صحت کا غیر معیاری شعبہ
صحت کا شعبہ سب کی توجہ کا مرکز ہونا چاہئے- ان لوگوں کا بھی جنھیں بہترین پیشہ ور ڈاکٹروں کی خدمات حاصل ہیں- بیماریوں کی سرحدیں نہیں ہوتیں اور امیر ہوں یا غریب یہ سب پر حملہ آور ہوتی ہیں، اگرچہ کہ غریب اسکا زیادہ شکار ہوتے ہیں- اس کے علاوہ صحت کے مسائل ملک کی بین الاقوامی حیثیت کو بھی متاثر کرتے ہیں جیسا کہ پولیو کے معاملے میں ہنگامی صورت حال سے ظاہر ہوا ہےجس کے نتیجے میں غیر ممالک کا سفر کرنے والے پاکستانیوں پر نئی شرائط لگائی گئی ہیں-
اس لئے کیا یہ ضروری نہیں کہ جن شہریوں کو اس بات پر تشویش ہے وہ تعلیم کے شعبہ کی طرح میڈیکل سسٹم کو بھی باضابطہ بنانے کی کوشش کریں؟ اور صرف سماجی بہبود اور شہری ذمہ داری کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ خود اپنے مفاد کے پیش نظر بھی، پڑھے لکھے طبقہ کو چاہیئے کہ وہ صحت عامہ کے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کرے-
پاکستان میں صحت کے انفرا اسٹرکچر کی مایوس کن صورتحال کی بہت سی وجوہات ہیں- ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم ایسے ماہر ڈاکٹروں کو تیار کرنے میں ناکام ہورہے ہیں جو اپنے مقدس پیشہ کا وقار بلند رکھیں-دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے میڈیکل کے پیشہ کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ بد ترین بد عنوانیوں میں ملوث رہیں-
نتیجہ یہ نکلا ہے کہ میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلنے والے ڈاکٹرز اس معیار کے نہیں ہیں جو اس مایوس کن صورتحال کو بدل سکیں- سچ تو یہ ہے کہ میڈیکل تعلیم کا نظام اور ڈاکٹروں کو لائسنس دینے کا جو طریقہ ہمارے ملک میں رائج ہے وہ انتہائی ناکافی اور فرسودہ ہے اس کے علاوہ اس میں بدعنوانیوں کا بھی راج ہے-
اگرچہ میڈیکل شعبہ سے تعلق رکھنے والے بہت سے تجربہ کار اور ذمہ دار لوگوں نے وقتاً فوقتاً اپنی تشویش ظاہر کی ہے لیکن انھیں نظرانداز کردیا گیا ہے- اب ساری توجہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل(پی ایم ڈی سی)پر مرکوز کردی گئی ہے جو خود کو"اسٹیچوری ریگیولیٹری باڈی قرار دیتی ہے جو میڈیکل، ڈینٹل اور پیشہ ورانہ مہارت، دیکھ بھال اور میڈیکل/ڈینٹل پریکٹس کے معیار کا تعین کرتی ہے تاکہ پاکستان میں عوام کے مفادات کا تحفظ کیا جاسکے-
کم ہی لوگ اس بات سے انکار کرینگے کہ پی ایم ڈی سی اپنے فرائض کو دیانتداری سے انجام دینے میں ناکام رہا ہے-اس میں نجی میڈیکل کالجوں کے پرنسپلز بڑی تعداد میں موجود ہیں اور اب اس نے میڈیکل تعلیم کو ریگیولیٹ کرنے کی ذمہ داری بھی اپنے سر لے لی ہے- چنانچہ، جیسا کہ سمجھا جارہا تھا پرائیویٹ اداروں کی بھرمار ہوگئی ہے- جہاں 1990 میں صرف ایک پرائیوٹ کالج تھا آج ان کی تعداد 52 ہے، جبکہ سرکاری اداروں کی تعداد صرف 32 ہے-
پی ایم ڈی سی اس وقت سب کی نظروں میں ہے---اور اس کی شہرت قطعی اچھی نہیں ہے- اسکی بدعنوانیوں کی وجہ سے حکومت نے اسی سال مارچ میں ایک آرڈیننس جاری کیا اور ایک نگراں کمیٹی قائم کی جس نے 120 دنوں کے اندر نئے انتخابات کروانے کا حکم دیا- لیکن ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ اس آرڈیننس کو سینیٹ نے مسترد کردیا اور یہ کارروائی روک دی گئی-
