پاکستانی میڈیا اور صحافیوں کی پُھرتیاں
یہ اس بلاگ کا پہلا حصّہ ہے
دو پڑوسنیں آپس میں لڑرہی تھیں۔ آستینیں چڑھی ہوئی تھیں، منہہ سے جھاگ نکل رہا تھا اور ہاتھ نچا نچا کے ایک دوسرے کو کوسنے دے رہی تھیں۔ "ارے میں کوئی اندھی بہری نہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ دودھ والے کے ساتھ تمھارا کیا چکر چل رہا ہے"؟
ایک نے دوسرے کے راز سے پردہ اُٹھاتے ہوئے کہا۔ "تو تم کونسی دودھ کی دُھلی ہو۔ سبزی والا تمھیں روز سبزیاں ایسے ہی مفت میں تو نہیں دیتا"
دوسری نے بھی دو بدو جواب دیا۔ دونوں کی تکرار جاری تھی۔ ایسے میں گلی کا ایک شخص جو کافی دیر سے ان کی "ادبی" گفتگو سن رہا تھا اپنی بیوی سے بولا کہ تم جاکے انہیں روکتی کیوں نہیں؟ بیوی نے کہا "میں کیوں روکوں؟ ویسے بھی آج کھل کر دونوں کے کردار سے پردہ اٹھ رہا ہے"
پاکستانی میڈیا پر بھی آج کل یہی کچھ دیکھنے میں آرہا ہے۔ حامد میر پر کراچی میں ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد میڈیا خصوصاَ ٹی وی چینلز پر صحافی جس طرح ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے اور "پردہ چاک" کرنے میں مصروف ہیں اسے دیکھ کرہم جیسے بے خبر لوگوں کی معلومات میں بیش بہا اضافہ ہو رہا ہے۔
صحافی اور مختلف میڈیا گروپ اپنے مخالفین کو جس طرح غدار اور ملک دشمن قرار دے رہے ہیں اسے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ بھی پاکستانی سیاست دانوں کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں۔ ویسے بھی پاکستانی میڈیا کے بارے یہ تصورعام ہے کہ اس نے کبھی غیر جانبدار رہ کر اپنا کردار ادا نہیں کیا۔
مجھے یاد ہے جب میں ماس کمیونیکیشن کا طالب علم تھا تو ایک دن ہمارے استاد نے صحافتی اخلاقیات کے موضوع پر لیکچر دیتے وقت کہا تھا کہ "ایک صحافی کو ہمیشہ غیر جانبداررہنا چاہئے" لیکن ایک مختصر وقفے کے بعد خود ہی کہنے لگے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔
میں آئندہ کئی برسوں تک یہ گھتی سلجھانے میں ناکام رہا کہ جب کسی نکتے پرعمل کرنا ممکن ہی نہیں تو اسے اخلاقیات میں شامل کیوں کیا گیا ہے اور درسگاہوں میں اس کی تعلیم کیوں دی جاتی ہے؟
تب ہمارے کچھ دوست مزاق میں یہ بھی کہا کرتے تھے کہ پاکستان میں رشوت لینے کے معاملے میں اگرچہ پولیس سب سے زیادہ بدنام ہے لیکن یہاں کے صحافی اتنے "طاقتور" ہیں کہ پولیس بھی انہیں رشوت دینے پر مجبور ہے۔
ہم نے کبھی ان الزامات کو سنجیدہ نہیں لیا لیکن جب پرویز مشرف کے دور میں آئے روز نت نئے ٹی وی چینلز کھلنے لگے اور نیوز چینلز کا سیلاب امڈ آیا تو پاکستانی صحافت کے خد و خال بھی کھل کر سامنے آنے لگے اور وہ باتیں جو پہلے مزاق لگتی تھیں حقیقت دکھائی دینے لگیں۔
اس سے قبل ہم جن صحافیوں کو محض ان کی تحریروں کے حوالے سے جانتے تھے اور اپنا آئیڈیل تصور کرتے تھے جب ٹی وی اسکرین پر جلوہ افروز ہوکر اپنے "کمالات" دکھانے لگے تو پتہ چلا کہ وہ ان تصورات سے بہت مختلف تھے جو ہم نے ان کے بارے میں تراش رکھے تھے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ صحافی بھی اسی دنیا کے باسی ہیں اور ان کی بھی اپنی پسند و ناپسند ہوتی ہیں۔ اسی طرح دنیا بھر کے میڈیا گروپس بھی اپنا خاص ایجنڈا رکھتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے علاوہ طاقت اور اثر و رسوخ کا حصول ہمیشہ ان کی ترجیحات میں شامل ہوتے ہیں اور وہ ان مقاصد کے حصول کے لئے کوششیں بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ان کے طریق کار میں ایک سلیقہ ہوتا ہے اور کسی قاری یا ناظر کو بہ مشکل ہی اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ صحافی کس طرح رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہا ہے.
پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں کے صحافی یہی کام اتنے بھونڈے طریقے سے انجام دیتے ہیں کہ انسان پہلی فرصت میں ہی یہ جان لیتا ہے کہ ان کا جھکاؤ کس طرف ہے اور اگر وہ ہاتھ دھو کر کسی کے پیچھے پڑے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس طرح یہاں کے سیاستدان پارٹی تبدیل کرتے رہتے ہیں ویسے ہی صحافی بھی "چینل" تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ یعنی "اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے"۔
ایسے صحافیوں کا نظریہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے کیوں کہ یہ زیادہ تر اپنے میڈیا گروپ کی پالیسی یا ایجنڈے کے تحت کام کرتے ہیں اس لئے چینل تبدیل کرنے کے بعد سیاستدانوں کی طرح ان کا بھی نہ صرف لہجہ تبدیل ہو جاتا ہے بلکہ ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں۔
میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ریاست کے تینوں بنیادی ستونوں (مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ) اور عوام کے درمیان نہ صرف رابطے کا کام کرتا ہے بلکہ ریاست کے ان تینوں ستونوں کی کارکردگی پر بھی نظر رکھتا ہے۔
اس اہم کام کو انجام دینے کے لئے میڈیا کا غیر جانبدار رہنا ضروری ہے ۔ جبکہ ہمارے ہاں اکثر صحافیوں پر مراعات کے حصول کی خاطر حکمرانوں اور خفیہ اداروں کے لئے کام کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ جس صحافی کی اقتدار کے ایوانوں یا ریاستی اداروں تک جتنی زیادہ رسائی ہوتی ہے وہ اتنا ہی "باخبر" کہلاتا ہے۔
صحافیوں کو Opinion Leaders یا Opinion Makers اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ حالات و واقعات سے زیادہ آگاہی رکھنے کے باعث ان میں رائے عامہ پر اثر انداز ہو نے کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے۔
بد قسمتی سے پاکستان میں بعض میڈیا ہاؤسز اور نامور صحافی اپنی اسی خصوصیت کی بدولت اپنے آپ کو King Maker سمجھ بیٹھے ہیں۔ ان کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ جسے چاہے آسمان کی بلندیوں تک لے جا سکتے ہیں اور جسے چاہے منہہ کے بل زمین پر پٹخ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب انہوں نے حکومتیں گرانے اور بنانے کا کام بھی سنبھال لیا ہے۔
میڈیا میں اس رجحان کو تقویت دینے میں حکمرانوں، ریاستی اداروں، سیاسی پارٹیوں اور نامور شخصیات کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا خود صحافیوں کا۔ 2013 کے میڈیا کمیشن رپورٹ میں میڈیا اور صحافیوں پر لگائے گئے الزامات میں یہ الزام سرفہرست ہے کہ؛
"میڈیا پر بہتر اور حسب منشاء کوریج حاصل کرنے اور مخالفین کے خلاف جھوٹی اور ہتک آمیز خبریں نشر کرنے کے لئے صحافیوں اور میڈیا پرسنز کو رشوت، لالچ اور ترغیبات دی جاتی ہیں۔"
