لائیو کوریج کا چورن
ویسے تو پاکستان میں ٹی وی نیوز چینلز کو ہر وقت کسی نہ کسی تڑکے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن تڑکا اگر 'لائیو کوریج' کا ہو تو کیا ہی بات ہے.
آج رات کراچی ائیرپورٹ پر دھشت گردوں نے دھاوا بول دیا، قائم علی شاہ صاحب کی دوڑیں جو لگیں سو لگیں، نواز شریف صاحب کا سویٹ سنڈے نائٹ بھی Morose Monday میں بدل گیا .
اور اسکے ساتھ ہی ٹی وی چینلز پر لائیو کوریج کا چورن بکنا شروع ہو گیا لائیو کوریج کرتے ہوئے تمام نیوز چینلز ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے تھے اور اس دھما چوکڑی میں تفتان میں زائرین کی بس پر حملے کی خبر ایسے پی جیسے جون میں لاہوری ستو پیتے ہیں حالانکہ ادھر بھی 22 ہلاکتیں ہوئی ہیں اور بڑی خبر تھی لیکن نیوز چننلز نے اس خبر کو اپنے نیوز ایجنڈے سے غائب سا کر دیا....
خیر وہ تو جو ہوا سو ہوا لیکن جو متنجن اس خبر کا ہمارے نیوز چیننلز نے بنایا اس پر انہیں ایمی ایوارڈ تو ضرور ملنا چاہیے اور کیوں نہ ملے پورے پاکستان کو آدھی رات کو اٹھا کر ٹی .وی سکرین سے ایسے چپکا دیا جسے ایلفی لگی ہو.
رات کے پچھلے پہر بھانت بھانت کے ٹی وی رپورٹرز چیخ چیخ کر رپورٹنگ کر رہے تھے اور غضب خدا کا کچھ نیوز چینلز نے تو بیک گراؤنڈ میں ساؤنڈ افیکٹس بھی دینے شروع کر دیے- ہر رپورٹر اسی چکر میں تھا کہ وہ کچھ اچھوتا کرکے دکھا دے، کوئی ایسی شرلی چھوڑے جس دیکھ کر ریٹنگ چھت پھاڑ کرنیوز روم سےباہر نکل جائے-
اسی کوشش میں جس کے ہاتھ جو لگا اس نے وہ رپورٹ کیا اور جسکو جو ملا اس نے وہی بیچا .......... بہت سارے رپورٹرز تو ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے کہ کسی طرح بس توجہ حاصل کر لیں "یہ دیکھیں یہ زخمی اہلکار ہے.... ادھر دیکھیں یہ اہلکار لگتا ہے شہید ہو چکا ہے ....... ٹی وی اینکرز چیخ چیخ کر بتا رہے تھے "ہم نے ابھی کچھ ہی دیر پہلے آپکو ایک دہشت گرد کی لاش دکھائی ہے"، "ہم نے سب سے پہلے یہ خبر بریک کی"، "ہمارے رپورٹر نے سب سے پہلے بریک کیا کہ دہشت گردوں نے جہاز کو آگ لگا دی "..... اور میں ڈر رہا تھا کہ ابھی ان میں سے کوئی چینل یہ نہ کہ دے کہ "ہم نے آپکو تین دن پہلے ہی بتا دیا تھا کہ کراچی ائیرپورٹ پر حملہ ہونے والا ہے "
زبردست بات یہ تھی کہ سکرین پر یہ بگ لگا کر کہ "بچے اس کو نہ دیکھیں"، سب کچھ دکھایا جا رہا تھا یعنی بچے نہ دیکھیں باقی پوری عوام کو دعوت عام ہے اور سونے پر سہاگہ ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ "ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ہم نے ذمہ دارانہ رپورٹنگ کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور پل پل آپکو باخبر رکھا"... واقعہ کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ نہ تو نیوز اینکرز کی پیاس کم ہو رہی تھی، نہ ہی چینلز کی. بول بول کر اینکرز اور رپورٹرز کے ہونٹوں پر پپڑیاں جم گیئں تھیں اور جو الم غلم منہ میں آ رہا تھا بس بولے چلے جا رہے تھے لیکن سنسنی تھی کہ لمحہ بہ لمحہ بڑھائی جا رہی تھی بلکہ چیننلز کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح کسی دہشت گرد سے بھی بات کر لیں اور یہ پوچھیں کہ؛ "اس حملے کا مقصد کیا ہے اور آپ اپنے ساتھ کس کس نسل کے بم لاۓ ہیں" کیوں کہ سوال کچھ ایسے ہی پوچھے جا رہے تھے. جیسے ایک اینکر نے آئ جی سندھ پولیس پوچھا؛
"آپ یہ آپریشن کتنی دیر میں ختم کر لیں گے؟" جس پر آئ-جی سندھ کو کہنا ہی پڑا کہ؛ "بھائی یہ کیسا بیوقوفانہ سوال ہے!"
