بک ریویو: اینڈ دی ماونٹینز ایکوڈ
اس ناول میں ہمیں انسانی رشتوں کی گونج سنائی دیتی ہے- انسانی رشتے جو خوبصورت بھی ہیں اور بدصورت بھی- |
خالد حسینی کا یہ تیسرا ناول 2013 میں شائع ہو کر دنیا بھر میں مقبول ہوچکا ہے- اس سے پہلے ان کے دو اور ناول شائع ہو چکے ہیں: 'کائٹ رنر' اور 'اے تھاؤزنڈ اسپلینڈیڈ سنز'، جن کا پس منظر افغانستان تھا جو سوویت یونین اور امریکہ کی مداخلت اور اس کے بعد اب طالبان کی دہشت گردی کا شکار ہے-
'اینڈ دی ماونٹینز ایکوڈ' کا کینوس کابل سے شروع ہو کر امریکہ، پیرس اور یونان کے ایک جزیرہ ٹینوس تک پھیلا ہوا ہے جو ہمیں ناول کے مرکزی کرداروں کے علاوہ دیگر کئی ایک ضمنی کرداروں سے متعارف کراتا ہے-
اگر ان کے پہلے ناول کائٹ رنر کے مرکزی کردار ایک باپ اور دو بیٹے تھے تو دوسرے ناول میں ایک ماں اور اسکی دو بیٹیاں مرکزی کردار تھیں- لیکن ان کا تیسرا ناول اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس میں کئی کہانیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں، لیکن تینوں ناول بنیادی ظور پر انسانی رشتوں کی کہانیاں ہیں جو بچپن سے شروع ہو کر جوانی کے دور کو عبور کرتی ہوئی بڑھاپے کی منزل پر پہنچتی ہیں اور پورا ناول ایک اکائی بن جاتا ہے- یہ کہانیاں ہمیں محبت اور حسد، وفاداری اور بیوفائی، ہمدردی اور خودغرضی اور انسان دوستی کی داستانیں سناتی ہیں-
زیر نظر ناول میں جیسا کہ کہا جاچکا ہے، یوں تو بہت سے کردار اور ان کی کہانیاں ہیں لیکن ناول کے مرکزی کردار دس سالہ عبداللہ اوراسکی تین سالہ چھوٹی بہن پری ہے- خالد اپنے ناول کو ایک درخت سے تشبیہ دیتے ہیں جسکے تنے سے شاخیں پھوٹ پھوٹ کر مختلف سمتوں میں پھیل جاتی ہیں-
ناول کا آغاز افغانستان کی ایک لوک کہانی سے ہوتا ہے جس میں ایک دیو ہر خاندان سے ایک بچے کی قربانی مانگتا ہے- لوک کہانی میں ایک کردار جو مجبور ہوکر اپنا ایک بچہ دیو کے حوالے کردیتا ہے، ضمیر کی آواز پر دیو سے بدلہ لینے نکل پڑتا ہے-
دیو کے قلعے پہنچ کر وہ دیکھتا ہے کہ جو بچے قربان ہوکر وہاں پہنچے تھے خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں- یہ دیکھ کر وہ شخص اپنا ارادہ تبدیل کردیتا ہے کہ جب وہ اپنی اولاد کو خوشیاں نہیں دے سکتا تو انہیں چھیننے کا اسے کیا حق ہے-
یہ کہانی ہمیں صبور سناتا ہے جو افغانستان کے ایک گاؤں شاد باغ میں غربت کی زندگی گزار رہا ہے- پہلی بیوی سے دو بچے ہیں عبداللہ اور پری- پہلی بیوی فوت ہوچکی ہے اور دوسری بیوی سے ایک بیٹا اقبال ہے-
سوتیلی ماں کی اپنی الجھنیں ہیں- عبداللہ ماں بن کر اپنی چھوٹی بہن کی پرورش کرتا ہے- صبور کے لئے اپنے خاندان کی کفالت کرنا آزمائش سے کم نہیں- وہ اپنی دوسری بیوی کے بھائی نبی کے مشورے پر اپنی بیٹی پری کو کابل کے ایک خوشحال، بےاولاد میاں بیوی سلیمان وحدتی اور نیلا وحدتی کے ہاتھ فروخت کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے- نبی ان کا ڈرائیور ہے-
