کراچی کی پہلی خاتون تھانے دار
کراچی : ایس ایچ او سیدہ غزالہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی پہلی خاتون تھانے دار ہیں جن کے ماتحت آنے والے 100اہلکاروں میں تمام کے تمام مرد شامل ہیں۔
ابھی انہیں تھانے کا چارج سنبھالے چند دن ہی ہوئے تھے کہ انہوں نے اپنے 22 کیلیبر کے پسٹل سے ایک ایسے شخص پر گولیاں چلادیں جو معمول کی چیکنگ کے دوران گاڑی روکے جانے پر پولیس پر فائرنگ کرکے فرار ہونا چاہ رہا تھا۔
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ وہ شخص غزالہ ہی کی فائرنگ سے زخمی ہوا لیکن پاکستان کے تشدد سے متاثرہ شہر کے ایک اہم علاقے میں واقع کلفٹن تھانے کی انچارج ہونے کی حیثیت سے اس خاتون پولیس افسر کو اپنے نشانے آزمانے کے اور بہت سے مواقع ملیں گے۔
دو دہائی قبل جب غزالہ نے پولیس کے شعبے میں شمولیت اختیار کی تو انہوں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ وہ ایک دن مرد اہلکاروں پر مشتمل ایک تھانے کی سربراہ بنیں گی۔
ان کی ترقی مقامی پولیس میں خواتین اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ اورانہیں اعلیٰ عہدوں پر جگہ دینے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ غزالہ کی تعیناتی کے چند دن بعد ہی ایک اور تھانے میں ایک خاتون پولیس افسر کو انچارج بنایا گیا۔
ایک ایسے ملک میں جہاں روایتی طور پرخواتین کا گھر سے باہر جاکر کام کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے وہاں پر ایسے اقدامات خواتین کی خودمختاری کی علامت ہیں۔
چار بچوں کی 44 سالہ ماں اور پولیس افسر سیدہ غزالہ کا کہنا ہے کہ 'جب 20 سال قبل میں نے پولیس میں جانے کا فیصلہ کیا تومیرے شوہر نے اس کی مخالفت کی تھی تاہم بعد میں انہوں نے میرے فیصلے کی مکمل حمایت کی۔ اب لوگوں کے خیالات میں بھی تبدیلی آرہی ہے اورخواتین کو مرکزی عہدے دیئے جانے پر بھی توجہ دی جارہی ہے'۔
غزالہ کا کہنا ہے کہ شہر کو اس وقت سیاسی عدم استحکام، مذہبی شدت پسندی اور خاندانی دشمنی پر مبنی لڑائیوں کا سامنا ہے، دن بھر میں قتل، چوری اور ڈکیتی کے واقعات بھی پیش آتے رہتے ہیں، اس کے علاوہ صرف گزشتہ ایک سال میں 166 پولیس اہکار فرائض سر انجام دیتے قتل کئے جا چکے ہیں۔ایسی صورتحال میں پولیس کی نوکری کرنا آسان کام نہیں ہے۔
معلوم رہے کہ پاکستان میں تھانے کی ذمہ داری اہم ترین عہدہ سمجھا جاتا ہے اس دوران پولیس افسر کو مستقل طور پر عوام اور اپنے افسران سے رابطے میں رہنا پڑتا ہے جبکہ یہ پولیس کے شعبے میں ترقی حاصل کرنے کا بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔
سندھ پولیس کے ایک سینئر پولیس افسر عبدالخالق شیخ کا کہنا ہے ان سمیت تمام افسران کا خیال ہے کہ غزالہ کی تعیناتی سے پولیس کے شعبے کی طرف مزید خواتین راغب ہوں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'عموماً ہمارے معاشرے میں خواتین کے لئے دقیانوسی قسم کے کردار کو ہی قبول کیا جاتا ہے اور یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ عورتیں مخصوص شعبوں خاص طور پر محکمہ تعلیم میں ہی کام کرنے کے لئے موزوں ہیں'۔
محکمہ پولیس کی جانب سے 44 خواتین پر مشتمل کمانڈوز کے پہلے گروپ کی تربیت بھی جاری ہے،اس دوران انہیں سخت جمسانی مشقت ،مخلتف ہتھیاروں کا استعمال اور ہیلی کاپٹر اور بلند عمارتوں سے کودنا بھی سکھایا جارہا ہے۔
اس وقت صرف کراچی میں 2 تھانوں کی نگرانی خواتین افسران کے ہاتھ میں ہے جبکہ خیبرپختونخوا صوبے میں جہاں پولیس میں خواتین کی تعداد مرد اہلکاروں کے مقابلے میں صرف ایک فیصد ہے وہاں خواتین کے پاس ویمن پولیس اسٹیشن بھی ہیں۔
بلوچستان میں پورے صوبے میں صرف 90 خواتین پولیس اہلکار ہیں اور کوئی خاتون بھی کسی تھانے کی انچارج نہیں۔جبکہ پنجاب میں 2005ء میں ایک تھانے کی انچارج ایک خاتون پولیس افسر تھیں تاہم فی الحال وہاں پر بھی کوئی خاتون تھانیدار نہیں ہے۔
سیدہ غزالہ کا کہنا ہے کہ انہیں یہ عہدہ سنبھالنے پر لوگوں کی طرف سے بھرپور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور وہ کافی مشہور بھی ہوچکی ہیں البتہ کیریئر کے دوران ایسا موقع بھی آیا جب انہیں صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔
'جب میں نے ترقی کے لئے دئیے گئے امتحان میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کئے تو کچھ مردوں نے اعتراض بھی کیا ان کا کہنا تھا کہ اسلام میں عورت مردوں کی سربراہ نہیں بن سکتی۔ لیکن میں نے واضح طور پر اپنے افسر سے کہاکہ وہ مردوں سے کہہ دیں کہ انہیں زیادہ نمبر حاصل کرنے چاہیے تھے'۔
یہ واحد موقع تھا جب کسی نے میرے عورت ہونے پر اعتراض کیا لیکن اس کے علاوہ پورے کیریئر میں ہمارے سینئرز اور ساتھیوں نے میری حوصلہ افزائی کی۔