گورا پاکستان؟
بڑی پیاری ہیں اپنی آپا- خانہ داری میں ماہر، سگھڑ نرم خو آپا- آواز اتنی میٹھی کے مانو کانوں میں رس گھل جاۓ، لہجہ اتنا شائستہ کے بس سنتے رہو اور دل نہ بھرے-
آپا کو جب بھی دیکھا ہمیشہ خوش مزاج و خوش لباس پایا- سلیقے سے بنے بالوں، خوبصورت بے شکن ساڑی اور میچنگ جیولری سے آراستہ آپا نے یہ ثابت کردیا کہ گھریلو خواتین کو سر جھاڑ منہہ پہاڑ رہنا ضروری نہیں. عورت کا سلیقہ صرف گھر کی صفائی اور کھانے پکانے میں نہیں ہے بلکہ اسکی اپنی ذات میں بھی نظر آنا چاہیے- نازک سے دھان پان سے وجود کے باوجود ایک قدآور شخصیت کی مالک ہیں اپنی 'آپا'-
سنا ہے آج کل پاکستان کو 'گورا' کرنے کی ٹھانی ہے آپا نے- مجھے بھی گورا ہونے کا شوق ہے، یہاں سبھی کو ہے، حتیٰ کے جو گورے ہیں وہ بھی چاہتے ہیں کہ رنگ مزید نکھر جاۓ- لیکن کیا چہرہ سفید ہوجانے سے دلوں کی سیاہی صاف ہوجاۓ گی؟ کیوں آپا؟
آپ کے پاس تو ہر چیز کے لئے کوئی نہ کوئی نسخہ موجود ہوتا ہے، کوئی ایسا نسخہ بھی بتا دیں آپا جس سے لاپتہ جوانوں کی دکھی ماؤں بہنوں کے دلوں کو قرار آجاۓ- شاید آپ کے کسی نسخے سے وہ مائیں بھی زندگی کی طرف لوٹ آئیں جو اپنے جگر گوشوں کے ٹکڑے دیکھ کر پتھرا سی گئی ہیں-
اس پیارے وطن کی زمین، مظلوموں کے لہو سے سرخ ہو رہی ہے- ہم اپنے چہرے تو اجلے کرلیں گے مگر دھرتی ماں کے آنچل پر لگے خون کے ان دھبوں کو کیسے مٹائیں گے آپا؟
جو زمین کا ٹکڑا ہم نے ہزار قربانیوں کے بعد صرف اس لئے حاصل کیا تھا کہ یہاں امن کیساتھ بنا کسی خوف کے رہیں گے اب یہ حال ہے کہ وہیں آج اپنی بقاء کے لئے لڑ رہے ہیں-
آپا، صبح جب بچے اپنے گھروں سے نکلتے ہیں نا تو ماؤں کو یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ انکے بچے شام کو صحیح سلامت گھر آ بھی سکیں گے یا نہیں-
مائیں آخر کیوں نہ ڈریں، کون ہے جو ان خون کے پیاسوں کو سمجھاۓ کہ ظالمو! جنہیں بیدردی سے بجھا رہے ہو، یہ دیے کسی کی آنکھوں کا نور ہیں، کسی کا سہاگ، کسی کے بڑھاپے کی آس-
کون سمجھاۓ ان ظالموں کو کہ کافر کافر کہہ کر تم جنہیں مار رہے ہو وہ مظلوموں کا آسرا ہیں جو مدّت سے انصاف کی چوکھٹ پہ اپنی ایڑیاں رگڑ رہے ہیں لیکن شنوائی نہیں ہوتی- علم کے چراغ ہیں جن کی روشنی میں آنے والی نسلوں نے پروان چڑھنا ہے تم انکو بجھا کر ہمارا مستقبل تاریک کر رہے ہو!
لیکن انکو کون سمجھاۓ گا؟ کیوں کے عقل والے جتنے ہیں وہ سب تو ایک ایک کر کے یہ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں، اور انکو جانا بھی چاہیے کیوں کہ ہم نے اپنی نفرت کی آگ میں ان کا چین و سکون، ان کے گھر پھونک ڈالے ہیں- ہم نے ان کی کوششوں کا کیا صلہ دیا سواۓ دربدری کے؟
"اور کچھ نہیں آپا تو ان معصوم کلیوں کو لگے زخموں کے لئے ہی کوئی مرہم بتا دیں جنہیں ہوس کے درندوں نے مسل کر رکھ دیا؛ کبھی گھر میں، کبھی راستے میں، کبھی اسکول، کالج، لائبریری میں... تو کبھی مدرسے اور مسجد میں- ان معصوموں کے لئے تو کوئی ریلی نہیں نکالتا ، نہ کوئی دھرنے دیتا ہے- ان کی بیحرمتی پر کسی ٹی وی چینل کی غیرت بھی نہیں جاگتی ہے!"
جہاں خون کا ایک ہی رنگ ان کے بیچ فرق کو نہ مٹا سکا کیا آپ کو لگتا ہے چہرے کی رنگت ان کے بیچ تفریق ختم کردے گی؟ یہ دلوں میں کدورتیں بھرے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ہر حد پار کرنے پر ہمہ وقت تیّار بیٹھے یہ لوگ کیا اپنے چہرے اجلے کر کے جنّت کے حقدار بن جائیں گے؟ آپا، گورا رنگ نہ دلوں کی سیاہی مٹا سکتا ہے، نہ کسی مظلوم کی کھوئی ہوئی خوشیاں واپس لا سکتا ہے-
نہیں آپا نہیں، سانولے چہرے نہیں، سیاہ دل اور فتوری نیت پاکستان کا اصل مسئلہ ہے، ہاں اگر آپ کے پاس ایسا کوئی ٹوٹکا ہے جس سے دلوں کے میل صاف ہوجائیں اور عقل کے اندھوں کو تھوڑی سمجھ آجاۓ تو ضرور بتائیں اس قوم کو اسکی سخت ضرورت ہے-
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (7) بند ہیں