کھیلنے دو: گراؤنڈز کہاں ہیں؟
کل پاکستان کے اسٹار آل راؤنڈر شاہد خان آفریدی نے ملک میں نئے ٹیلنٹ کی کمی پر پریشانی کا اظہار کیا- پچھلے دنوں ختم ہونے والے فٹبال ورلڈ کپ کے دوران بھی بہت سے چینلز پر ورلڈ کپ کے حوالے سے ہونے والے پروگراموں میں پاکستانیوں کی اکثریت یہ سوال کرتی نظر آائی تھی کہ پاکستانی فٹبال ٹیم کب ورلڈ کپ کھیلے گی؟
سوال کرنے والوں کو یہ بھی یاد نہ آیا کہ اس سے چند دن پہلے ہونے والے ہاکی ورلڈ کپ میں پہلی بار، پاکستان کی ہاکی ٹیم --اپنے زمانے کی ورلڈ چیمپئن اور ہاکی کی دنیا کی سپر پاور-- کوالیفائی تک نہ کر سکی تھی!
اس سوال کے جواب میں اکثر مبصرین اور تبصرہ نگاروں نے بہت سی وجوہات بیان کیں جن میں کھیلوں کی تنظیموں سے جڑی سیاست، اقربا پروری اور کرپشن کو پاکستان میں کھیلوں کی خستہ حالی کا ذمہ دار قرار دیا گیا-
یہ سب کچھ ٹھیک ہے پر اس حوالے سے جو چیز سب سے اہم ہے اس کا کسی نے بھی ذکر تک نہیں کیا اور وہ ہے کھیل کھیلنے کے لئے بنیادی چیز، یعنی کھیل کے میدانوں یا پلیئنگ گراونڈز کا ختم ہونا-
ذرا یاد کریں، آپ میں سے جو لوگ ستر، اسی اور نوے کی دہائی میں بڑے ہوئے تھے کیا آج وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس دور کے مقابلے میں آج کھیل کے میدان زیادہ ہیں؟
آبادی پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی ہے لیکن ہمارے شہروں میں خاص طور پر آبادی کے تناسب سے کھیل کے میدان بڑھنے کے بجائے ختم ہوتے جا رہے ہیں-
کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہی نہیں کھیلوں کے حوالے سے بھی اس شہر نے پاکستان کو بہترین کھلاڑی دیئے ہیں- کرکٹ کے حنیف محمد ہوں یا ہاکی کے حسن سردار، اسکواش کے جہانگیر خان ہوں یا اسنوکر کے محمد یوسف ان سب کی طرح مختلف کھیلوں میں بہت سے نامور اور بہترین کھلاڑی کراچی سے ہی تعلق رکھتے تھے-
تاہم یہ اس دور کی بات ہے جب کراچی میں نوجوانوں کے کھیلنے کے لئے بہت سے میدان یا گراؤنڈز ہوا کرتے تھے- ان دنوں آپ بھلے کسی بھی علاقے میں نکلتے، کھیل کے میدان نظر آیا کرتے تھے جہاں بسا اوقات تو چلچلاتی گرمیوں کی دوپہر میں بھی نوجوان کھیل میں مگن نظر آتے تھے- یاں یہ ضرور ہے کہ کبھی انہیں کرکٹ کا جوش چڑھا ہوتا تو کبھی ہاکی اور کبھی فٹبال کے دیوانے ہو جاتے- بہرحال، ان نوجوانوں کے پاس اپنے کھیل کی شوق کی تکمیل کی بنیادی ضرورت یعنی کھیل کے میدان موجود تھے-
جب کھیل کے میدان تھے تو سب کھیلتے تھے، جب زیادہ لوگ کھیلتے تھے تو ان میں سے سب سے باصلاحیت اور بہترین ابھر کر سامنے آتے تھے اور آگے چل کر قومی ٹیم کا حصہ بنتے تھے- سیدھی سی بات ہے، ملائی تبھی زیادہ اور بہترین ہوگی جب دودھ زیادہ ہوگا-
آج حال یہ ہے کہ کم از کم کراچی کی حد تک تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ کھیل کے میدان جیسے غائب ہی ہو گئے ہیں- آج کراچی کے زیادہ تر علاقوں کی حالت یہ ہے کہ لاکھوں کی آبادی کے باوجود ایک بھی کھیل کا میدان نہیں-
