!جواب دو پاکستان
پیر کی صبح دفتر نکلنے سے پہلے حسب معمول میں اپنا ٹویٹر چیک کر رہا تھا کہ ایک ٹویٹ پر نظر پڑی. ایک سو چالیس حروف میں لکھی ایک خوفناک عبارت اور ایک خون میں لت پت تصویر ایک عجیب کہانی سنا رہی تھی.
ٹویٹ کچھ یوں تھی;
"احمدیہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مہدی علی قمر کو علی الصبح چناب نگر (ربوہ) میں انکی بیوی اور بچے کی آنکھوں کے سامنے گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا"
ٹویٹ کے ساتھ ہی ایک شخص کی تصویر تھی جسکی سفید قمیض خون سے تر تھی مگر چہرے پر ایک عجیب سا سکوں تھا.... ایک طمانیت تھی. دفتر پہنچتے ہی میں نے خبر کی تفصیلات تلاش کرنے کی کوشش کی پر بے سود، چند ٹویٹس کے سوا کچھ نہ ملا. تمام اخبارات جناب نواز شریف کے دورہ ہندوستان اور نریندرامودی کی حلف برداری پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے، اب اتنی اہم خبر کے مقابلے میں ظاہر ہے یہ معمول کا خون خرابہ اتنا اہم تھا بھی نہیں.
لیکن شاید اس عورت کی لیے یہی خبر سب سے اہم تھی جس کی آنکھوں کے سامنے اسکے شوہر کو گیارہ گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا یا اس بچے کے لیے جس کی آنکھوں کے سامنے اس کا باپ خاک و خوں میں لت پت پڑا تھا. وہ بچہ جسے شاید مذہب، مسلک اور فرقے کا پتا بھی نہ ہو.
سارا دن ایسے ہی سوال میرے ذہن میں گھومتے رہے، دن گزرنے کے ساتھ کچھ مزید تفصیلات سامنے آئیں؛ ڈاکٹر مہدی قمر امریکی ریاست اوہائیو کے شہر کولمبس میں کارڈیالوجسٹ تھے اور پاکستان میں انسانی ہمدردی کی بنا پر رضاکارانہ طور پر چناب نگر کے ایک ہسپتال (طاہر ہارٹ سنٹر) میں کام کرنے کی غرض سے آئے تھے.
اس ہسپتال کے بارے میں پہلے ہی مختلف اوقات میں فتوے جاری کیے جا چکے ہیں کہ یہاں علاج کروانا شریعت کی رو سے حرام ہے اور نفرت انگیز لٹریچر میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یہاں علاج کروانا کفر کے زمرے میں آتا ہے.
ڈاکٹر مہدی امریکا میں اوہائیو کے شہر کولمبس میں رہائش پذیر تھے اور وہیں پریکٹس بھی کرتے تھے. کولمبس ایک خوبصورت اور پرامن شہر ہے، مجھے سن دو ہزار بارہ میں کچھ ہفتے وہاں رہنے کا اتفاق ہوا اور اوہائیو یونیورسٹی میں ہی ایک کورس کرنے کا موقع بھی ملا.
ڈاکٹر مہدی بھی اسی یونیورسٹی سے منسلک تھے. میں سارا دن یہی سوچتا رہا کہ ایسا کیا تھا جو انہیں پاکستان لے آیا؟
اسکا جواب تو شاید وہی شخص دے سکتا تھا لیکن جب ایک دوست جو ان حالات پر جلتا کڑھتا رہتا ہے اس سے ذکر کیا تو اس نے جل کر جواب دیا "اچھا ہوا اسے کس نے کہا تھا یہاں آ، یہ قوم اس قابل نہیں کہ ان سے ہمدردی کی جائے! یہاں پولیو کے قطرے پلانے والوں کو نہیں بخشتےاور تم ڈاکٹر کی بات کر رہا ہے اور وہ بھی......."
