• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

وفاقی اردو یونیورسٹی، کراچی اور اسلام آباد کی فیسوں میں واضح فرق

شائع July 1, 2014
تصویر بشکریہ یونیورسٹی فیس بک پیج۔
تصویر بشکریہ یونیورسٹی فیس بک پیج۔

اسلام آباد : وفاقی اردو یونیورسٹی آرٹس، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (ایف یو یو اے ایس ٹی) اسلام آباد اور کراچی کے کیمپیسز میں فیسوں کے درمیان واضح فرق نے طالبعلموں اور ان کے والدین کو مشتعل کردیا ہے۔

طالبعلموں سے ڈان کو معلوم ہوا ہے کہ اسلام آباد میں وفاقی اردو یونیورسٹی سہولیات کے لحاظ سے کراچی کیمپس سے پیچھے مگر یہاں فیس تین گنا زیادہ ہے۔

اس یونیورسٹی کا قیام نومبر 2002ءمیں صدر پاکستان کی جانب سے جاری کردہ ایک آرڈیننس کے تحت عمل میں آیا تھا۔

اس آرڈیننس کے تحت یونیورسٹی کو اپنی مرکزی شاخ اسلام آباد میں کھولنا تھی اور اس وقت ساڑھے چار ہزار سے زائد طالبعلم زیرتعلیم ہیں۔

ڈان کو دستیاب دستاویزات کے مطابق اسلام آباد اور کراچی میں یونیورسٹی کے کیمپسز کی فیسوں میں واضح فرق موجود ہے۔

دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ کراچی کیمپس میں یونیورسٹی بی کام کے ہر سیمسٹر کے لیے پانچ ہزار روپے لیتی ہے، جبکہ اسلام آباد میں اس ڈگری کے خواہشمند طالبعلموں کو فی سیمسٹر 38 ہزار روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔

اسی طرح کراچی میں بی ایڈ کی فیس سیمسٹر فیس بارہ ہزار روپے اور اسلام آباد میں 35 ہزار روپے ہے، جبکہ کراچی کیمپس میں ایم اے کی فی سیمسٹر فیس 4200 روپے اور اسلام آباد میں اٹھارہ ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔

کمپیوٹر سائنس کے لیے کراچی کیمپس میں فی سیمسٹر فیس ساڑھے چودہ ہزار روپے اور اسلام آباد میں 35 ہزار روپے لیے جاتے ہیں۔

یونیورسٹی کے ایک فیکلٹی ممبر نے کہا کہ اسلام آباد اور کراچی کے کیمپسز میں یکساں فیس اسٹرکچر ہونا چاہئے کیونکہ یہ پبلک سیکٹر کی یونیورسٹی ہے اور اسے ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے گرانٹ بھی ملتی ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے قوانین کے مطابق بجٹ کا سترہ فیصد حصہ اسلام آباد کیمپس کو دیا جاتا ہے، جبکہ یونیورسٹی کو دیگر ذرائع سے بھی آمدنی ہوتی ہے، اگر انتظامیہ غیرمتعلقہ اخراجات میں فنڈز کا ضیاع نہ کرے تو طالبعلموں کے لیے فیسوں کو ساٹھ فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

فیکلٹی ممبر نے کہا کہ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یونیورسٹی کو ایک کرائے کی عمارت میں چلایا جارہا ہے مگر یہ جواب قابل قبول نہیں کیونکہ کسی عمارت کا کرایہ ادا کرنے کے نام پر فیسوں میں کئی گنا اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔

ایک طالبعلم کے والد محمد خان نے ڈان کو بتایا کہ سرکاری یونیورسٹی ہونے کے باوجود اسلام آباد اور کراچی کے کیمپسز میں مختلف فیس سٹرکچر موجود ہے جو قابل قبول نہیں۔

انکا کہنا تھا کہ میرے بیٹے نے بتایا ہے کہ بیشتر کمپیوٹر خراب ہیں، اگرچہ بجلی کے لیے متبادل انتظامات موجود ہیں مگر وہ بھی کام نہیں کرتے، اور لوڈشیڈنگ کے دوران طالبعلموں کو عمارت سے باہر نکل کر پڑھنا پڑتا ہے، فیسوں میں اضافے اور دیگر مسائل کے باعث والدین کے لیے تعلیم کا بوجھ اٹھانا مشکل ہوگیا ہے، یونیورسٹی کی انتظامیہ کو طالبعلموں کے بہترین مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیسوں کا بوجھ کم کرنا چاہئے۔

اسلام آباد کیمپس کے انچارج پروفیسر ڈاکٹر عبدالرزاق معیم نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مالی مسائل کے باعث فیسوں میں اضافہ ناگزیر تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کیمپس آئیسکو کی زیرملکیت عمارت میں کام کررہا ہے، تاہم کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور آئیسکو کے درمیان اس کی ملکیت پر تنازعہ چل رہا ہے اور ہائیکورٹ کے حکم کے تحت ہمیں ہر ماہ 17 لاکھ روپے عدالت میں جمع کرانے پڑتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم کراچی کیمپس کے مقابلے میں زیادہ فیس لے رہے ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

راضیہ سید Jul 02, 2014 09:24am
وفاقی اردو یونیورسٹی کے قیام کو بنیادی مقصد یہی تھا کہ تمام تر مضامین کو اردو زبان میں پڑھایا جائے اور قومی زبان کی ترقی اور ترویج میں اہم کردار ادا کیا جائے ، اگر میں یہ کہوں کہ اسلام آباد ( زیرو پوائنٹ ) والے کیمپس کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے تو یہ بات غلط نہیں ، آج سے کچھ سال قبل جب میں نوائے وقت کے لیے رپورٹنگ کیا کرتی تھی تو دو ہزار پانچ اور چھ کے دوران اس یونیورسٹی کا کوئی وائس چانسلر ہی نہیں تھا ، آئے دن یہاں پر اساتذہ اور طلبا احتجاج کرتے ، باقاعدہ جلوس نکالے جاتے ، لیکن وہی ڈھاک کے تین پات کوئی نتیجہ نہ نکلتا اور کچھ نہ کیا جاتا ، طلبا کا اس وقت یہ اعتراض تھا کہ یہ کیسی یونیورسٹی ہے جہاں کوئی وائس چانسلر نہیں ہم اسکی ڈگری پر کیسے اعتبار کریں ، ہمیں یہ بھی نہیں پتہ کہ اسکی ڈگری کہیں تسلیم بھی کی جائے گی یا نہیں اور کیا یہ جامعہ ایچ ای سی سے منظور شدہ ہے یا نہیں ْ؟ اس وقت یہ سب خدشات تھے اللہ اللہ کر کے وہ مسائل حل ہو گئے تو یہ مسئلہ کھڑا ہو گیا ، کوئی یہ سوچے کہ ماں باپ اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلانے کے لئے دن رات محنت کرتے ہیں اور بہت سے طالب علم تو ایسے بھی ہیں جو خود اپنے اخراجات برداشت کرتے ہیں وہ اپنی فیسیں دیں یا اپنی دیگر ضروریات پوری کریں اور جب ایک طالب علم کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ باقی کیمپسسز میں فیس کا فرق ہے تو اسکت اور اسکے والدین کی اذیت کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا ۔۔۔خدارا تعلیم کو ایک مقدس پیشہ رہنے دیں اسے کاروبار مت بنائیں ۔۔۔۔۔۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024