• KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:06pm Asr 4:35pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 4:41pm
  • KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:06pm Asr 4:35pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 4:41pm

تحریک انصاف کے مبہم مقاصد

شائع August 5, 2014
— عمران خان فائل فوٹو
— عمران خان فائل فوٹو

لچکدار محسوس ہونے والے مطالبات اب دھمکیوں کا روپ اختیار کر چکے ہیں، لیکن یہ بات اب تک واضح نہیں کہ عمران خان کا اصل مقصد انتخابی اصلاحات ہیں یا اس سے کچھ زیادہ؟

یہ کنفیوژن پی ٹی آئی کی سینئر لیڈرشپ میں بھی موجود ہے، جہاں کچھ حضرات انتخابی اصلاحات کی، اور کچھ انتخابات کی بات کرتے نظر آرہے ہیں، جبکہ متفقہ طور پر سب کا یہی کہنا ہے، کہ حتمی مطالبات خان صاحب خود پیش کریں گے۔ لیکن یہ بات ضرور واضح ہے کے پی ٹی آئی حکومت پر زبردست دباؤ ڈالنے کے موڈ میں نظر آ رہی ہے، اور شاید یہ دباؤ حکومت کو آخری کنارے تک پہنچا سکتا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کا رویہ کچھ معاملات میں پریشان کن رہا ہے، اور ایسی صورتحال میں جبکہ پی ایم ایل (ن) پر حکومت میں ہونے کے سبب بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، پی ٹی آئی سسٹم کی طرف بڑھتے ہوئے خطرات اور بحران سے خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی۔

جمہوری نقطہ نظر سے مسئلہ یہ نہیں ہے کہ عمران خان مئی 2013 کے انتخابات کو غیر شفاف قرار دیتے ہوئے ایک بڑی احتجاجی ریلی کا انعقاد کرنا چاہےں ہیں۔ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان اس تحریک کے باعث ملک کے سیاسی استحکام کو لاحق ہونے والے خطرات، اور غیر جمہوری قوتوں کے لئے بڑھتے ہوئے مواقع سے لاتعلّق سے نظر آتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے، کہ سیاسی اختلافات کس حد تک جا سکتے ہیں؟ اس سے پہلے کے پاکستانی سیاست میں موجود فالٹ لائن پھر سے واضح ہوجائے۔

عمران خان کا یہ کہنا کہ وہ اور ان کے حامی کبھی بھی جمہوری سسٹم کو ڈی ریل نہیں ہونے دینگے، کافی نہیں ہے۔ ماضی میں جب بھی جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹا گیا، تب کوئی بھی سویلین سیاسی جماعت ان اقدامات کے سامنے دیوار بنتے ہوئے جمہوریت کا تحفظ نہیں کر پائی۔ حالات کے پیدا ہوجانے کے بعد جب ایک دفعہ جمہوریت پر حملہ ہوجائے، تو اس حملے کو روک پانا ناممکن ہوتا ہے۔

لیکن سویلین سیاسی نظام کو عمران خان کی دھمکیوں کے باعث درپیش خطرات ہی واحد مسئلہ نہیں ہیں۔ باریک بینی سے جائزہ لیا جائے، تو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کے سول حکومت اور ملٹری کے درمیان توازن کی کمی موجود ہے، اور پلڑا اب فوج کی جانب جھک رہا ہے۔ اس میں کچھ غلطی حکومت کی بھی ہے کہ اس نے عمران خان کے 14 اگست کے مارچ کے اعلان کے بعد جلد بازی میں فوج طلب کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ حکومت کے علاوہ کوئی بھی حلقہ آرٹیکل 245 کے تحت فوج طلب کرنے کے فیصلے کو ایک دانشمندانہ فیصلہ نہیں سمجھتا۔

بہرحال، عمران خان اور پی ٹی آئی نے اپنے اقدامات سے نادانستہ طور پر حکومت پر سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مصالحت قائم کرنے اور پالیسی کے حوالے سے کچھ نہ کرنے کے لئے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ بلا شبہ حکومت کا اس طرح دفاعی سطح پر رہنا ملک میں جمہوریت کے نشونما کے لئے ناکافی ہے۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں پانچ اگست 2014 کو شائع ہوا ہے جس کا اردو ترجمعہ کیا گیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025