جنم جلی
کتنی بیوقوف تھی وہ جو یہ سمجھ بیٹھی کہ لوگ اسکی مدد کو آئیں گے- آخری سانس تک پچیس سالہ فرزانہ اتنی سی بات نہ سمجھ سکی کہ جن لوگوں سے وہ مدد کی بھیک مانگ رہی ہے وہ بھی اسی سماج کا حصّہ ہیں جہاں کسی کی لاچاری کا تماشا تو دیکھا جاسکتا ہے لیکن بے بس کی مدد کے لئے کوئی ہاتھ نہیں بڑھاتا-
وہ بھری سڑک پر، دن دیہاڑے، انصاف کی چوکھٹ کے عین سامنے سنگسار کر دی گئی لیکن کوئی ہاتھ ان ظالموں کو روکنے کو آگے نہ بڑھا، موت کا یہ شرمناک کھیل دیکھ کر سماج کے کسی ٹھیکیدار کی غیرت نہ جاگی- حتیٰ کہ جن کا کام ہی لوگوں کی حفاظت کرنا ہے وہ بھی پتھر کی مورت بنے سب دیکھتے رہے-
عورت ذات تھی نا اس لئے کم عقل تھی، وہ کیا جانتی کہ جن کے آگے اپنی جان بچانے کے لئے گڑگڑا رہی ہے یہ وہی سماج کے ٹھیکیدار ہیں جنہوں نے کاری جیسی مکروہ رسم بنائی ہے- پگلی! وہ کیوں آتے تیری مدد کو، یہ انہی کا تو طفیل ہے کہ تجھے اور تیرے ہونے والے بچے کو نام نہاد 'غیرت' کے نام پر قتل کر دیا گیا-
فرزانہ کیا تو نہیں جانتی تھی کہ یہاں ایک چھوٹی بچی کو 'ونی' کے نام پر اپنے سے کئی گنا بڑی عمر کے مرد سے تو بیاہا جا سکتا ہے لیکن ایک جوان بالغ لڑکی کو اپنی پسند کا جیون ساتھی چننے کا اختیار نہیں- یہاں عورت ذات کا وجود فقط اپنے مردوں کے قرض اتارنے کے لئے استعمال ہو سکتا ہے. اسے یہ حق نہیں کہ اپنے لئے خوشیوں کے خواب بنے-
تو نے یہ کیسے سوچ لیا فرزانہ کہ تو اس تنگ نظر سماج کے عتاب سے بچ جاۓ گی؟ تیرا مقدر ان ہزاروں لڑکیوں سے مختلف کیونکر ہو سکتا تھا جو ہر سال 'غیرت' کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دی جاتی ہیں؟
اگر فرزانہ میں ذرا بھی عقل ہوتی تو بھری سڑک پر لوگوں کے آگے گڑگڑانے کی بجاۓ سر سے چادر اتار کر اپنے شوہر کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر پھرتی یا کم از کم اسکا ہاتھ ہی پکڑ لیتی پھر دیکھتی یہ 'فحاشی' دیکھ کر کتنوں کی آنکھیں حلقوں سے پھٹ کر باہر نکل آتیں، کتنے خدائی فوجداروں کا خون کھول اٹھتا- تب لوگ فرزانہ کا نوٹس بھی لیتے، کم ازکم اسکے مرنے کا انتظار تو نہ کرتے-
فرزانہ اس دیس کی باسی تھی جہاں ایک مرد اپنے گھر کی عورت کو بیچ چوراہے پر مار مار کر لہو لہان بھی کردے تو کوئی مائی کا لال اسے نہیں روکے گا، ہاں اگر ایک جوان جوڑا کسی پارک میں بیٹھا نظر آجاۓ تو غیرت بریگیڈ ہاتھوں میں کیمرے سنبھالے، بغل میں مائک دباۓ سوال جواب کرنے ان کے سر پر ضرور پنہنچ جاۓ گی، آخر کو 'غیرت' کا معاملہ ہے!
فرزانہ، فرزانہ، فرزانہ!! کتنی بھولی تھی فرزانہ، یہ نہ سمجھ پائی کہ وہ ایک انسان نہیں بلکہ اپنے باپ بھائی چاچوں ماموں کی ملکیت ہے، اسے کوئی حق نہ تھا جینے کا نا ہی آزادی کا، وہ بدنصیب تو دنیا میں آئی بھی انہی کی مرضی سے تھی اور گئی بھی انہی کی مرضی سے-
بدنصیب خود تو مرگئی، قاتل زندہ ہیں اور آزاد ہیں- جو بھاگ سکتے تھے وہ بھاگ گۓ، اب کبھی ہاتھ نہیں آئیں گے. جو پکڑے گۓ وہ معمولی سزا کے بعد چھوٹ جائیں گے- جنم جلی کو اس دنیا میں انصاف نہیں ملا اب موت کے بعد اسکی روح بھی انصاف کے لئے بھٹکتی رہے گی-
حسب معمول محترم وزیر اعظم صاحب نے نوٹس بھی لے لیا ہے. نتیجہ کیا نکلنا ہے سب جانتے ہیں. کل پھر کوئی اور فرزانہ کاری کر دی جاۓ گی پرسوں ایک اور……... اور … اور … اور…!!!
جب تک اس ملک کے بے حس لوگ خاموش تماشائی بنے رہیں گے، اسی طرح بہو بیٹیاں غیرت کی صلیب پر چڑھائی جائیں گی اور مکروہ قاتل اسی طرح سینہ چوڑا کیے دندناتے پھریں گے-
جب تک اس "غیرت" کے خنّاس اور عورت کی ملکیت کے تصوّر کو ان مریض زہنوں سے نکالا نہیں جائے گا، یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا- 'پاک' لوگوں کی اس سرزمین پر جب تک انصاف آنکھوں پر پٹی باندھے، کانوں میں انگلیاں ٹھونسے، لبوں پر تالے لگاۓ ایک بت کی مانند تماشا دیکھتا رہے گا، اس کی چوکھٹ پر بیٹیاں یوں ہی سنگسار ہوتی رہیں گی-
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (13) بند ہیں