مظلوم طالبان؟
سرزمین پاکستانی میں قتل و غارت گری کوئی نئی بات نہیں، قیام پاکستان سے پہلے بھی یہ سلسلہ جاری تھا اور اب بھی زور و شور سے جاری ہے، ہاں وقت کے ساتھ ساتھ نمونہ بھی جدید ہوتا چلا آیا ہے۔
اس قتل و غارت میں ہمیں کئی ممالک معاشی و عسکری مدد فراہم کرتے رہے ہیں۔ جن میں امریکا، سعودی عرب اور ایران سر فہرست ہیں، جو اپنے اپنے فرقے / مفادات کے فروغ کے لیے عسکری قوت کے استعمال کو بہترین نمونہ تصور کرتے ہیں۔
یہاں ایک بات کہنا اہم ہے کہ زبردستی ہم کسی کو منافق تو بنا سکتے ہیں، مومن نہیں، جس کا عملی نمونہ ہم فوجی آمر ضیاءالحق کے دور میں دیکھ چکے ہیں جن کے جلوہ افروز ہوتے ہی بیوروکریسی اور سیاست کے بڑے بڑے نام بغیر وضو نماز پڑھنا شروع ہو جاتے تھے۔
انجمن سپاہ صحابہ بنتے ہی ملک میں فرقہ واریت کی ایک نئی دوڑ شروع ہوگئی تھی جو آہستہ آہستہ مجاہدین کا تکلیف دہ سفر طے کرتی ہوئی طالبان تک آ پہنچی ہے۔ اس سفر میں مظلوم طالبان کو ہزاروں ظالم لوگوں کی لاشوں سے گزرنا پڑا ہے اور کئی مظلوم طالبان بھی اپنی قیمتی جانیں گنوا چکے ہیں، لیکن بڑی تعداد ان ظالم لوگوں کی ہے جن میں کوئی سامان ڈھونے والا، کوئی جوتیاں گانٹھنے والا، سبزی فروش، متوسط طبقے کا سفید پوش، حصول علم کے لیے اسکول جانے والا بچہ، بوڑھے بزرگ یا کمزور دل کی خواتین ہیں۔
یہ طبقے بڑے ہی ظالم ہیں جو ان مظلوم لوگوں کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ظالم لوگوں میں کچھ پولیس افسران، کچھ سیاستدان ، سفارتکار، ڈاکٹر، انجینیر اور بزنس مین بھی شامل ہیں۔ وہ صحافی جو ان شریف لوگوں کے خلاف لکھتے ہیں وہ بھی اگنی سنسار یا گولیوں کی بوچھاڑ کی ضد میں آجاتے ہیں.
یہ 'مظلوم طبقہ' کہتا ہے کہ وہ جہاد کر رہا ہے اور یہ ظالم سماج ان کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے۔ یہ وہی جہاد ہے جس کی فضیلت بیان کرتے ہوُے لشکر طیبہ کے امیر صاحب گلی کوچوں سے اکٹھے کیے ہوے نوجوانوں کو بتاتے ہیں کہ بعد از شہادت ان کا رتبہ کیا ہوگا، جنت میں ان کو ستر منزہ و پاکیزہ اور انتہائی خوبصورت حوریں، ایک ملکہ حور، ہیرے جواہرات سے بنا ہوا تاج پہنایا جاۓ گا اور خاندان کے ستر لوگ شہید کے کوٹا پر جنت میں داخل ہو جائیں گے۔
تو بھئی جن عظیم ہستیوں کو بقول امیر لشکر طیبہ اللہ پاک اتنے انعامات سے نوازے گا ان کی راہ میں روڑے اٹکا کے ہم نعوذ بااللہ اپنے رب کے کام میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں، اور ان مظلوم لوگوں کو ہم دہشتگرد بھی کہہ رہے ہیں، یہ تو سراسر ناانصافی ہے حضور!