بغیر سوچے سمجھے جائے وقوع کی لائیو فوٹیج دکھائی جاتی رہی. ایک طرف تو آرمی اور رینجرز آپریشن کر رہے تھے دوسری طرف لائیو کوریج کے نام پر سب کچھ دکھایا جا رہا تھا ------- اور آپریشن کی ساری تفصیلات پورے خشوع خضوع کے ساتھ بیان کی جا رہی تھیں.
آرمی کی کون کون سی گاڑیاں ائیرپورٹ میں جا رہی ہیں، کتنے دستے جا رہے ہیں سب تفصیلات لمحہ بہ لمحہ فراہم کی جا رہی تھیں --- اور یقینن دہشت گردوں کے ہینڈلرز تک بھی یہی معلومات پہنچ رہی ہوں گی اور یہی وجہ رہی ہو گی کہ آئی ایس پی آر کو یہ ٹویٹ کرنی پڑی.
یہ ٹویٹ ڈی.جی آئی ایس پی آر عاصم باجوہ نے کی، لیکن منہ سے جھاگ نکالتے اینکرز اور رپورٹرز کے کانوں پر مجال ہے جوں تک رینگی ہو وہ بلا تعطل ہا ہو میں مشغول رہے.
سفید چادروں میں لپٹی لاشوں کے کلوز شاٹس آیکسکلوزو کے نام پر صحافتی اقدار کی دھجیاں بکھیر رہے تھے ہے.... اور واللہ بموں کی کوئی آدھ درجن اقسام اور انکی کارکردگی سے تو میں آج کی رات میں ہی روشناس ہو گیا بوتل بم، فاسفورس بم، ایوان بم وغیرہ وغیرہ........................
اب خدا جانے اندر کیا ہو رہا تھا پر گھروں میں بیٹھے ناظرین یہی سمجھ رہے تھے کہ ہر دس منٹ بعد ایک دھماکہ ہو رہا ہے. کیونکہ انھیں بتایا یہی جا رہا تھا-
ایک چینل نے تو ایسی پھرتی دکھائی کہ باقی سب منہ ہی تکتے رہ گئے. اینکر نے ایک جہاز کے مسافر سے بھی رابطہ کر لیا- اور اس سے اپ ڈیٹ لینی شروع کر دی "آپ بتایں کیا صورتحال ہے"، اس بیچارے کے جواب پر مجھے ہنسی آ گئی وہ قسمت کا مارا پتا نہیں کس حال میں بیٹھا تھا، کہنے لگا؛
"میں تو جہاز میں دوسرےمسافروں کے ساتھ بیٹھا ہوں، مجھے کیا پتا باہر کیا ہو رہا ہے"
اس پر اینکر اپنا اس منہ لے کر رہ گیا اور جاتے جاتے یہ بھی کہہ گیا ... "آپ فکر نہ کریں جلد از جلد دہشت گردوں پر قابو پا لیا جائے گا" .... دو چیننلز بتا رہے تھے کہ آپریشن ختم ہو چکا ہے، باقی چینلز کہہ رہے تھے نہیں ابھی آپریشن چل رہا ہے.
