• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

'زیادہ تر لوگ ایک خاص مقام پر ڈوبے'

شائع August 4, 2014
پولیس نے ایک خط ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کو بھی تحریر کیا ہے، کہ وہ لائف گارڈ اور نگران ٹیم کی تعیناتی کے حوالے سے اپنے کردار کی وضاحت کرے۔ —. فوٹو آن لائن
پولیس نے ایک خط ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کو بھی تحریر کیا ہے، کہ وہ لائف گارڈ اور نگران ٹیم کی تعیناتی کے حوالے سے اپنے کردار کی وضاحت کرے۔ —. فوٹو آن لائن

کراچی: سانحہ سی ویو میں اکتالیس افراد کی ہلاکت کی پولیس کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات میں یہ بات واضح ہوکر سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر ہلاک ہونے والے افراد خاص طور پر سمندر میں اس مقام پر ڈوبے، جو کثیر المنزلہ شاپنگ سینٹر ڈولمین مال کے قریب ہے۔

سندھ پولیس کے سربراہ کی جانب سے شروع کی جانے والی پولیس تحقیقات میں یہ بھی نتیجہ نکلا ہے کہ چونکہ سمندر میں نہانے پر دفعہ 144 کے تحت کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی تھی، اس لیے پولیس کو اس سانحے کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔

کراچی پولیس کے سربراہ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل غلام قادر تھیبو جو اس تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں، نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کو یہ جان کر تجسس پیدا ہوا کہ آخر زیادہ تر اموات ایک خاص مقام پر ہی کیوں ہوئیں اور کلفٹن کے ساحل پر دیگر مقام پر کیوں نہیں ہوئیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس مخصوص مقام پر سمندر میں کراچی پورٹ ٹرسٹ کی جانب سے کی جانے والی صفائی کے کاموں کی وجہ سے کسی قسم کی کھائی پیدا ہوگئی تھی، تو انہوں نے جواب دیا ’’یہ ٹیکنیکل معاملہ ہےاور ہم نے اس سلسلے میں کے پی ٹی کو ایک خط تحریر کردیا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس اس حوالے سے ماہرین کی خدمات حاصل کرے گی۔

سمندر میں تیراکی پر پابندی کے بارے میں سٹی پولیس کے سربراہ نے کہا کہ سندھ کے محکمہ داخلہ نے بھی واضح کیا تھا کہ یہ پابندی اکتیس جولائی کو یعنی لوگوں کے ڈوب کر ہلاک ہونے کے سانحے کے بعد نافذ کی گئی تھی۔

وزیراعلٰی سندھ قائم علی شاہ کی ہدایات پر ان ہلاکتوں کے پس پردہ صورتحال و وجوہات اور اس کی ذمہ داری کا تعین کرنے کے لیے پولیس کی تحقیقاتی ٹیم قائم تشکیل دی گئی تھی۔ جس کے دیگر اراکین میں ڈی آئی جی عبدالخالق شیخ اور منیر احمد شیخ شامل تھے۔

ایڈیشنل آئی جی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ پولیس نے پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کو ایک خط تحریر کیا تھا، جس میں ان کی رائے طلب کی گئی تھی کہ عید کی چھٹیوں کے دوران بلندو بالا سمندری لہروں کا موسم جاری رہے گا یا نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ بلند لہروں کا موسم تھا، تو پھر آخر کیوں محکمۂ موسمیات نے اس سلسلے میں خبردار نہیں کیا۔

اس کے علاوہ پولیس نے ایک خط ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کو بھی تحریر کیا ہے، کہ وہ لائف گارڈ اور نگران ٹیم کی تعیناتی کے حوالے سے اپنے کردار کی وضاحت کرے، جو سمندر میں تیراکی کے خلاف لوگوں کو خبردار کریں۔

ان کا کہنا تھا ’’ڈی ایچ اے ٹیکس وصول کرتی ہے، لہٰذا اس کو چاہیٔے کہ وہ ساحل کو ترقی دے اور اس کو لوگوں کے لیے محفوظ بنائے، اس لیے کہ یہ اس شہر کی تقریباً دو کروڑ چھتیس لاکھ کی آبادی کے لیے واحد تفریحی مقام ہے۔‘‘

ایڈیشنل آئی جی نے کہا ’’ہم کہہ سکتے ہیں کہ عید کی چھٹیوں کے دوران جب یہ سانحہ رونما ہوا، کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے تھے۔ اگر دفعہ 144نافذ کی گئی تھی تو کیا اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی، اس کے لیے انتباہی علامات نصب کی گئیں اور پولیس کو چوکس کیا گیا۔‘‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ لوگوں کے سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہونے کے سانحے کے بعد پولیس کی جانب سے کافی احتیاطی اقدامات اُٹھائے گئے، لہٰذا اس کے بعد سے ڈوبنے کی مزید کوئی اطلاع نہیں ملی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عید کی چھٹیوں کے دوران کلفٹن کے ساحل پر تقریباً پچاس ہزار افراد پکنک منانے پہنچے تھے۔

پولیس کی تحقیقاتی ٹیم کے ایک اور رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ ڈان کو بتایا کہ کراچی میونسپل کارپوریشن، ڈی ایچ اے، اور پولیس سمیت تمام اداروں اور تنظیموں کے درمیان عید کی تعطیلات کے دوران رابطے کا فقدان تھا۔

ایک اور رکن نے کہا ’’سب کچھ لاپتہ تھا۔ اگر محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری کیے جانے والے انتباہ کی بنیاد پر خطرے کا تصور کیا گیا ہوتا، دفعہ 144 نافذ کی گئی ہوتی، اور تمام متعلقہ اداروں کے تعاون کے ساتھ ایک مناسب ردعمل ظاہر کیا گیا ہوتا تو اس سانحے کو روکنے میں مدد مل سکتی۔‘‘


سی ویو کمیشن کا اجلاس


صوبائی حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے سی ویو کمیشن نے اتوار کو اپنی کارروائی کا آغاز کیا۔

اس کمیشن کے سربراہ بورڈ آف ریونیو کے ایک سینئر رکن ملک اصراف حسین ہے، اور اس میں سیکریٹریز ڈاکٹر نیاز عباسی اور انعام اللہ دھاریجو شامل ہیں۔

اس کارروائی سے واقف ایک ذرائع نے بتایا کہ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر اس کمیشن کا اجلاس منعقد ہوگا تاکہ تمام متعلقہ اداروں کے کردار اور ذمہ داری کا تعین کرنے کیا جاسکے، مستقبل میں اس طرح کے سانحے سے بچنے کے لیے یہ کمیشن اپنی سفارشات بھی پیش کرے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کمیشن پولیس کی تحقیقاتی ٹیم کا کردار محدود کرسکتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024