جمیشد دستی اپنے الزامات کا ثبوت نہیں پیش کرسکے
اسلام آباد: مظفر گڑھ کے آزاد امیدوار جمشید دستی کو بدھ کے روز اس وقت شدید دھچکا لگا،جب اراکین اسمبلی کے خلاف ان کے الزامات کی حقیقت کی جانچ پڑتال کے لیے تشکیل دی گئی ایک خصوصی کمیٹی ان کے دعووں کے حمایت میں کسی بھی ثبوت کی تلاش میں ناکام رہی۔
اس سال فروری میں جمشید دستی نے اپنے ساتھی اراکین اسمبلی پر کھلے عام یہ الزامات عائد کیے تھے کہ وہ پارلیمنٹ لاجز کے احاطے میں غیر اخلاقی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔
بدھ کو قومی اسمبلی میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق کمیٹی کا کہنا ہے کہ ’’جمشید دستی کمیٹی کے سامنے کوئی بھی تسلی بخش ثبوت نہیں پیش کرسکے۔‘‘
کمیٹی کا کہنا تھا کہ جمشید نے اراکین پارلیمنٹ کے خلاف میڈیا میں الزامات عائد کرنے کا سلسلہ جاری رکھا، جبکہ کمیٹی نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔
رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ جمشید دستی نے ایوان کے ساتھ ساتھ اس کے اراکین کی بھی توہین کی ہے۔
مسلم لیگ نون کے شیخ روحیل اصغر کی سربراہی میں یہ سات رکنی کمیٹی تقریباً تمام پارلیمانی پارٹیوں کے اراکین پر مشتمل ہے۔
شیخ روحیل اصغر نے کہا ’’جو ثبوت انہوں نے ہمیں فراہم کیے، ان سے ہم مطمئن نہیں تھے، لہٰذا متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان کے نکتہ نظر کو مسترد کردیا جائے۔‘‘
رکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے الزام عائد کیا تھا کہ پارلیمنٹ کے لاجز میں شراب کا کثرت سے استعمال کیا جارہا تھا، جہاں شراب پر کل اخراجات کی لاگت چار سے پانچ کروڑ روپے تھی۔
انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ رقص و سرور کی محفلیں اور ’کال گرلز‘ کی یہاں آمد ایک معمول کی بات ہے، جبکہ ان لاجز کے مختلف حصوں میں چرس کی بو پھیلی رہتی ہے۔
اس کے بعد ان الزامات کا پتہ لگانے کے لیے یہ خصوصی کمیٹی چار مارچ کو تشکیل دی گئی تھی۔ کمیٹی نے مختلف متعلقہ افراد، جن میں اراکین پارلیمنٹ اور لاجز پر تعینات عملے اور سیکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ کئی ملاقاتوں کے بعد اپنی رپورٹ کو حتمی صورت دی۔
رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ ان الزامات کی مدد کے لیے کوئی ثبوت نہیں پائے گئے، لہٰذا یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ اگر چاہیں تو جمشید دستی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرسکتے ہیں۔
اس کمیٹی کے ایک رکن میاں عبدالمنان نے ڈان کو بتایا کہ آزاد اراکین قومی اسمبلی عام طور پر کسی دوسرے کی زبان میں بات کرتے ہیں، اس لیے کہ وہ کسی پارٹی سے منسلک نہیں ہیں۔
عبدالمنان نے کہا ’’ایسے لوگ جو اس نظام پر تنقید کرتے ہیں، خود بھی اسی نظام کا ایک حصہ ہیں، ایسا کرنے سے صرف انہی کو نقصان پہنچے گا۔ یہ ایوان ایک بڑے خاندان کی طرح ہے، ہم حزبِ اختلاف میں ہیں، اور ہمارے سیاسی اختلافات بھی ہیں، لیکن ہم اپنے ساتھیوں کو بے عزت نہیں کرسکتے۔‘‘
اس کے علاوہ اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ کارروائی کے دوران جمشید دستی نے اپنے الزامات کی حمایت میں اراکین اسمبلی حاجی غلام احمد بلور اور سردار نبیل احمد گبول کو بطور گواہ نامزد کیا تھا۔
تاہم رپورٹ کا کہنا ہے کہ کمیٹی کی طرف سے مدعو کیے جانے کے باوجود ان میں سے کوئی بھی گواہی دینے کے لیے نہیں آیا۔
اسی دوران متحدہ قومی موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی سردار نبیل گبول نے ڈان کو بتایا کہ وہ کمیٹی کے سامنے اس لیے نہیں گئے کہ یہ ایک بے کار اور احمقانہ معاملہ تھا۔
تاہم اس رپورٹ میں دی گئی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ لاجز میں آنے والے افراد اور گاڑیوں کی نگرانی کے لیے آپریٹنگ کا ایک معیاری طریقہ کار (ایس او پی) تیار کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ مشورہ بھی دیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ لاجز میں نصب سی سی ٹی وی سسٹم کو اپ گریڈ کیا جائے۔
اس کے علاوہ ایک اور کمیٹی کی تشکیل کا مشورہ بھی دیا گیا ہے جوتمام متعلقہ اراکین اسمبلی پر مشتمل ہونی چاہیٔے۔ یہ کمیٹی پارلیمنٹ لاجز کے روزمرّہ معمولات، جیسے داخلی سیکیورٹی، صفائی ستھرائی، مرمت وغیرہ کی نگرانی کرے۔
اس وقت پارلیمنٹ لاجز میں 359 اپارٹمنٹس ہیں، جن میں سے 83 سینیٹرز کے لیے مختص ہیں، جبکہ 276 اراکین قومی اسمبلی کے لیے ہیں۔
خصوصی کمیٹی کے اراکین میں پیپلزپارٹی کے عمران ظفر لغاری، پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عارف علوی، ایم کیو ایم کے خواجہ سہیل منصور، جے یو آئی-ایف کی شاہدہ اختر علی، پی ایم ایل-ایف کے کاظم علی شاہ اور پی ایم ایل-این کے میاں عبدالمنان شامل تھے۔