.... کہیں دیر نہ ہو جاۓ
شکر ہے سعودی مفتی اعظم کو بھی بلآخر، نائجیرین اسلامی عسکری گروہ 'بوکو حرام' کی انسانیت سوز کارروائی کی مذمت کرنے کا خیال آ ہی گیا انکی مذمت سے محض دو دن قبل ارگنائزیشن آف اسلامک کو-آپریشن کی ہیومن رائٹس کمیٹی کی جانب سے بھی ایک مذمتی بیان جاری کیا گیا تھا.
گو کہ اس واردات کو گزرے کم و بیش ایک مہینہ ہونے کو آیا ہے اور اس ایک ماہ میں اکثریت غیر مسلم سپر پاورز اور انسانی حقوق کی تنظیم کی طرف سے مذمتی اور احتجاجی بیانات جاری ہوچکے ہیں، ساتھ ہی مدد کی پیشکش بھی کی جاچکی ہے- لیکن آفریں ہے مسلم دنیا کی قیادت پر کہ چند سوکھے جملوں کے علاوہ اس حوالے سے کسی قسم کی مدد کی پیشکش یا کارروائی نہیں کی گئی، یہ وہی مسلم دنیا ہے جو شام میں ہونے والے فسادات میں باغیوں کی مدد کے لئے بے چین رہی ہے، لیکن ایک مسلم اکثریتی ملک میں ہونے والی انسانیت سوز کارروائی پر چپ سادھے بیٹھی ہے-
چلیں مسلم دنیا کے علم برداروں کو اتنا کریڈٹ تو دیا جا ہی سکتا ہے کہ دیر آید درست آید کے مصداق انہوں کچھ تو ردعمل ظاہر کیا- ادھر ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مذہبی رہنماوں نے تو یہ بھی گوارا نہ کیا کم ازکم انگلی کٹا کر ہی شہیدوں میں نام لکھوا لیتے!
جب سے نائجیریا کی اسکول طالبات کے اغوا کی خبریں میڈیا پر آئی ہیں تب سے میں مستقل مختلف مذہبی جماعتوں کے سوشل میڈیا پر ٹائم لائن چیک کرتی رہی ہوں، ان میں سے کسی ایک نے بھی تاحال کسی قسم کا مذمتی بیان نہیں دیا، کسی قسم کی کارروائی کی بات تو دور ہی ہے-
مجھے یاد ہے اسکول کے زمانے میں ہمیں محمد بن قاسم کا قصّہ سنایا گیا تھا کہ جس میں انہوں نے انتہائی جرأت مندی کے ساتھ سندھ کے بادشاہ راجہ داہر کا مقابلہ کیا اور اس کے قبضے سے معصوم مسلم عورتوں اور بچوں کو آزاد کرایا- نائجیرین اسکول سے اغوا ہونے والی بچیاں بھی معصوم ہیں انکا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ عصرحاضر کے علمی زیور سے آراستہ ہونا چاہتی ہیں کیا یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اسکی پاداش میں انہیں زندگی، آزادی اور عزت سے محروم کردیا جاۓ؟
کیا اس عہد حاضر میں ایسا کوئی محمد بن قاسم نہیں جو انہیں ظالموں کے چنگل سے آزاد کرا سکے؟ یا ہمیں یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ مسلم عمر رفتہ کی یہ سب داستانیں محض کتابی کہانیوں سے زیادہ کچھ نہیں-
بوکو حرام کی تاریخ کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے، نائجیریا سے تعلق رکھنے والی اس تنظیم نے کم و بیش ایک دہائی سے نائجیریا میں قتل و غارتگری کا بازار گرم کر رکھا ہے- اس خطّے میں موجود مسلم اور غیر مسلم دونوں ہی اس تنظیم کی ظالمانہ کاروائیوں کا نشانہ بنے ہیں- تنظیم کی افرادی ومالی طاقت کا ذریعہ صرف مسلم عسکریت پسند ہی نہیں بلکہ جرائم پیشہ عناصر اور نائجیرین حکومت سے ناراض سیاستدان بھی ہیں. اس کے علاوہ بوکو حرام کو القاعدہ ان اسلامک مغرب (AQIM) اور صومالی شدّت پسند تنظیم 'الشباب' کا تعاون بھی حاصل ہے-
ان تینوں ہی تنظیموں اور ان جیسی بہت سی تنظیموں کی مالی امداد کے لئے سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے گروہ دنیا بھر سے فنڈز اکھٹا کرتے ہیں جو کہ زکوة اور صدقات کی شکل میں جمع کی جاتی ہے-
لیکن صرف یہی ایک بات بوکو حرام، القاعدہ، یا ان جیسے دیگر جہادی گروہوں میں مشترک نہیں اس کے علاوہ ان کا ایجنڈا بھی ایک ہے- یہ تمام گروہ ایک ایسا انتہا پسند اسلامی نظام رائج کرنا چاہتے ہیں جہاں صرف اور صرف کمزوروں اور اقلیتوں کا استحصال ہوگا-
یہ سب ہی جدید تعلیم کے مخالف ہیں اور مغربی تعلیم حاصل کرنا گناہ سمجھتے ہیں- ان کے نزدیک عورت ایک جاگیر ہے جسے نہ علم حاصل کرنے کا حق ہے نہ ہی آگے بڑھنے اور نہ دنیا میں کوئی مقام حاصل کرنے کا- یہ عورتوں کو چار دیواری میں قید کرکے انہیں اپنا دست نگر بنا کر رکھنا چاہتے ہیں.
