ایک دن -- دو قیامتیں
آٹھ جون کا دن، بہت سے پاکستانیوں کے لئے اہمیت کا حامل ہوگا، کسی کو کامیابیوں کے حوالے سے، کسی کو ناکامیوں کے- کہیں زندگی کی شروعات ہوئی ہوگی تو کہیں اختتام- لیکن آٹھ جون سال دو ہزار چودہ کے بعد یہ دن پاکستانی عوام کبھی نہیں بھلا پاۓ گی کیونکہ اس دن ملک دشمنوں نے پیارے وطن کے قلب پر دو کاری وار کیے ہیں-
پہلا ایرانی سرحد کے قریب واقع ضلع تفتان میں ایک ہوٹل میں مقیم شیعہ زائرین پر خودکش حملہ، دوسرا آٹھ جون کی شب کراچی ائیرپورٹ پر-
آئیے پہلی واردات کی طرف چلتے ہیں جس میں مختلف ذارئع کے مطابق چوبیس سے پینتیس شیعہ زائرین ہلاک ہوۓ-
پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے یہ زائرین ایران سے مقدس مقامات کی زیارت کر کے واپس آۓ تھے اور تفتان کے دو ہوٹلوں میں اپنے گھروں کو واپس جانے کے لئے ٹرانسپورٹ کا انتظار کر رہے تھے جب انہیں خود کش حملوں کا نشانہ بنایا گیا-
پچھلے دو سالوں سے مسلسل شیعہ برادری دہشتگردی کا نشانہ بن رہی ہے لیکن اس حوالے سے حکومتوں کی طرف سے کوئی واضح اور جامع اقدامات ہوتے دکھائی نہیں دیتے-
اقدامات تو دور کی بات کسی بھی ذمہ دار سیاسی و حکومتی جماعت نے ایک عدد مذمتی پیغام تک کی زحمت گوارہ نہیں کی یوں لگتا ہے جیسے ان لوگوں کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا-
ایک ایسی کمیونٹی جو ملک کی مجموعی آبادی کا بیس فیصد ہے اس کے ساتھ ایسا سوتیلا برتاؤ افسوسناک ہے- حیرت ہوتی ہے ہمارے لیڈروں پر جو وزیرستان میں ہونے والی فوجی کارروائی پر تو دھاڑیں مار مار کر روتے ہیں لیکن جب بات فرقہ وارانہ قتل عام کی آتی ہے تو جیسے انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے-
ایک مخصوص طبقے کے خلاف کی جانے والی ایسی کارروائی کو "نسل کشی" سمجھا جاتا ہے، لیکن جب کبھی بھی اس نسل کشی پر آواز اٹھائی جاتی ہے تو یہ کہہ کر خاموش کرادیا جاتا ہے کہ آپ فرقہ وارانہ نفرت کو ہوا دے رہے ہیں-
میرے دوست یہ بتا دیں کہ اگر دو سالوں میں ایک ہزار کے قریب شیعوں کا قتل Genocide نہیں تو پھر کیا ہے؟
اس حملے کی ذمہ داری جیش الاسلام نامی کالعدم تنظیم نے قبول کی ہے- اب دیکھنا یہ ہے کہ مذکورہ تنظیم کے خلاف حکومت کب کسی قسم کی کارروائی کا حکم دیتی ہے یا اسے بھی دیگر دہشتگرد تنظیموں کی طرح طاق پر رکھ کر بھول جاۓ گی-
اب آتے ہیں دوسری قیامت کی طرف؛
پہلے یہ بتا دوں کے شیعہ کمیونٹی کے خلاف تخریب کاری کی نوعیت سنگین ہے، اس سے کوئی انکار نہیں، لیکن اتنا ہی سنگین کراچی ائیرپورٹ پر دہشتگردوں کا حملہ ہے- واقعے کی تفصیلات سے ہم سب واقف ہیں؛ کب شروع ہوا، کیوں، کیسے اور کس نے کروایا، ہم سب رات بھر یہ تفصیلات سنتے اور پڑھتے رہے ہیں-
ضروری ہے ان چند حقائق پر بات کرنا جو اس واقعہ کے بعد سامنے آۓ ہیں:
"مذاکرات" یا "جنگ بندی" کے نام پر جو وقت لیا گیا تھا وہ فقط خود کو دوبارہ منظم کرنے کا ایک ڈھکوسلا تھا- ہماری حکومت ایک بار پھر بیوقوف بن گئی ہے- چناچہ وہ لیڈر جو بار بار امن، بھائی چارے اور روٹھنے منانے کی بانسری بجاتے رہتے ہیں، اب وقت ہے کہ خاموش ہو جائیں اور عوام کو مزید گمراہ نہ کریں-
ہوم منسٹری بری طرح ناکام رہی؛ پورے ایکشن تھرلر کے دوران مانو یوں لگ رہا تھا جیسے ملک میں کسی وزارت داخلہ کا وجود ہی نہیں ہے!