میں اسکی تلخ باتیں مزید سننا نہیں چاہتا تھا اسی لیے چپ سادھ لی اور وہ بولتا رہا. ذہن میں ایک عجیب سی فلم چل رہی تھی جسکا فیتا بار بار ایک خون میں لت پت تصویر پر آکر ٹوٹ جاتا تھا اور ہر بار ڈاکٹر مہدی کے لنکڈ ان پروفائل پر لکھے شارٹ بائیو کے یہ الفاظ تارے بن کر میری آنکھوں کے سامنے ناچنے لگتے
"I believe in delivering the best possible patient care, maintaining the highest professional standards, contributing to the progress of the institutions I am affiliated with. My first priority is to deliver my professional responsibilities with competency, honesty and integrity”.
بار بار ایک سوال میرے دماغ کو جھنجھوڑ رہا تھا کہ ہم من حیث القوم کہاں جا رہے ہیں؟ عدم برداشت اور مذہبی منافرت کا ناسور ہمارے رگ و پے میں اس حد تک سرایت کرچکا ہے کی اب اس میں سے بو آنے لگی ہے اور اسکے تعفن سے اب دم گھٹنے سا لگا ہے. سوچ سوچ کر دماغ کی رگیں تن جاتی ہیں کہ آنے والی نسلوں کے لیے ہم کیسا پاکستان چھوڑے جا رہے ہیں؟ اور کیا ہماری آئندہ آنے والی نسلیں بھی آج کی بوئی ہوئ نفرتوں کی فصل کاٹیں گی؟
یہ واقعہ اور اس جسے دوسرے واقعات دیکھ کر ڈر لگتا ہے... اب تو بولنے سے بھی ڈر لگتا ہے .. قلم اٹھانے سے ڈر لگتا ہے.... بچوں کو پولیو ویکسین پلانے سے ڈر لگتا ہے.... کسی سے ہمدردی کرنے سے ڈر لگتا ہے.. گھر سے باہر نکنلے سے ڈر لگتا ہے اور تو اور اب تو ٹی وی چینلز دیکھنے سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں فتویٰ نہ لگ جائے اور کہیں ہماری کہانی بھی ٹویٹر کے ایک سو چالیس کیریکٹرز میں نہ سما جائے.
شام گھر واپس آیا تو عجیب سی حالت تھی، اپنے دونوں بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے بار بار ایک اندیکھے بچے کا چہرہ نظروں کے سامنے گھوم رہا تھا جو اپنے باپ کی لاش کے پاس کھڑا ہے، جس کی ماں دھاڑیں مار مار کر رو رہی ہے اور اس بچے کو سمجھ نہیں آ رہا کی یہ ہوا کیا ہے؟
وہ کبھی اپنی ماں کی طرف دیکھتا ہے کبھی زمین پر پڑے اپنے باپ کی طرف اور کبھی آسمان کی طرف، اسکی معصوم آنکھوں میں کئی سوال ہیں، اسکا باپ جو کچھ ہی دیر پہلے اس سے بات کر رہا تھا، اسے سن رہا تھا، اسے جواب دے رہا تھا، یکا یک خاموش کیوں ہے... اور جو دو لوگ موٹر سائیکل پر آئے انھوں نے بابا پر گولیاں کیوں چلائیں؟ میرے بابا تو لوگوں کی زندگیاں بچاتے تھے وہ تو ڈاکٹر تھے وہ تو یہاں لوگوں کی مدد کرنے آئے تھے کیا وہ کچھ غلط کر رہے تھے؟ میرے ہی بابا کو کیوں مارا؟
اور یہ سوال صرف اس بچے کے نہیں ہیں، یہ سوال وہ سب بیگناہ کر رہے ہیں جنہیں ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر بسوں سے اتار کر مارا گیا، جنہیں پشاور کے آل سینٹ چرچ میں مارا گیا، جنہیں گڑھی شاہو میں مارا گیا، جنہیں گوجرہ میں مارا گیا…. یہی وہ سوال ہیں جو سلمان تاثیر کی فیملی کرتی ہے اور یہی وہ سوال ہیں جو راشد رحمان کی بیوہ کر رہی ہے اور یہی وہ سوال ہیں جو ہمارے بچے ہم سے کریں گے …….
اس سے پہلے کہ نفرت کی یہ آگ پورے معاشرے کو بھسم کر ڈالے، پاکستان کو جلد ہی ان سوالوں کا جواب دینا ہو گا
تبصرے (52) بند ہیں