یہی وجہ ہے کہ ان کی ظالمانہ کارروائیوں کا سب سے پہلا نشانہ عورتیں ہی بنتی ہیں- یہ گروہ کم عمر بچوں کو اپنی گھناؤنی کارروائیوں کے لئے استعمال کرتے ہیں- زبردستی غیرمسلم عورتوں کو اسلام قبول کروا کر ان سے نکاح کر لیتے ہیں-
اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے یہ کسی بھی قسم کا گھناؤنا اور نفرت انگیز کام کرنے سے نہیں چوکتے- اسکی مثال، نائجیریا میں دو سو طالبات کا اغوا اور انہیں غلام بنا کر بیچ دینے کا دعویٰ ہے-
ایسے گروہ ہمارے ملک میں بھی موجود ہیں اور ان سب کا خمیر ایک ہی جگہ سے اٹھا ہے- ان سب کے نزدیک انسانی جانوں کا زیاں معمولی سی بات ہے- اپنے اوپر تنقید کرنے والوں کو یہ برداشت نہیں کرتے، ایسے لوگوں کو راستے سے ہٹا دینا ان کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے- ظلم وجبر ان کا خاصہ ہے، انہیں غیر ملکی طاقتوں کی سرپرستی حاصل ہے، جو ضرورت کے تحت انہیں اپنے ایجنڈے کے لئے دنیا بھر میں استعمال کر رہی ہیں-
یہ سب باتیں اپنی جگہ، ہم میں سے اکثر ان تمام حقائق سے واقف ہیں لیکن مسلم دنیا میں تیزی سے پھیلتے ہوۓ اس کینسر کے لئے کیا کیا جا رہا ہے؟
اپنے اسٹریٹجک کھیل میں مصروف مسلم دنیا اس ناسور کے خاتمے کے لئے کچھ کرتی نظر نہیں آتی سواۓ مذمت کے چند سوکھے، کھوکھلے جملوں کے-
یہ عفریت جس تیزی کے ساتھ قدآور ہوتا جا رہا ہے صاف لگ رہا ہے کہ جلد مسلم حکومتوں کا تختہ الٹنے کے قابل ہوجاۓ گا- ضرورت ہے کہ ہوشمندی سے کام لیا جاۓ، مذہبی جماعتیں آگے بڑھیں اور ایسے گروہوں کی حوصلہ شکنی کے لئے عوام الناس میں شعور پیدا کریں، اسلام سلامتی کا مذہب ہے اس کی یہ تعلیمات نہیں جنکی ترجمانی شدّت پسند کر رہے ہیں-
مذہبی رہنماؤں کو لوگوں میں شعور پیدا کرنا ہوگا کہ ایسے گروہوں کی مالی اعانت سے گریز کریں اور ان کے مذہبی پروپیگنڈے سے بچیں- شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبا کر بیٹھنے سے مصیبت ٹل نہیں جاۓ گی-
یہ کسی اور کی نہیں سراسر ہماری اپنی جنگ ہے اسی لئے اب مذمتی بیانات کا وقت نہیں رہا، متحد ہو کر اس عفریت کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے ورنہ جس بلا کو آپ لوگوں کا خون پلا کر پال رہے ہیں ایک دن اس کے خونخوار پنجے آپ کی شہ رگ پر ہونگے- اپنی بقاء چاہتے ہیں تو انکی حوصلہ شکنی کیجیے کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جاۓ-
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں