فٹبال کی کہانی، خود اس کی زبانی 2
یہ اس بلاگ کا دوسرا حصہ ہے- پہلے حصے کے لئے یہاں کلک کریں۔
انیسویں صدی میں میری بڑھتی مقبولیت کے دور میں مجھے کھیلنے کے طریقوں اور ضابطوں کے حوالے سے مختلف اسکولوں اور کالجوں کے درمیان اختلاف سامنے آنا شروع ہو گئے- یاد رہے کہ اس زمانے میں زیادہ تر تعلیمی ادارے کھیلنے کے لیے دستیاب میدانوں کی مناسبت سے مجھے کھیلنے کے لیے قوانین بناتے تھے۔
مثال کے طور پر چارٹر ہاؤس، ویسٹ منسٹر، ایٹن اور ہارو جیسے اسکول مجھے کھیلنے کے لئے ایسے رولز پر عمل کرتے تھے جن میں جسمانی طاقت اور ہاتھوں کے استعمال کے بجائے، پیروں سے ڈربلنگ کرنے اور گیند کو کک مار کر آگے پہنچانے کی حوصلہ افزائی ہوتی تھی- دیکھا جائے تو ایسے ہی رولز آگے چل کر آج میرے نام سے وابستہ کھیل، فٹبال یا سوکر کے قوانین سے منسوب ہوئے۔
دوسری جانب، چیلٹنھم اور رگبی ایسے اسکول تھے جنھیں میری وہ طرز زیادہ پسند تھا جس میں طاقت کا استعمال، باڈی ٹیکل، گیند کو ہاتھ میں اٹھانا اور اسے لے کر بھاگنا بھی شامل تھا- یہ طرز آگے چل کر رگبی کے نام سے مشہور ہوئی۔
اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں نے مجھے ان دو طریقوں سے کھیلنا جاری رکھا اور ایلٹن رولز اور کیمبرج رولز کی طرح میری ایک قسم یا فارم رگبی کے لئے 1846 میں رگبی اسکول کی جانب سے رگبی رولز، اس مشہور واقعے کے بعد بنائے گئے جس میں ولیم ویب ایلس نامی کھلاڑی نے پہلی بار تماشائیوں اور حریف کھلاڑیوں کو حیران کرتے ہوئے گیند کو ہاتھوں سے اٹھایا اور بغل میں دبا کر دوڑنا شروع کر دیا- اس واقعے اور ان کے اس انداز کو موجودہ دور میں رگبی کے نام سے جانے جانے والے کھیل کے آغاز سے موسوم کیا جاتا ہے۔
انگلینڈ کے مختلف شہروں میں ورکنگ کلاس میں بھی یہ کھیل مقبول ہونا شروع ہو چکا تھا اور اٹھارویں صدی کے دوران اس کے مختلف کلبز بھی بننا شروع ہو چکے تھے- اب بھی کھیل کے دوران گیند کو ہاتھ لگانا منع نہیں تھا اور نہ ہی ایک دوسرے کو لاتیں مارنا- مختلف کلبز اور تعلیمی ادارے اپنی ترجیحات کے حساب سے اور اپنے پسندیدہ ضابطے اور قواعد کی مناسبت سے مجھے کھیلا کرتے تھے۔
اور پھر مجھے کھیلنے والے گیارہ ممتاز اسکولوں، کالجوں اور کلبوں کے نمائندوں کا ایک اجلاس 26 اکتوبر، 1863 میں فری میسنز ٹیورن میں منعقد ہوا تا کہ مجھے کھیلنے کے لئے ایک متفقہ ضابطہ بنایا جا سکے- یہ بات شاید حیران کن ہو کہ اس اجلاس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور کسی متفقہ فیصلے پر پہنچنے کے لئے اگلے تین ماہ کے دوران کل آٹھ اجلاس ہوئے۔
اسی دوران رگبی رولز کے حامیوں نے اس اجلاس سے واک آؤٹ کر دیا اور بالآخر دسمبر، 1863 کو ایسوسی ایشن فٹبال کا قیام عمل میں آیا اور اسی روز پہلی بار مجھے کھیلنے کے لئے جامع قواعد و ضابطے شائع کیے گئے۔
ان قوانین کو بنانے کے فوری بعد ان کے مطابق، پہلا فٹبال میچ 19 دسمبر، 1863 کو لندن میں بارنز فٹبال کلب اور رچمنڈ فٹبال کلب کے درمیان کھیلا گیا جس میں اس وقت کے چوٹی کے کھلاڑیوں نے حصہ لیا تاہم یہ میچ بنا کسی گول کے برابری پر ختم ہوا۔
اس تنظیم اور مجھے کھیلنے کے لئے متفقہ قانون کی تشکیل کے کے بعد میری ترقی کا سفر تو جیسے بجلی کی تیزی سے طے ہونا شروع ہو گیا- اس وقت تک برطانوی سیلرز، تاجروں اور سپاہیوں کی وجہ سے میری پہنچ بہت سے ملکوں تک ہو چکی تھی اور خاص طور پر بہت سے یورپی ملکوں میں تو ایف اے طرز کی تنظیمیں اور مجھے کھیلنے والے کلبز تیزی سے سامنے آنا شروع ہو گئے تھے۔
مجھے کھیلنے کے لئے بنائے جانے والے 1863 کے رولز کے بارے میں بھی آپ سے چند دلچسپ حقائق شئیر کرتا چلوں- سب سے اہم یہ کہ ان رولز کے مطابق، ہینڈلنگ یعنی گیند کو ہاتھ لگانے یا اسے پکڑنے کی اجازت تھی تاہم یہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ کھلاڑی اچھلی ہوئی گیند کو کیچ کر لے اور پھر اسے اس کے بدلے فری کک مل جاتی تھی- 1869 میں قوانین میں ترمیم کے ساتھ ہی ہینڈلنگ کو کھیل میں ممنوع قرار دے دیا گیا۔
ان رولز میں دو گول پوسٹوں کے اوپر بار لگانے کا بھی کوئی ذکر موجود نہیں- اسی طرح شاید کم لوگوں کے علم میں یہ بات ہو کہ ان قوانین میں ریفری کا بھی کوئی ذکر نہیں- اس حوالے سے یہ دلیل سامنے آتی ہے کہ شرفاء سے کسی فاؤل کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی لہٰذا شریف لوگ (جنٹلمین) اسے بناء کسی جج یا ریفری کے کھیلتے تھے- دو ٹیموں کے درمیان میچ میں ریفری کی موجودگی کی شروعات 1891 سے ہوئی۔
قوانین بنانے کے چند سال بعد، 1872 میرے حوالے سے دنیا کے سب سے پہلے ٹورنامنٹ یعنی ایف اے کپ کا آغاز ہوا جبکہ اس وقت تک انگلینڈ میں ایف اے سے جڑے کلبز کی تعداد 50 تک پہنچ چکی تھی اور پھر 1888 میں باقاعدہ لیگ چیمپئن شپ کا آغاز ہوا۔
مجھے کھیلنے کے دوران استعمال ہونے والی زیادہ تر اصطلاحات فوج سے لی گئیں، اسی وجہ سے گول کرنے والے کو اٹیکر اور اسے بچانے والے کو ڈیفندر کھلاڑی کہا جاتا ہے- اسی طرح بیک لائن، ونگر اور اٹیک کی اصطلاحات ہیں۔
ایک اور دلچسپ امر یہ ہے کہ پہلے پہل کارنر مارتے وقت یہ بات ضروری نہیں تھی کہ کھلاڑی کونے سے گیند کو کک مارے بلکہ بہت سے ایسے واقعات بھی ہوئے جن میں کھلاڑیوں نے کارنر اسپاٹ سے گیند کو دربل (DRIBBLE) کرتے ہوئے گول کے قریب پہنچ کر ایسی جگہ سے گیند پر کک لگائی کہ گول کرنا ممکن ہو- 1913 میں قواعد میں ہونے والی تبدیلی کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوا۔
ایک اور دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ 1927 سے پہلے تک فری کک کے ذریعے گول کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ اس وقت کے قانون کے مطابق فری کک سے ماری گئی گیند اگر گول میں چلی بھی جاتی تھی تو اسے گول تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔
میری مقبولیت اور میرے میچوں میں تماشائیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے کلبز نے پروفیشنل کھلاڑیوں کو معاوضے کے عوض اپنے کلبز سے کھلانا شروع کر دیا- اس سلسلے کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک نسبتاً چھوٹے سے کلب ڈارون نے اس زمانے کی ناقابل تسخیر ٹیم، اولڈ ایٹونینز کو مسلسل دو میچوں تک جیت سے دور رکھا- کہا جاتا ہے کہ ڈارون کلب نے اس مقصد کے لئے دو کھلاڑیوں کو اپنی ٹیم میں کھلایا تھا جن کی مہارت اور تیزی کی وجہ سے ان دونوں میچوں میں حریف ٹیم مقابلہ جیتنے میں ناکام رہی۔
ڈارون کلبز کے ان دو کھلاڑیوں کے نام تھے اسکوٹس جان لوو اور فرگس سوٹر اور یہی دونوں دنیا کے پہلے پروفیشنل فٹبالر کہلاتے ہیں- ان کے بعد کلبز میں پیشہ ورانہ کھلاڑیوں کو کھلانے کے رجحان میں اس حد تک اضافہ ہوا کہ ایف اے کو 1885 ہی میں پروفیشنلزم کو قانونی قرار دینا پڑا۔
میری مقبولیت دنیا میں ہر جانب پھیل رہی تھی اور مختلف ملکوں کی فٹبال تنظیموں کے لئے ایک بار پھر وہی مسئلہ سامنے آنے لگا کہ بین الاقوامی میچوں کو کن قواعد و ضوابط کے تحت کھیلا جائے- اس مسئلے کے حل کے لئے مئی 1904 میں سات ملکوں کے نمائندے فرانس کے شہر پیرس میں جمع ہوئے اور فیڈریشن انٹرنیشنل دی فٹبال ایسوسی ایشن یعنی فیفا کا قیام ہوا۔
اس ابتدائی اجلاس میں شامل ہونے والے ملکوں میں فرانس، بیلجیئم، ڈنمارک، نیدرلینڈ، سوئٹزرلینڈ، اسپین اور سوئیڈن شامل تھے- حیرانی کی بات ہے کہ اس تاریخی اجلاس میں انگلینڈ نے شرکت نہیں کی تھی۔
فیفا کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے بالآخر 1930 میں میرے نام پر تاریخ کا پہلا عالمی ٹورنامنٹ کھیلا گیا اور آج اس ٹورنامنٹ کے 20 ایڈیشن کا آغاز ہونے جا رہا ہے جسے ایک بار پھر دنیا بھر میں ریکارڈ تعداد میں شائقین برازیل کے اسٹیڈیمز میں اور ناظرین اپنی ٹیلی ویژن اسکرینز پر اگلے چند ہفتوں تک دیکھتے رہیں گے۔