اسی دوران بہت سے اداروں کے اجازت ناموں کو منسوخ کردیا گیا جس نے اس الزام کو درست ثابت کردیا کہ تعلیم کے دیگر شعبوں کی طرح میڈیکل ایجوکیشن میں بھی بدعنوانی ہورہی ہے- اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ اگر میڈیکل ایجوکیش میں دھوکہ اور فریب ہو تو یہ زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے- اگر میڈیکل کالجوں کو مستقل فیکلٹی یا اس سے ملحق ٹیچنگ اسپتالوں کے بغیر کام کرنے کی اجازت دیجائے تو پھر نتیجہ یہی نکلتا ہے-
اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بہت سے ڈاکٹرز نہ صرف پی ایم ڈی سی کے ڈھانچے سے غیرمطمئن ہیں بلکہ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں اب وقت آگیا ہے کہ اس کے رول کو نئے سرے سے متعین کیا جائے- ڈاکٹر نعیم جعفری جو ایک تجربہ کار فزیشین اورضیاء الدین میڈیکل یونیورسٹی میں اعزازی پروفیسر اور اسکی اکیڈمک امور کے مشیر ہیں، یہ سوال کرتے ہیں، "کیا پی ایم ڈی سی کو لائسنسنگ اتھارٹی ہونا چاہیئے یا ریگیولیٹری باڈی؟"
ان کا خیال ہے کہ پی ایم ڈی سی کو" لائسنسنگ باڈی ہونا چاہیئےاور اس کو اپنی توجہ اس طرف دینی چاہیئے-"وہ انگلینڈ کی جنرل میڈیکل کونسل کی مثال دیتے ہیں جس کے فرائض کو اسکی ویب سائٹ پربیان کردیا گیا ہے:"ہم عوام کی صحت کی حفاظت کرنے اور اسے بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور ہم اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ڈاکٹرز اپنی پریکٹس میں معیار کو برقرار رکھیں-"
پی ایم ڈی سی کا رول بھی یہی ہونا چاہیئے اور ڈاکٹر جعفری سمجھتے ہیں کہ اسکی تشکیل نو کی ضرورت ہے کیونکہ اس مسئلہ کو صرف متعلقہ پیشہ کے لوگ حل نہیں کرسکتے-
بلکہ لائسنسنگ باڈی کی حیثیت سے اسے چاہیئے کہ وہ کوالیفائنگ امتحان منعقد کرے بلکہ ان میڈیکل کالجوں کوتسلیم کرے جس کے طلباء ان امتحانوں میں حصہ لے سکتے ہوں-
ڈالٹر جعفری کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ پی ایم ڈی سی کا لائسنسنگ اور ریگیولیٹری رول کو علیحدہ کرنے کی ضررت ہے- ہائر ایجوکیشن کمیشن یا یونیورسٹیاں ریگیولیٹری باڈی کا رول انجام دیسکتی ہیں اور وہ اس طرح کہ وہ میڈیکل اداروں کے لئے ایک معیار مقرر کریں ---سہولتوں، فیکلٹی اور نصاب کے متعلق-
ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر اصلاحات کی جائیں- اگر ملک میں میڈیکل ایجوکیشن کو بچانا ہے تو نظام میں تبدیلی لانا ضروری ہے- اگر جانچ پڑتال کا نظام قائم کیا جائے تو کسی ایک تنظیم کے ہاتھوں میں طاقت مرکوز نہ ہوگی جسکی وجہ سے بدعنوانیوں کو موقع ملتا ہے-
سب سے زیادہ اہم بات تو یہ ہے کہ عوام کی شکایات کو دور کرنے کے لئے کوئی ایسی جگہ ہونی چاہیئے جہاں وہ میڈیکل پروفیشنلز کے ہاتھوں تکلیف پہنچنے پر اپنی شکایات لیجاسکے- پی ایم ڈی سی کی ویب سائٹ پر رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنرز کے خلاف شکایات درج کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے- عوام کی جانب سے شکایات تو بہت سننے میں آتی ہیں لیکن یہ پتا نہیں چلتا کہ ان کا ازالہ کرنے کے لئے کیا کیا جارہا ہے-
ترجمہ: سیدہ صالحہ