• KHI: Maghrib 5:50pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:11pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:13pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:50pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:11pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:13pm Isha 6:37pm

دی فیوچر: سکس ڈرائیورز آف گلوبل چینج

شائع July 8, 2014
دی فیوچر:  سکس ڈرائیورز آف گلوبل چینج
دی فیوچر: سکس ڈرائیورز آف گلوبل چینج

ماحولیاتی تبدیلیوں کے موضوع پر اس انتہائی اہم کتاب میں امریکہ کے سابق نائب صدر ال گور نے ماحولیات پر اور اس میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر نظر ڈالی ہے-

اکیسویں صدی خاص طور پر ماحولیاتی بحران کے سنگین مسائل سے دوچار ہے اگر ہماری زمیں کو تباہ کن تبدیلیوں سے بچانا ہے تو ضروری ہے کہ اس کو بچانے کیلئے ابھی سے اقدامات کئے جائیں- خاص طور سے صنعتی لحاظ سے ترقی یافتہ ملکوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا رول ادا کریں-

ال گور نے اپنی کتاب دی فیوچر میں ان چھ عوامل کی نشاندہی کی ہے جنکی وجہ سے ہماری دنیا بحران کا شکار ہو رہی ہے- انہوں نے نہ صرف ان عوامل کا تجزیہ کیا ہے بلکہ ان کے حل کے ممکنہ امکانات بھی تجویز کئے ہیں-

کتاب کے پہلے باب میں انہوں نے معاشی گلوبلائزیشن پر روشنی ڈالی ہے جسے وہ ارتھ انکارپوریشن کا نام دیتے ہیں جسے انہوں نے عالمی سطح پر بڑی بڑی کارپوریشنوں کے گٹھ جوڑسے تعبیر کیا ہے -

وہ کہتے ہیں کہ آج سرمایہ، محنت، صارفین اور قومی حکومتوں کے درمیان جو تعلقات بن رہے ہیں وہ ماضی سے مختلف ہیں- آج کا دور آؤٹ سورسنگ کا دور ہے یعنی صنعتی ممالک اپنا سامان ترقی پزیر ممالک کی منڈیوں میں بنواتے ہیں کیونکہ اس طرح وہ کم اجرت دیکر، کم لاگت میں اپنا مال پیدا کرتے ہیں اور زیادہ منافع کماتے ہیں- اس کی وجہ سے ایک تو خود صنعتی ممالک میں بیروزگاری کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ امیر اور غریب کے درمیان فاصلہ بڑھتا جارہا ہے-

مثلا وہ کہتے ہیں کہ امریکہ سمیت بہت سے ملکوں میں ایک فیصد آبادی میں دولت کا ارتکاز بڑھتا جارہا ہے جسکی وجہ سے سیاسی نظام میں ہلچل مچی ہوئی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے حکومتیں اس قابل نہیں ہوتیں کہ وہ عوام کے فائدے کی خاطر اپنی پالیسیوں میں تبدیلی پیدا کرسکیں-

آؤٹ سورسنگ کے ساتھ ساتھ روبو سورسنگ (روبوٹس کے استعمال) نے بھی سرمایہ اور محنت کے توازن کو تبدیل کر دیا ہے، روبوٹ مشینیں بھی بیروزگاری کا سبب بن رہی ہیں- جسکا اثر خاص طور پر سروسز اور مینوفیکچرنگ کے شعبے پر پڑرہا ہے اور اب تو گوگل ایسی گاڑیاں بنا رہا ہے جو بغیر ڈرائیور کے سفر کرینگی! اس کے نتائج روزگار پر کیا پڑ سکتے ہیں، اندازہ کرنا مشکل نہیں-

اعداد و شمار کو اکٹھا کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے میں مصنوعی ذہانت والی روبوٹ مشینوں کی کارکردگی حیران کن حد تک تیز ہے- اس کا اندازہ آپ کرکٹ میچ کے دوران پیش کئے جانے والی ان تصویروں سے لگائیے جس میں گیند کی حرکت کا فوری خاکہ پیش کردیا جاتا ہے- انسانی ذہن اتنی تیزی کے ساتھ یہ کام نہیں کرسکتا- ان مشینوں کا استعمال اسٹاک مارکیٹ میں بڑھتا جا رہا ہے جسکی وجہ سے تیزی اور مندی کے ایسے اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آتے ہیں کہ انسان ششدر رہ جاتا ہے-