اس خاموشی کو مجرمانہ خاموشی کا نام دیا جانا چاہیے- واقعہ کو گزرے بارہ گھنٹے ہونے کو آۓ اور اب تک صرف مذمتی بیانات کا سلسلہ ہی چل رہا ہے-
ٹی ٹی پی کی طرف سے ذمہ داری قبول کر لینے اور مزید حملوں کی دھمکی کے باوجود اب تک ریاستی اداروں نے براہ راست تنظیم کی مذمت نہیں کی! سخت نتائج کی وارننگ دینا تو دور کی بات!
حکومت حملے کے اصل ذمہ داروں پر انگلی اٹھانے سے گریزاں ہے وہ دہشتگردی کی کارروائی تو ضرور کہتی ہے مجرموں کا نام لینے سے کترا رہی ہے- کیا اب بھی حکومت ان دشمن عناصر سے امن مذاکرات چاہتی ہے؟
دہشتگردی کے یہ واقعات کوئی ایک دو مہینے کا قصّہ نہیں بلکہ پچھلی ایک دہائی سے ملک مسلسل اسکی لپیٹ میں ہے لیکن اس کے باوجود کسی قسم کی تخریب کارانہ کاروائی سے نمٹنے کے لئے اب تک کوئی ٹاسک فورس تشکیل نہیں دی گئی، کوئی اسپیشل ٹریننگ سیل نہیں بنایا گیا-
گزشتہ رات کی کارروائی میں اے ایس ایف کی کارکردگی یقیناً قابل تحسین ہے لیکن یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ائیرپورٹ کی سیکورٹی سخت ہوتی تو بڑی تعداد میں ہونے والے انسانی اور مالی نقصان کو روکا جاسکتا تھا-
ائیرپورٹ ایک حساس ترین مقام ہے، آۓ دن ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کے پیش نظر اسکی حفاظت پر مامور سیکورٹی فورس کو کسی بھی ایمرجنسی سے نمٹنے کی ٹریننگ اور ساز و سامان سے لیس ہونا چاہیے-
یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ تفتان اور کراچی ائیرپورٹ کے خلاف ہونے والی کارروائی کی پیشگی اطلاع متعلقہ اداروں کے پاس موجود تھی، اس کے باوجود کسی قسم کے حفاظتی اقدامات نہیں کیے گۓ، اس کی ذمہ داری کس پر لاگو ہوتی ہے، کون اسکا جواب دہ ہے؟
یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ دونوں واقعات میں دہشتگرد 'جدید ترین' اسلحے سے لیس تھے، میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک ملک جو نیوکلیئر پاور ہونے کا دعویدار ہے آخر اس کے پاس ان 'جدید ترین' ہتھیاروں سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت کیوں نہیں ہے؟ کیا ہمیں اسے مجرمانہ غفلت سے تعبیر نہیں دینا چاہئے؟
پچھلے کئی ماہ سے کراچی میں آپریشن کا واویلا مچایا جا رہا ہے لیکن کل رات کے واقعے سے تو یہی نتیجہ نکلا ہے کہ یہ آپریشن بری طرح ناکام رہا ہے، اسکی کوئی حقیقت نہیں-
دہشتگردوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ جب چاہیں جہاں چاہیں ملک پر حملہ کرسکتے ہیں کوئی انہیں روک نہیں سکتا- وجہ یہ نہیں کہ دہشتگرد مضبوط ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ادارے پاکستان اور اسکی عوام کے ساتھ مخلص نہیں ہیں-
اس حملے نے صرف پاکستانی عوام ہی کو مایوس نہیں کیا بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کے وقار کو ٹھیس پنہچائی ہے- پہلے ہی پولیو وائرس کی وجہ سے پاکستانیوں پر بیرون ملک سفر کرنے پر پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں، اتوار کے واقعے کے بعد اب غیر ملکی کیریئرز بھی پاکستان آنے سے احتراز کریں گے-
ائیرپورٹ کو بچا تو لیا گیا ہے لیکن کس قیمت پر؟
پوری دنیا میں رسوائی، جانی و مالی نقصان، دہشتگردوں سے نمٹنے میں حکومتی اداروں کی ناکامی- ان تمام حقائق نے پاکستان کو ایسے موڑ پر لا کر کھڑا کر دیا ہے جہاں 'آر یا پار' کا ہی فیصلہ ممکن ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ قابل قبول نہیں-
تبصرے (7) بند ہیں