مشرف کو اُکسانے والوں کی فہرست وکلاء کے پاس
اسلام آباد: تین نومبر، 2007 میں ایمرجنسی نافذ کرنے سے پہلے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی فوجی اور سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتوں کی تفصیلات حاصل کرنے کے حوالے سے استغاثہ اگرچہ بار ہا اپنی ناکامی کا اظہار کر چکی ہے۔
تاہم مشرف کی قانونی ٹیم نے کم از کم ایسی آٹھ ملاقاتوں کی فہرست تیار کی ہے۔
سابق صدر کی قانونی ٹیم کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ فوجی افسران سے ملاقاتیں جنرل ہیڈ کواٹر اور آرمی ہاؤس کے قریب ان کے کیمپ آفس میں جبکہ مشرف کی وزیر اعظم، ارکان کابینہ اور سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں وزیر اعظم ہاؤس میں ہوئیں۔
مشرف کے ایک وکیل ایڈوکیٹ فیصل حسین نے بتایا کہ ان کی ٹیم کے پاس ان لوگوں کی فہرست موجود ہے جنہوں نے اکتوبر کے آخری ہفتہ سے تین نومبر کے دوران مشرف سے ملاقاتیں کیں۔
حسین نے بتایا کہ ان کی ٹیم مشاورت کے بعد یہ فہرست مناسب وقت پر عدالت میں پیش کرے گی۔
ڈان کے ساتھ شئیر کی جانے والی معلومات کے مطابق، ان میں چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، دو دوسرے سروسز چیفس، اُس وقت کےوائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی، مختلف کور کمانڈرز، گورنرز، خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان، اُس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز، ان کی کابینہ کے اہم ارکان اور کچھ نمایاں سیاسی شخصیات شامل ہیں۔
تفصیلات کے مطابق، 27 اکتوبر، 2007 کو جنرل مشرف نے کمانڈر ون کور لیفٹیننٹ جنرل ساجد اکرم، کمانڈر دس کور، لیفٹیننٹ جنرل محسن کمال، کمانڈر تیس کور لیفٹیننٹ جنرل وسیم اشرف، کمانڈر چار کور لیفٹیننٹ شفاعت اللہ شاہ اور کمانڈر گیارہ کارپس لیفٹیننٹ جنرل مسعود عالم سے ملاقاتیں کیں۔
اٹھائیس اکتوبر کو مشرف کمانڈر دو کور لیفٹیننٹ جنرل سکندر افضل، کمانڈر پانچ کور لیفٹیننٹ جنرل احسن اظہر حیات، کمانڈر اکتیس کور لیفٹیننٹ جنرل امتیاز حسین اور کمانڈر جنوبی کمانڈ کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل خالد شمیم وائن سے ملے۔
اگلے روز مشرف نے چار ملاقاتیں کیں:
پہلے وہ اُس وقت کے سی جے سی ایس سی جنرل طارق مجید، ائیر چیف مارشل تنویر محمود احمد اور اُس وقت کے نیوی چیف ایڈمرل افضل طاہر سے ملے۔
دوسری ملاقات مسلح افواج کے پرنسپل سٹاف افسرز، تیسری صوبائی ہیڈ کواٹرز کے کور کمانڈروں اورصوبائی گورنروں سے ہوئی جن میں پنجاب سے(ر) لیفٹیننٹ جنرل خالد مقبول، سندھ کے عشرت العباد، خیبر پختونخوا سے (ر) لیفٹیننٹ جنرل علی محمد جان اورکزئی، بلوچستان سے اویس غنی شامل تھے، جبکہ چوتھی ملاقات خفیہ اداروں کے سربراہان سے تھی۔
اکتیس اکتوبر کو سابق صدر اُس وقت کے وزیر اعظم ، کابینہ کے اہم ارکان اور حکمران اتحاد کے کچھ اہم سیاست دانوں سے ملے۔
ایمرجنسی نافذ سے ایک دن پہلے مشرف نے شوکت عزیز، وائس چیف آف آرمی سٹاف، نیشنل سیکورٹی کونسل ایڈوائزر طارق عزیز اور آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی کے سربراہان سے ملاقاتیں کیں۔
حالانکہ، فوجی ترجمان نے کبھی اس معاملے پر بات نہیں کی لیکن سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کا ایک بیان، جو خصوصی عدالت میں جمع شدہ ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ کا بھی حصہ ہے، تصدیق کرتا ہے کہ صوبائی گورنروں نے تین نومبر کو ایمرجنسی نافذ ہونے سے پہلے مشرف سے ملاقات کی تھی۔
رپورٹ میں ڈاکٹر عباد سے پوچھا گیا تھا کہ آیا جنرل پرویز مشرف نے اس معاملے پر ان سے مشاورت کی؟ اور اگر کی تو کب؟ اور کس طرح؟
رپورٹ میں ڈاکٹر عشرت العباد کا جواب کچھ اس طرح موجود ہے:
اکتوبر،2007 کے آخری ہفتے میں انہیں اور تین دوسرے صوبوں کے گورنروں کو مشرف کے زیر صدارت ایک ملاقات کے لیے طلب کیا گیا تھا۔ ملاقات میں اُس وقت کے صدر نے گورنروں کو مطلع کیا کہ ملک کو درپیش مشکل صورتحال کے پیش نظر حکومت کچھ ایسے اقدامات اٹھانے پر غور کر ہی ہے، جو آئین کے تحت جائز ہیں۔
بیس جولائی،2007 کو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد، مشرف نے تئیس جولائی کو سی جے سی ایس سی، پچیس جولائی کمانڈر ون کور لیفٹیننٹ جنرل ساجد اکرم، کمانڈر دس کور لیفٹیننٹ جنرل محسن کمال اور کمانڈر گیارہ کور لیفٹیننٹ جنرل مسعود عالم، چھبیس جولائی کمانڈر دو کور لیفٹیننٹ جنرل سکندر افضل، کمانڈر چار کور لیفٹیننٹ جنرل شفاعت اللہ شاہ، اور کمانڈر تیس کور لیفٹیننٹ جنرل وسیم اشرف،تین اگست کمانڈر فائیو کور لیفٹیننٹ جنرل احسن اظہر حیات، کمانڈر بارہ کور لیفٹیننٹ جنرل خالد شمیم وائن اور کمانڈر اکتیس کور لیفٹیننٹ جنرل امتیاز حسین سے ملاقاتیں کیں۔
مشرف کی سربراہی میں تین اگست کو ہی کور کمانڈرز کانفرنس بھی منعقد ہوئی تھی۔