روبوٹ سورسنگ کے علاوہ اب سیلف سورسنگ بھی روز افزوں طور پر متعارف ہورہی ہے- اسکی ایک مثال اے ٹی ایم مشینیں ہیں جسکی وجہ سے اب بینکوں کے ساتھ شخصی لین دین کم ہوتا جا رہا ہے اور اسکی وجہ سے بھی بیروزگاری بڑھ رہی ہے -

عالمی سطح پر دوسری اہم تبدیلی کی وجہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا استعمال ہے- ال گور لکھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں ایک "گلوبل مائنڈ " جنم لے رہا ہے- مواصلات کے یہ ذرائع اتنے تیز ہیں کہ پل بھر میں لاکھوں لوگوں کے ذہن، خیالات اور احساسات کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتے ہیں- چنانچہ تیز رفتار مواصلاتی ٹیکنولوجی عالمی سیاست پر تیزی سے اثر انداز ہو رہی ہے- الیکٹرانک میڈیا نے پرنٹ میڈیا کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے-

ال گور کی رائے میں گلوبل مائنڈ کی وجہ سے اب عالمی سطح کے فیصلے کسی ایک ملک یا چند ملکوں کی اجارہ داری نہیں رہے- کئی دہائیوں تک امریکہ کے فیصلے ساری دنیا مانتی رہی- لیکن اب یہ فیصلہ کہ دنیا کا مستقبل کیسا ہوگا، اپنےدائرے پھیلا رہا ہے- چنانچہ یہ بتانا مشکل ہے کہ "گلوبل مائنڈ" کی ساخت کیا ہوگی-

مستقبل کی تشکیل دینے والا تیسرا عامل طاقت کا توازن ہے- سیاسی، معاشی اور فوجی میدانوں میں طاقت کا توازن آج تیزی سے تبدیل ہورہا ہے- کافی عرصے تک یہ توازن امریکہ کے حق میں تھا لیکن اب عالمی سطح پر طاقت کے کئی مراکز ابھر رہے ہیں- ان میں مختلف ممالک کی قومی حکومتوں سے لیکر نجی کارپوریٹس، سیاسی نظام اور مارکیٹ کی قوتیں شامل ہیں-

بہت سے تجزیہ نگار یہ سمجھتے ہیں کہ عالمی سطح پر امریکہ کی قائدانہ صلاحیتیں نسبتاً کم ہو رہی ہیں- 2010 میں چین مینوفیکچرنگ کے شعبے میں امریکہ سے بھی آگے بڑھ گیا اور امریکہ اس سطح سے پیچھے چلا گیا جس پر گزشتہ ایک سو سال سے اسکا قبضہ تھا-

اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ امریکہ میں کارپوریٹ طاقتیں مضبوط ہوتی جا رہی ہیں جو امریکی جمہوریت کو کمزور کر سکتی ہیں- اب امریکہ میں پالیسی فیصلوں میں دولت اور قوت کا استعمال زور پکڑ رہا ہے- اسکا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ آج کل انتخابات کی مہم میں لاکھوں ڈالرز کے خرچ سے ٹیلی ویژن پر اشتہارات کیلئے وقت خریدا جاتا ہے-

کارپوریٹس کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ کی پچیس ملٹی نیشنل کارپوریشنیں ایسی ہیں جن کی آمدنی دنیا کے بہت سے ملکوں کی قومی آمدنی سے زیادہ ہے- چنانچہ یہ کارپوریٹس اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ریاستی پالیسیوں پر اثراندازہوتی ہیں اور امریکی جمہوریت اپنے قومی معاشی مستقبل کو متعین کرنے میں مشکلات سے دوچار ہے-

مستقبل کو شکل دینے میں فوجی توازن کی اہمیت کا جائزہ لیتے ہوئے ال گور امریکہ کے رول پر نظر ڈالتا ہے- آج امریکہ اسلحے کی انٹرنیشنل منڈی میں سب سے آگے ہے- اسکے ساتھ ساتھ ملکوں میں ایٹمی طاقت بننے کارجحان بڑھتا جا رہا ہے اور انتہا پسند قوتیں زور پکڑ رہی ہیں جنہیں قابو کرنے کی کوششیں جاری ہیں-

