایا کہ جب روضۃ الجنّہ چار سال کی تھی تو وہ اور اس کا بھائی سونامی کی لہر میں بہتے ہوئے اپنے گھر سے دور چلے گئے تھے۔
جمالیہ اپنے موبائل فون میں روضۃ الجنۃ کی دس سال پرانی تصویر دکھا رہی ہیں۔ —. فوٹو بشکریہ اے اے پی امیج |
جمالیہ انڈونیشیا کی صوبے آچے کے ضلع مغربی آچے میں مقیم ہیں۔
جمالیہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ ایک ماہ کی تلاش کے بعد یہ خیال کرلیا کہ شاید ان کی بیٹی اس تباہی کی نذر ہوگئی تھی۔
پھر جون میں جمالیہ کے بھائی نے ایک لڑکی کو دیکھا، جو طویل عرصے سے گمشدہ ان کی بیٹی کی طرح دکھائی دیتی تھی۔
بعد میں انہیں معلوم ہوا کہ یہ لڑکی آچے کے قریب بارات دایا ضلع میں ایک بزرگ خاتون کے پاس مقیم ہے۔ چنانچہ روضۃ اپنے خاندان سے دوبارہ آن ملی۔
مغربی آچے کے اہم قصبے میولبوہ سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے جمالیہ نے ڈی پی اے کو بتایا کہ ’’میں اور میرے شوہر اس کو دوبارہ پاکر بہت زیادہ خوش ہیں۔ یہ خدا کی جانب سے ایک معجزہ ہے۔‘‘
جمالیہ کا کہنا ہے کہ جیسے ہی انہوں نے اس لڑکی کو دیکھا تو پہلی نظر میں ہی انہیں کوئی شبہ نہیں ہوا کہ یہ ان کی بیٹی نہیں ہے۔
جمالیہ دس سال بعد ملنے والی بیٹی کو پیار کررہی ہیں۔ —. فوٹو بشکریہ اے اے پی امیج |
انہوں نے کہا ’’اگر کسی کو اس میں کو ئی شک ہے تو میں ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے تیار ہوں۔‘‘
جمالیہ کہتی ہیں کہ سونامی کی تباہ کن لہروں نے جب ان کے گھر کو نشانہ بنایا تو روضۃ الجنّہ اور اس کا بھائی جو اس وقت سات برس کا تھا، ان کے اور ان کے شوہرکی گرفت سے نکل گئے۔ وہ لوگ لکڑی کے ایک ٹکڑے پر تیر رہے تھے۔
روضۃ الجنّہ اب چودہ برس کی ہے، اس نے اپنے والدین کو بتایا کہ اس کا بھائی بھی بچ گیا تھا، اور بعد میں وہ دونوں بینیاک نامی جزیرے میں رکے ہوئے تھے، لیکن اس کو نہیں معلوم وہ اب کہاں ہے۔
جمالیہ نے بتایا ’’ہم اس کو تلاش کرنے کے لیے بینیاک جزیرے پر جائیں گے، اس لیے کہ ہمیں یقین ہے کہ وہ اب بھی زندہ ہے۔‘‘
ساحل سے تقریباً چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر یہ کم آباد جزیروں کا ایک گروپ ہے۔
2004ء کے سونامی سے سب سے زیادہ تباہی انڈونیشیا میں آئی تھی۔ صوبہ آچے میں ہی ایک لاکھ 68 ہزار افراد دیوہیکل لہروں کی نذر ہوگئے تھے۔
انڈونيشيا کی رياست سماٹرا ميں آچے صوبے کے دارالحکومت بندا آچے کے جنوب مشرقی سمت 155 ميل دور بحرہند کی سطح سمندر سے 6 ميل نيچے پيدا ہونے والے زلزلہ کے نتيجہ ميں يہ سونامی وجود ميں آيا تھا۔