جن علاقوں میں اب بھی خوش قسمتی سے کچھ کھیل کے میدان باقی بچ گئے ہیں ان کا حال یہ ہے کہ سوائے چھٹی والے دن، خال خال ہی کوئی گروپ کھیلتا ہوا نظر آتا ہے ورنہ اب تو ان میں زیادہ تر لوگ ڈرائیونگ سیکھتے دکھائی دیتے ہیں-
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کھیل کے میدان گئے کہاں؟
جواب بہت پیچیدہ نہیں- ہم سب کی آنکھوں کے سامنے یہ کھیل کے میدان، مختلف قبضہ مافیا اور ہمارے سیکورٹی اداروں کی نظر ہو گئے- بہت سے میدانوں پر ان علاقوں کی مختلف قبضہ مافیا نے قبضہ کرنے کے بعد وہاں پلاٹنگ کر کے انہیں پیچ دیا جہاں لوگوں نے اپنے گھر اور دوکانیں بنا لیں-
قبضہ مافیا سے سے جو میدان بچ گئے ان پر مختلف سیاسی جماعتوں اور نوے کی دہائی میں کراچی آکر مستقل براجمان ہونے والے رینجرز بھائیوں نے قبضہ کر لیا- آخر انہیں بھی اپنا ڈیرہ ڈالنے کے لئے جگہ درکار تھی-
کراچی میں زمین ویسے ہی عنقا ہے لہٰذا کھیل کے میدانوں پر قبضہ سب سے آسان تھا کہ زمین ہموار، کوئی تعمیر نہیں لہٰذا ان پر آسانی سے قانون کی عملداری کے نام پر قبضہ کر لیا گیا.
آج اگر کراچی کے پرانے اور مشہور گراؤنڈز کھوجنے نکلیں تو آپ کو بہت سے پرانے گراؤنڈز پر رینجرز کے کمپاونڈز بنے نظر آئیں گے جہاں اب نہ صرف ان کے لئے دفاتر اور گھر بن چکے ہیں بلکہ ان میدانوں کی جگہوں کو رینجرز کے زیرانتظام مختلف کمرشل مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے-
کھیلوں میں پاکستان کی خستہ حالی کی ایک اور بڑی وجہ نوجوانوں میں کھیلوں کا خطرناک حد تک ختم ہوتا رجحان ہے- یہ ٹھیک ہے کہ آج سے چند سال پہلے بھی تمام نوجوان نسل کھیلوں سے رغبت نہیں رکھتی تھی، پر آج آپ کو ایسے نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ملتی ہے جنھیں کسی بھی قسم کا کھیل کھیلنے سے دلچسپی نہیں-
دیگر سماجی اور معاشی فیکٹرز کے علاوہ اس کی ایک بڑی وجہ آج کا تیز لائف اسٹائل بھی ہے- دوسرے یہ کہ ہمارے یہاں آج بھی کھیلوں میں پیسہ نہیں-
صاحب، اور سب چھوڑیں، یہاں تو حال یہ ہو چکا ہے کہ اگر ہمارا کوئی کھلاڑی غلطی سے کسی کھیل میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کر کے ملک و قوم کا نام روشن کر بھی دے تو اس کے لئے صرف انعامات کا اعلان کیا جاتا ہے اور رہ گئے انعامات، ان کی تو بات ہی نہ کریں- پہلے کبھی دئے تھے جو اب دیں گے-
کرکٹ کو چھوڑیں، بقیہ کھیلوں کی مثال لے لیں- محمد آصف کے ورلڈ چیمپئن بننے کے بعد، وفاقی اور صوبائی سطح پر بہت سی شخصیات نے انہیں انعام دینے کا اعلان کیا لیکن کمال ڈھٹائی دیکھیں کہ ان اعلان کردہ انعامات میں سے اکثر آج تک انہیں نہیں ملے-
اگر ہمیں کھیلوں کے شعبے میں اپنے ملک کو آگے بڑھانا ہے تو سب سے پہلے ہمیں اس کے لئے کھیل کے میدان دوبارہ بنانا ہوں گے تاکہ بچے اور نوجوان کھیل سکیں- جب بچے اور نوجوان کھیلیں گے نہیں تو ان میں سے اچھے کھلاڑی کیسے آئیں گے؟
اس حوالے سے چند مزید فیکٹرز پر اگلے بلاگ میں بات ہوگی- فی الوقت تو میری درخوست بس یہی ہے کہ "کھیلنے دو!"
تبصرے (1) بند ہیں