یہ حضرات تو کمال کا کام کر رہے ہیں، اس کام پر تو یہ انعام کے حقدار ہیں اور ہم بیوقوف لوگ انہیں دہشتگرد، شدت پسند انسانیت کے دشمن … اور پتا نہیں کیا کیا کہتے ہیں، نا جی نا! ان کے تو گلے میں پھولوں کے مالا ڈالنی چاہیے جو ہمارے بچوں بوڑھوں، خواتیں کے چیتھڑے اڑاتے ہیں۔ امام بارگاہوں، مسجدوں، مزارات کو خون میں نہلاتے ہیں، خود کو صحیع ثابت کرنے کے لیے دلیل کے بجاۓ دھماکہ خیز مواد کا استعمال کرتے ہیں۔
ہمیں امریکی و مغربی پٹھو کہنے والوں نے ہی دراصل ان کے ہاتھوں بکنے کی شروعات کی تھی، یہ مظلوم لوگ کیا بھول چکے ہیں کہ ان کے امیروں نے امریکہ کی مدد کرتے ہوئے ہی افغانستان میں انٹری دی تھی اور امریکہ سے ان کو اسلحہ اور ڈالرز ملتے تھے؟
میرے پیارے مظلوم بھائیوں! پاکستان کی عوام کو اس جہنّم میں جھوکنے والے آپ کے بڑے تھے، فرقہ واریت سے شروع کیا گیا یہ سفر طویل سے طویل ہوتا ہوا پاکستان کے کونے کونے میں وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے اور یہ وبا کینسر سے بھی مہلک ثابت ہو رہی ہے۔
دہشتگردی کو اگر ہم تاریخی تناظر میں دیکھتے ہیں تو اسلامی تاریخ میں ہمیں اس کی مثال اسماعیلی فرقے کے بانی حسن بن صباح کے ہاں سے ملتی ہے۔ جس نے فدائین کی ایک جماعت کو منظم کیا تھا۔ جب ان کی جماعت کے خلاف حکومت اور علماء نے اقدامات کیے تو انہوں نے ٹارگیٹ کر کے اپنے خلاف آواز اٹھانے والوں کو نشانہ بنایا تھا۔ جن میں سلجوقی وزیراعظم نظام الملک طوسی،عباس خلیفہ مسترشد، سلجوقی سلطان داؤد اور ابوالحسن قزوین کا مفتی اور دیگر کچھ اہم لوگ شامل ہیں۔
معروف مورخ و محقق ڈاکٹر مبارک علی دہشتگردی پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں؛
"دہشتگردی کی تاریخ میں کوئی ایک قسم نہیں رہی ہے بلکہ یہ وقت، ضرورت اور حالات کے تحت بدلتی رہتی ہے۔ مثلا ایک مرحلہ میں دہشتگردی کا استعمال صرف افراد کے خلاف ہوا کرتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بادشاہ یا حکمران مطلق العنان ہوتے تھے ۔اس لیے یہ خیال کیا جاتا تھا کی اگر انہیں راستے سے ہٹا دیا جائے تو اس صورت میں ان سے نجات مل سکتی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آمرانہ طرزحکومت کے باعث لوگ ان سے تنگ آ کر ہتھیار اٹھا لیتے تھے اور ان کا قلعہ قمعہ کرنے میں ہی اپنی نجات دیکھتے تھے۔
دہشتگردی کی دوسری شکل میں وہ مذہبی، سیاسی اور سماجی تنظیمیں ملوث ہوتی تھیں جو ریاستی و حکومتی دہشت گردی شکار ہوتی تھیں۔ لہذا اپنے خلاف ہونے والی ناانصافیوں کے ردعمل میں یہ ان افراد کے خلاف دہشت گردی کے اقدامات کرتی تھیں جو ان کی مصیبتوں کی ذمےدار ہوتے تھے۔
دہشتگردی کی تیسری قسم کولونیل ازم اور اس کے تسلط کے خلاف ابھری تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کولونیل طاقتوں نے اپنے دور میں نہ صرف اپنے مخالفیں اور مخالف تحریکوں کو سختی سے کچلا بلکہ ایسی پالیسیوں پر عمل کیا جو عوام کے خلاف تھیں۔ جس کی مثال پاکستان میں ہمیں ضیاءالحق کے دور سے ملتی ہے جس میں مخالفیں صحافی اور دیگر اہل شعور سرعام کوڑے کھاتے تھے، تحریک کا حوالہ دیا جائے تو ہم ایم آر ڈی کا حوالہ دے سکتے ہیں۔"
