• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

فٹبال کی کہانی، اسی کی زبانی

شائع June 11, 2014
فیفا ورلڈ کپ کا آغاز کل سے برازیل میں ہونے والا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
فیفا ورلڈ کپ کا آغاز کل سے برازیل میں ہونے والا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

آج سے دو روز بعد، میرے حوالے سے سب زیادہ مشہور ملک، برازیل میں ہی دنیا کا سب سے بڑا مقابلہ شروع ہونے کو ہے جس کے دوران دنیا بھر کے شائقین کی توجہ، نظروں اور تبصروں کا مرکز فیفا ورلڈ کپ کے نام سے مشہور یہ مقابلے ہی ہوں گے-


آئیے، اس موقع پر میں آپ کو اپنے متعلق چند حقائق اور اپنی تاریخ کے حوالے سے چند اہم اور دلچسپ باتوں سے آگاہ کرتا چلوں-


میری شروعات

زمانے کو ٹھوکروں پر رکھنا، نہ صرف اردو زبان کے ایک مشہور محاورے کی ایک شکل ہی نہیں بلکہ مختلف تہذیبوں میں اس مقام کو حاصل کرنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے- زمانے کو ٹھوکروں پر رکھنا تو خیر کسی کسی کو نصیب ہوا پر زمانے کی جگہ جب انسان کے پیروں میں گیند یا اس سے ملتی جلتی کوئی بھی چیز آئی تو اس گیند کو اپنی ٹھوکروں سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا بہت دلچسپ اور طمانیت بخش لگنے لگا- پیروں کی ٹھوکر سے گیند یا گیند نما چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پھینکنا، شاید زمانہ قدیم سے حضرت انسان کے پسندیدہ ترین مشغلوں میں شامل رہا ہے-

یہی وجہ ہے کہ مجھ سے ملتے جلتے کھیل قدیم مصری، یونانی اور رومن تہذیبوں میں کھیلے جانے کے اشارے ملے ہیں- اس حوالے سے یونان کے شہر ایتھنز کے ایک عجائب گھر میں موجود ایک برتن پر ایک یونانی لیجنڈ، میراڈونا کو مجھے یعنی فٹبال کو اپنی رانوں پر رکھے دکھایا گیا ہے-

اس کے علاوہ امریکا میں بھی مقامی آبادی ہزاروں سال پہلے مجھ سے ملتا جلتا کھیل کھیلا کرتی تھی-

فٹبال یا ساکر، جیسا کے آج کل مجھے پکارا جاتا ہے، ہمیشہ سے میرا نام نہیں- مجھ سے ملتے جلتے کھیل کا سب سے پہلا تذکرہ، چین میں ملتا ہے جس کے بارے میں تاریخ دان متفق ہیں-

اس کھیل کو 'تسو چو' کہا جاتا تھا اور ہان سلطنت کے عہد میں، تقریباً 300 قبل مسیح میں اس کھیل کو شاہی فوج کے سپاہی کھیلا کرتے تھے- اس کھیل میں میدان کے بیچ میں نصب دو کھمبوں کے درمیان ایک جال باندھا جاتا تھا اور دونوں ٹیموں کے کھلاڑی مخالف سمتوں سے گیند کو اس جال سے گزارنے کی کوشش کرتے تھے-

اسی طرح، ایک ہزار قبل مسیح میں جاپان میں بھی مجھ سے ملتا جلتا ایک کھیل کھیلا جاتا تھا جس میں بارہ کھلاڑیوں پر مشتمل دو ٹیمیں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی تھیں- اس کھیل کو کیماری کے نام سے جانا جاتا تھا- اس کھیل میں کھلاڑی ایک نسبتاً محدود جگہ پر کھڑے رہ کر پیروں کی مدد سے بنا زمین پر لگے بال کو ایک دوسرے کو پاس کرتے تھے- آج بھی یہ کھیل جاپان کے مخصوص علاقوں میں کھیلا جاتا ہے-

یونان میں مجھ سے ملتے جلتے کھیل کا نام اپسکیروس Episkyros تھا جس میں ایک میدان کے دونوں جانب لکیروں کے علاوہ بیچ میں بھی ایک لکیر ہوتی تھی- دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کی تعداد یکساں ہوتی تھی اور مخالف ٹیم کے سروں کے اوپر سے گیند کو ان کی جانب والی لکیر کے پیچھے پھینکنے کے بعد، حریف ٹیم کو لکیر کے پیچھے رکھنے کی کوسش کی جاتی تھی-

چند حوالے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پچاس قبل مسیح میں چین کے تسو چو اور جاپان کے کیماری کھلاڑیوں کے درمیان تاریخ کا پہلا فٹبال میچ (اگر آپ اسے فٹبال پکار سکیں) کھیلا گیا تاہم ان دونوں ملکوں کے کھلاڑیوں کے درمیان 611 میں میچ ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں-

سنہ 600 - 1600 کے دوران میکسیکو اور وسطی امریکا میں ربر کی دریافت کے بعد، وہاں رہنے والوں نے مجھ سے ملتا جلتا کھیل کھیلنا شروع کر دیا جس میں ایک لمبی سی جگہ پر دونوں جانب دیوار میں نسب پتھر یا لکڑی کے رنگ کے درمیان سے گیند کو گزرنا ہوتا تھا-