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ خواہ ہم دنیا کے کسی خطے میں آباد ہوں یا تو ان طاقتور عوامل کے سامنے ہتھیار ڈال دیں جو عالمی مستقبل کیلئے خطرہ ہیں یا پھر ایک ایسی راہ اختیار کریں جو انسانیت کے احترام پر مبنی ہو-

دنیا کے مستقبل کو متعین کرنے والا چوتھا عامل ہے "اضافہ"- آبادی میں اضافہ، قدرتی وسائل کے استعمال میں اضافہ مثلا پانی، گیس، تیل وغیرہ کے استعمال میں اضافہ، اشیائے خورد و نوش کے استعمال میں اضافہ --- اس اضافے کو ہم کب تک برداشت کرسکتے ہیں؟

آبادی میں ہولناک اضافے کی وجہ سے قدرتی وسائل کے ذخائر میں مسلسل کمی آ رہی ہے- جنگلات صاف ہورہے ہیں، پانی کی سطح کم ہوتی جارہی ہے، گلوبل وارمنگ نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، فیکٹریوں سے زہریلے مادے کے اخراج کی وجہ سے ماحول میں کثافت پھیل رہی ہے، سمندر آلودہ ہو رہے ہیں- غرض کہ ان اضافوں نے دنیا کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے-

بائیو ٹیکنولوجی بھی دنیا کے مستقبل پر اثر انداز ہو رہی ہے مثلا جینیٹک انجینئرنگ، کلوننگ وغیرہ- جین کے اسٹرکچر میں مصنوعی طور پر تبدیلی پیدا کرکے اپنی پسند کے بچے "ڈیزائنر بےبی" پیدا کرنے کی کوششیں، کلوننگ وغیرہ انسانی تہذیب کے اخلاقی اقدار پر شدید ضرب لگا رہی ہیں- اگرچہ کہ زبردست مخالفت کے زیر اثر اب یہ سلسلہ ٹھنڈا پڑچکا ہے-

دوسری طرف میڈیکل سائنسزمیں ایسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں کہ علاج معالجے کی سہولتیں آسان تر ہوتی جا رہی ہیں جس میں انفرادی طور پر ہر فرد کے جینیاتی اسٹرکچر کو پیش نظر رکھتے ہوئے ادویات اور طریقۂ علاج کو تجویز کیا جا سکے گا-

ال گور ایک طرف تو انسانی تہذیب میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو دوسری طرف ان خطرات کی جانب جو انسان کے مستقبل کو لاحق ہیں-


ان مہیب خطرات پر کس طرح قابو پایا جائے؟

اس سلسلے میں وہ انٹرنیٹ کے رول سے پرامید ہیں جو ایک گلوبل مائنڈ کو جنم دے رہا ہے- ان کے خیال میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی مقبولیت اور اس کی وسعت پوری دنیا میں مڈل کلاس کو ایک دوسرے سے جوڑ کر متحد کر دیگی اور انہیں امید ہے کہ یہ طبقہ ایک گلوبل مائنڈ کی شکل میں اس چیلنج کا مقابلہ کریگا اور ایسے حل پیش کریگا جو دنیا کے مستقبل کو محفوظ کر سکتے ہیں-

ساتھ ہی وہ مارکیٹ کیپیٹلزم اور نمائندہ جمہوریت میں اصلاحات کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہیں تاکہ سیاست میں دولت کی دخل اندازیاں کم ہوں کیونکہ جب پیسہ اور سیاست میں گٹھ جوڑ ہوتا ہے تو یہ حکومت کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتا ہے- اس ضمن میں وہ امریکہ کی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر نکتہ چینی بھی کرتا ہے-

آج کی دنیا میں طاقت کے نئے ابھرتے ہوئے مرکز چین کے رول کا تجزیہ کرتے ہوئے ال گور امریکہ کی قائدانہ صلاحیتوں پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکہ ایک بار پھر دنیا کے مستقبل کو محفوظ بنانے میں اپنا تاریخی کردار ادا کریگا-


کتاب کا نام: دی فیوچر: سکس ڈرائیورز آف گلوبل چینج

لکھاری: ال گور

پہلی چھپائی: فروری 2013

قیمت: 30$

سیدہ صالحہ

لکھاری فری لانس جرنلسٹ ہیں، اور سماجی مسائل اور ادب پر لکھنا پسند کرتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 4 نومبر 2024
کارٹون : 3 نومبر 2024