فرانزفینن نے کولونیل ازم کے خلاف تشدد اور دہشتگردی کی تحریکوں کو اس لحاظ سے اہم بتایا کہ ان کی وجہ سے غیر ملکی حکومتوں کا خوف ان کے دلوں سے جاتا رہا ۔اور اپنی آذادی کے لیے ان میں ہمت و جراءت پیدا ہوئی جس کے باعت وہ ان غیر ملکیوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
دہشتگردی کو قابو کرنے کے لیے اٹھاۓ گئے اقدامات میں ہم انڈونیشیں حکومت کا تذکرہ کر سکتے ہیں جس نے بالی بم کیس میں اس کے ایک اہم ملزم امروزی کو گرفتار کر کے مقدمہ چلایا۔ اس پر ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ گئی اور یہ امید ظاہر ہوئی کہ امروزی کو سزاۓ موت دی جانے کی صورت میں دہشتگردی اور اس کے پھیلے ہوۓ جال کا خاتمہ ہو جائے گا.
اسی طرح بیلجیم کی حکومت نے بھی ایک قانون کا اجراء کیا تھا، جس کے مطابق اگر کوئی بھی شخص انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف بیلجیم کی عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو۔ اس قانون کی روشنی میں اسرائیل کے وزیراعظم شیرون اور امریکی جنرلوں پر انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمات درج ہوے۔ مگر واشنگٹن کے دباؤ کے تحت نو منتخب وزیراعظم نے یہ اعلان کر دیا کہ وہ اس قانون کو جلد واپس لے لیں گے۔
بدقسمتی سے اوپر بیان کی گئی دہشگردی کی قسموں میں سے ایسی کوئی قسم نہیں جو پاکستان میں ہو بلکہ پاکستاں میں پائی جانے والی انوکھی دہشتگردی عجیب غریب فلسفہ یا گتھی ہے جس سلجھانا قدرے مشکل اس لیے بھی ہے کیوں کہ ہمارے ملک کے کئی سیاستدان ان مظلوم لوگوں کی ہی طاقت کو استعمال کر کے اقتدار تک پہنچتے آے ہیں اور پہنچتے رہے ہیں اور ان کے مفادات کو بھی مدنظر رکھتے ہوے اپنی پالیسی مرتب کرتے ہیں۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ ملک کے کئی بڑے شہروں میں ان جہادی گروپوں کے مراکز قائم ہیں مگر کوئی بھی ان کے خلاف کاروائی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ آپ نے کبھی سنا کہ دنیا میں ایسا کوئی قصبہ ہے جس میں اخبارات و رسالوں کو پاک کر کے بھیجا جاتا ہو یقینا زیادہ تر نے ایسا کبھی سنا تو کیا تصور بھی نہیں کیا ہو گا، کیونکہ اخبار پاک یا پلیت کیسے ہو سکتا ہے، کاغد تو کاغذ ہے!
مگر پاکستان میں ایک ایسی بستی بھی موجود ہے جہاں اخبارات و رسائل پاک ہو کر جاتے ہیں اور ان کو اس طرح سے پاک کیا جاتا ہے کہ ان میں موجود تصویروں پر سیاہی پھیر کر مکمل طور پر نظر سے اوجھل کیا جاتا ہے، ہے نا انوکھا طریقہ اخبارات پاک کرنے کا!
اب یقینا یہ سوال ذہن میں ابھر رہا ہو گا کہ یہ علاقہ آخر پاکستان میں کہاں ہے تو عرض ہے کہ یہ علاقہ پنجاب کے سب سے اہم ترین شہر کے قریب پایا جاتا ہے، اس سے ذیادہ اس کے بارے میں میں اپنی زبان نہیں کھول سکتا۔
تبصرے (10) بند ہیں