اوپر بتائے گئے اور مختلف براعظموں اور ملکوں میں کھیلے جانے والے مجھ سے ملتے جلتے یہ کھیل کھیلے جاتے رہے اور یہ سب میرے ارتقاء کے حوالے سے اہمیت رکھتے ہیں- تاہم، آج جب میں دنیا کا سب سے مقبول ترین کھیل تسلیم کیا جاتا ہوں تو اس حوالے سے سب سے اہم نام انگلینڈ کا ہے جہاں میری آمد ایک مشہور زمانہ واقعے کے بعد ہوئی جس میں ڈنمارک کے ایک شہزادے کا سر قلم کرنے کے بعد، فوج نے اسے اپنی ٹھوکروں سے ایک دوسرے کی جانب اچھالا تھا-

بس جناب پھر تو کیا کہنے، انگلینڈ کے باسیوں کو تو ایک نیا کھیل مل گیا- اس مقصد کے لئے، ابتدا میں جانوروں کے پتے کو گیند کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور اس بات کے تاریخی شواہد موجود ہیں کہ آٹھویں صدی کے دوران مشرقی انگلینڈ کی مقامی آبادی کے درمیان پہلا میچ کھیلا گیا-

یہ کھیل سپاہیوں میں اتنا مقبول ہوا کہ انہوں نے تیر اندازی کی مشقیں چھوڑ کر اس کھیل کو کھیلنا اور اس کے میچ دیکھنا شروع کر دیے-

اس وقت تک کھیل کو کھیلنے کے دوران بہت شور و غل بھی ہونے لگا اور اس کی شکایتیں جب شاہی دربار تک پہنچیں تو ان شکایتوں اور اس بناء پر کہ سپاہی اس کھیل کی وجہ سے تیراندازی کی مشقوں میں حصہ لینے سے کترانے لگے تھے اس کھیل پر بادشاہ کی جانب سے 14ویں صدی میں پہلی بار پابندی عائد کر دی گئی اور اسے کھیل کو کھیلنا قابل سزا جرم ٹھہرا- یہ پابندی کئی صدیوں تک اور مختلف بادشاہوں اور ملکاؤں کے عہد میں برقرار رہی-

تاہم، اس پابندی اور کھیل میں وحشی پن و تشدد کے بے شمار واقعات کے باوجود اس کھیل کی مقبولیت ختم نہ ہوئی اور یہاں تک کہ سنہ 1605 میں دوبارہ قانونی طور پر اس کھیل کو کھیلنے کی اجازت دے دی گئی-

اسی عرصے میں کینیڈا اور الاسکا میں بسنے والے اسکیموز نے بھی گھاس پھوس اور اسی قسم کی دوسری چیزوں سے گیند کو بھر کر برف پر اقساقٹک (AQSAQTUK) نامی کھیل کھیلنا شروع کیا- اس کھیل میں دو گولوں کے درمیان فاصلہ بعض اوقات میلوں کا ہوتا تھا اور پورے کے پورے گاؤں ایک دوسرے کے خلاف ہونے والے مقابلے میں حصہ لیا کرتے تھے-


رولز اور ریگولیشنز:

میرے حوالے سے قواعد و ضوابط بنانے کا سب سے پہلا سہرا، ایلٹن کالج انگلینڈ کو جاتا ہے جہاں 1815 میں پہلی بار مجھے کھیلنے کے لئے رولز قوانین بنائے گئے- امریکا میں شمال مشرقی یونیورسٹیوں اور ہارورڈ، پرنسٹن، امہرسٹ اور براؤن کالجوں کے درمیان 1820 میں فٹبال مقابلے ہونا شروع ہو گئے تھے-

انگلینڈ کی کیمبرج یونیورسٹی میں مجھے کھیلنے کے قوانین پر 1848 میں نظر ثانی کی گئی اور انہیں کیمبرج رولز کے نام سے جانا جاتا ہے- انگلینڈ کے تمام اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں نے ان نظر ثانی شدہ قواعد و ضوابط کے مطابق اس کھیل کو کھیلنے پر اتفاق کیا-

تعلیمی اداروں میں اس کھیل کو رائج کرنے کے حوالے سے ایک کردار کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گا اور یہ یہ کردار یا شخصیت تھے رچرڈ ملکاسٹر، جو کہ 17ویں صدی کے دوران لندن کے دو مشہور اسکولوں، مرچنٹ ٹیلرز اور سینٹ پال کے سربراہ تھے- وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اس کھیل کو کھیلنا، طالب علموں کے اندر اسپورٹس مین اسپرٹ جگانے، ان کی صحت بہتر بنانے، ٹیم ورک کا جذبہ پیدا کرنے اور دیگر حوالوں سے مفید جانا اور اس کو باقاعدہ غیر نصابی سرگرمیوں کا حصہ بنا دیا-

شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی انگلینڈ کے اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں فٹبال کو غیر نصابی سرگرمیوں میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے-

یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ عام خیالات کے برعکس 19ویں صدی تک میں یعنی فٹبال، صرف امراء میں مقبول تھا- اور اسی وجہ سے مجھے کھیلنے کے قوانین کے حوالے سے ہمیشہ بڑے تعلیمی اداروں کے نام سامنے آتے ہیں- انگلینڈ کی ورکنگ کلاس میں اس کھیل کی مقبولیت 19ویں صدی کے اواخر میں بڑھی اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف انگلینڈ بلکہ دنیا بھر میں اس مقبولیت میں اضافہ ہی ہوتا گیا-

میری ترقی اور عروج کے سفر کا مزید حال اگلے حصے میں شائع کیا جائے گا-

شعیب بن جمیل

لکھاری ایک انجنیئر ہیں جو کہ اب ایک پارٹ ٹائم صحافی بھی ہیں جو کہ غیر روایتی جگہوں پر گھومنا پسند کرتے ہیں جیسے مزارات، ریلوے اسٹیشنز اور بس اسٹاپس-

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024