پری کی فروخت ایک ایسا صدمہ ہے جو مرتے دم تک عبداللہ کا ساتھ نہیں چھوڑتا- اپنی بہن کی یاد سینے سے لگائے وہ اپنی بیٹی کا نام بھی پری رکھتا ہے جو امریکہ میں پیدا ہوتی ہے جہاں عبداللہ منتقل ہو چکا ہے-
پری کو اپنا بھائی یاد نہیں کیونکہ وہ کم عمری میں اس سے بچھڑ چکی تھی- دونوں بہن بھائی تیس سال کے طویل عرصے بعد مل پاتے ہیں- عبداللہ الژائمرکا شکار ہو کراپنی یادداشت کھو چکا ہے لیکن پری کی یاد کا سایہ اس کے ذہن پر مسلط ہے-
ناول کا آخری باب ایک دکھی بھائی اور بہن کے ملاپ کی کہانی ہے- خالد نے بڑی چابکدستی سے دونوں کی محبت کے تانے بانے بنے ہیں جسکی شاہد عبداللہ کی خدمت گزار بیٹی ہے جس کا نام بھی پری ہے- ناول کا یہ حصہ خاصا جذباتی ہے-
دوسری کہانی صبورکی دوسری بیوی پروانہ اور اسکی جڑواں بہن معصومہ کی ہے- معصومہ حسین ہے اور پروانہ معمولی شکل وصورت کی- ان دونوں کی کہانی جذبہ رقابت کی المناک داستان ہے-
ایک ایسے معاشرے میں جہاں عورت پچھڑی ہوئی ہے، حالات کے شکنجے میں جکڑی زندگی حسد اور رقابت کے منفی جذبات کو ہوا دیتی ہے- پروانہ معصومہ کو درخت سے گرا دیتی ہے اور وہ اپاہج ہو جاتی ہے- بھائی نبی دونوں بہنوں کو چھوڑ کر کابل چلاجاتا ہے-
پروانہ اپنے ضمیر کی خلش کے ساتھ معصومہ کی دیکھ بھال کرتی ہے جو اب زندگی سے بیزار ہے- وہ پروانہ کو مجبور کرتی ہے کہ خودکشی میں اسکی مدد کرے اور اس کی موت کے بعد صبور سے شادی کرلے جس سے اسے محبت تھی-
تیسری کہانی سلیمان وحدتی، اسکی بیوی نیلا وحدتی، ان کے ڈرائیور نبی اور بیٹی پری کی ہے جسے وہ گود لیتے ہیں- سلیمان افغانی ہے اور نیلا کی ماں کا تعلق پیرس سے تھا- نیلا ایک آزاد خیال اور ذہین عورت ہے جو اپنی شرائط پر زندگی بسر کرنا چاہتی ہے جس کی اجازت افغان معاشرہ نہیں دیتا- اسی وجہ سے نیلا کی ماں اپنے شوہر سے طلاق لیکر واپس پیرس چلی جاتی ہے-
چھ سالہ نیلا اپنے والد کے ساتھ افغانستان میں رہتی ہے- یہ افغانستان کے سابقہ حکمراں امان اللہ خان کا زمانہ تھا جو ترقی پسند نظریات کا حامل تھا جسے وہاں کا قبائلی معاشرہ قبول نہیں کرتا چنانچہ انکی حکومت کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے-
والد کی عائد کردہ پابندیاں نیلا کو گھٹن کا شکار کردیتی ہیں جس سے نجات کے لئے وہ شاعری میں پناہ ڈھونڈتی ہے اور فارسی زبان میں آزاد شاعری شروع کردیتی ہے- افغانی معاشرہ تو اسکی شاعری کو نظرانداز کردیتا ہے لیکن مغرب میں اسے پذیرائی ملتی ہے-
نیلا کی اپنے شوہر کے ساتھ بھی مفاہمت نہیں ہو پاتی- اس کے علاوہ اسے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس کا شوہر اپنے ڈرائیور کے عشق میں مبتلا ہے (جس سے خود ڈرائیور بھی لاعلم ہے اور اسے اس وقت اس بات کا پتہ چلتا ہے جب اس کا مالک قریب المرگ ہوتا ہے)- بہرحال وہ پری کو ساتھ لیکر امریکہ چلی جاتی ہے-
اپنی ناکام زندگی کا بدلہ وہ خود سے اس طرح لیتی ہے کہ خود کو شراب اور جنسی عیاشیوں مین ڈبو دیتی ہے، جس کا شکار پری بھی ہوجاتی ہے- وہ پری کو اپنی سزا تصور کرتی ہے- خالد حسینی نے یہاں مغربی معاشرہ کی کمزوریوں کو بے نقاب کیا ہے- لیکن پری کے شوہر کے کردار میں اسی معاشرہ کے مثبت پہلو کو بھی اجاگر کیا ہے-
سلیمان مرتے وقت اپنی جائداد نبی کے حوالے کردیتا ہے- نبی سلیمان کی کمزوری کو جاننے کے باوجود ایک وفادار نوکر کی حیثیت سے آخر تک اسکی دیکھ بھال کرتا ہے- سلیمان کی موت کے بعد وہ اپنے گھر میں ان لوگوں کو ٹھہراتا ہے جو جنگ سے تباہ حال افغانیوں کی مدد کے لئے دنیا کے مختلف حصوں سے آئے ہوتے ہیں- خود اپنی موت سے پہلے وہ جائداد کے کاغذات ایک یونانی ڈاکٹر مارکوس کے حوالے کردیتا ہے کہ وہ پری کا پتہ لگائے جس میں وہ کامیاب ہو جاتا ہے-
چوتھی کہانی مارکوس اور تھالیہ کی ہے- تھالیہ جس کا چہرہ ایک کتے کے کاٹنے کی وجہ سے مسخ ہوچکا ہے یونان کے ایک جزیرے میں مارکوس سے ملتی ہے- اسکی ماں اسے چھوڑ کر چلی جاتی ہے- مارکوس کی ماں جو ایک اسکول ٹیچر ہے اسے خود اعتمادی دیتی ہے- مارکوس تھالیہ کے لئے پلاسٹک سرجری کی تعلیم حاصل کرتا ہے۔ لیکن تھالیہ اس قدر پراعتماد ہوچکی ہے کہ جسمانی عیب اس کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے-
اس کے علاوہ ناول میں اور بھی چھوٹی چھوٹی کہانیاں ہیں جس کے بعض کردار انسان دوستی کی مثال ہیں تو بعض کردار ایسے بھی ہیں جو دوسروں کا استحصال کرکے زندگی کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں اور اپنے ہی لوگوں کی نظروں میں گرجاتے ہیں-
ناول کی تکنیک سیدھی سادھی نہیں- کہیں یہ کہانی حال بن کر سامنے آتی ہے تو کہیں ماضی کی یادوں کی صورت- اس لئے بعض وقت کہانی میں بے ربطی بھی محسوس ہوتی ہے لیکن ناول کے ختم ہوتے ہوتے سارے تانے بانے آپس میں مل جاتے ہیں اور پورا ناول ایک اکائی کی شکل اختیار کر لیتا ہے-
مختصر یہ کہ اس ناول میں ہمیں انسانی رشتوں کی گونج سنائی دیتی ہے- انسانی رشتے جو خوبصورت بھی ہیں اور بدصورت بھی- لیکن جس طرح پہاڑوں کا ملکوتی حسن بدصورتی کو دور دھکیل دیتا ہے اسی طرح اس ناول کو ختم کرنے کے بعد جو احساس باقی رہ جاتا ہے وہ ہے انسانی رشتوں کی خوبصورتی کا احساس-
کتاب: اینڈ دی ماونٹینز ایکوڈ (اور پہاڑ گونج اٹھے)
لکھاری: خالد حسینی
صفحات: 404
قیمت: امریکہ = 28.95$؛ انگلینڈ = 99۔14£
پبلشر: ریور ہیڈ بکس
آئی ایس بی این: 4-176-59463-1-978
تبصرے (1) بند ہیں