کسی بھی حکومتی یا سرکاری پریس کانفرنس سے پہلے ہی ٹی وی چینلز نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ حملے میں ہندوستانی ساخت کا اسلحہ استعمال کیا گیا.
خبروں کے میدان میں آنے والے ایک نئے نیوز چینل نے یہ بھی کہہ دیا کہ دہشت گردوں نے ایک طیارہ ہائی جیک کرنے کی کوشش کی.
ایک چینل نے تو حد ہی کر دی، پانچ گھنٹے تک اس چینل کے اینکرز اور رپورٹرز شور مچاتے رہے کہ دہشت گردوں نے ایک طیارے کو آگ لگا دی اور رات گیارہ بجے سے لے کر صبح پانچ بجے تک چینل اسی بات پر مصر رہا کہ ایک طیارے میں آگ لگائی گئی ہے وہ تو بھلا ہو ڈی-جی (آئی ایس پی آر) عاصم باجوہ کا جنھوں نے یہ ٹویٹ کی کہ کسی طیارے کو آگ نہیں لگی
ڈھٹائی دیکھیے کہ چینل نے فوری طور پر اپنا بیان بدل کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ؛
"ہم آپکو اپ ڈیٹ کرتے چلیں کہ کسی طیارے میں آگ نہیں لگی"
مطلب یہ کہ پچھلے پانچ گنٹھے سے ہم جو آپکو اپ ڈیٹ کر رہے تھے وہ سب بکواس تھا..... بہرحال جتنے منہ اتنی ہی باتیں بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا جتنے چینلز اتنی باتیں.
یہ کوئی پہلی بار نہیں کہ ایسا ہو رہا ہے. اگر ماضی کے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو یہی پتا چلتا ہے کہ جب جب ایسا کوئی واقعہ پیش آیا، اسکی لائیو کوریج میں ہمیشہ سے ٹی وی چینلز کا یہی وطیرہ رہا ہے. چاہے وہ مہران نیول بیس کا واقعہ ہو یا کامرہ ایئر بیس کا، ایئر بلیو حادثہ ہو یا بھوجا ایئر کا ٹی وی چینلز نے ریٹنگز کی دوڑ میں بنیادی صحافتی اخلاقیات کو لپیٹ کر الماری میں رکھ دیا... مجھے تو یہ لگتا ہے کہ برگر، سگریٹ اور سونا بیچنےوالے ٹی وی چیننلز مالکان کے نزدیک صحافتی اخلاقیات محض ایک ریپر کی حیثیت رکھتی ہیں اور آزادی اظہار رائے جسکا ڈھول ٹی.وی شوز میں آجکل سب سے زیادہ پیٹا جاتا ہے، محض ڈھونگ ہے جسے یہ میڈیا ہاوسز بوقت ضرورت اپنی منشا کے مطابق استعمال کرتے ہیں......
سنا تھا کہ پیمرا نامی ایک ادارہ تھا جس نے کوئی چل چلاؤ سا ضابطہ اخلاق بنایا بھی تھا یا شاید یہ ادارہ ابھی بھی اسلام آباد کی ایک شیشوں والی عمارت میں مقید ہے ......... خیر پیمرا جیسے فالج زدہ ادارے سے توقعات تو آجکل دیوانے کا خواب لگتا ہے کیوں کہ عمومی طور پر ایسے معاملات میں یہ ادارہ بھانگ پی کر سو رہا ہوتا ہے اور جہاں معامله ہو کسی چینل کو بند کرنے کا وہاں اسکی پھرتیاں دیدنی ہوتی ہیں اب تو لگتا ہے پیمرا کو ریگولیٹ کرنے کے لئے ایک ادارہ بنانا پڑے گا ....
پوری دنیا میں اس طرح کے واقعات کی لائیو کوریج کے لئے ایک ضابطہ اخلاق ہوتا ہے جس کے تحت اس طرح کے واقعات کی ذمہ داری سے کوریج کی جاتی ہے. پر میاں یہاں کہاں کا ضابطہ کیسا اخلاق! بات وہیں آ رکتی ہے، "آہو محکمہ تے تاجا حوالدار"
تبصرے (8) بند ہیں