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ پاکستانی میڈیا سے وابسطہ اکثر صحافیوں کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنا کام نکالنے کے لئے عموماَ دھونس دھمکی اور بلیک میلنگ سے کام لیتے ہیں۔ حکومت اور ایجنسیوں سے پلاٹ، نقدی اور غیر ملکی دوروں کی مد میں مراعات کی وصولی بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اپنے مخالف اور باغی صحافیوں اور اینکرز کے "راز طشت از بام" کرنے اور بوقت ضرورت ویڈیو کی شکل میں ان کے "اصل چہرے اور کرتوت" یو ٹیوب اور فیس بک پر اپ لوڈ کرنے کی مثالیں بھی عام ہیں۔
اس صورت حال میں عوام یہ سوچ کر حیران ہیں کہ وہ یقین کریں بھی تو کس کی بات پر؟
ان پر جو اپنے آپ کو محب وطن اور مخالف صحافیوں کو ملک دشمن، غدار اور بیرونی ایجنٹ قرار دے رہے ہیں یا ان کی بات پر جو اپنے خلاف ہونے والے اقدامات کو حق گوئی، جرآت و بیباکی اور آزادی صحافت کے خلاف سازش قرار دے رہے ہیں۔
ابھی چند دنوں پہلے کی مثال لیجئے کہ بعض "با خبر" ٹی وی اینکرز جس طرح ہاتھ دھو کے حکومت کے پیچھے پڑے تھے اور جس انداز سے وہ شریف فیملی کے اثاثے اور بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات ٹی وی اسکرین پر دکھا رہے تھے انہیں دیکھ کر یوں لگ رہا تھا جیسے نواز حکومت کے خلاف ایک زبردست چارج شیٹ تیار کی جارہی ہے۔ لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے سب کی توپوں کا رخ حامد میر اور جنگ گروپ کی طرف ہوگیا اور ٹی وی تبصروں اور اخباری رپورٹوں کے زریعے انہیں غدار اور ملک دشمن قرار دینے کے علاوہ یہ بھی انکشاف کیا گیا اسی جنگ گروپ نے لشکر جھنگوی کے ایک دہشت گرد کو صرف اس لئے اپنے ہاں ملازمت دی تھی تاکہ ولی بابر کو قتل کیا جاسکے۔
دوسری طرف حامد میر اور جنگ گروپ کا یہ کہنا کہ "انہیں بلوچستان کا مسئلہ اجاگر کرنے کی سزا دی جارہی ہے" اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تمام تر دعوؤں کے باوجود پاکستانی میڈیا کو مکمل آزادی میسر نہیں۔ حالانکہ بلوچستان کی عوام کو ہمیشہ اس بات کی شکایت رہی کہ پاکستانی میڈیا نے بلوچستان کو کبھی اتنی اہمیت نہیں دی جس کی وہ حقدار ہے۔
بلوچستان کا موجودہ مسئلہ بھی کوئی نیا بلکہ اس کی ابتدا تب ہوئی تھی جب 2006 میں "نامعلوم جگہ سے فائر کرکے" بزرگ بلوچ رہنماء نواب اکبر بگٹی کو قتل کیا گیا تھا۔ تب تو پاکستانی میڈیا سے وابسطہ کسی "محب وطن اور جرآت مند" صحافی نے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اس واقعے کو غلط اور ملک کے لئے نقصان دہ قرار دینے کی جسارت نہیں کی؟ بلکہ وہ تو اپنے ٹاک شوز میں اس واقعے کو نہ صرف حکومت کی رٹ برقرار رکھنے کے لئے درست عمل قرار دیتے تھے بلکہ اسے صحیح ثابت کرنے کی غرض سے پرویز مشرف کے وزراء کے منہ میں اپنے الفاظ بھی ڈال دیا کرتے تھے۔
پاکستانی میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ رویہ 2007 میں بھی دیکھنے میں آیا تھا جب اسلام آباد میں لال مسجد کا واقعہ ہوا تھا۔ سب کو یاد ہوگا کہ پہلے تو تمام ٹی وی چینلز کئی دنوں تک برقعہ پوش ڈنڈا بردار طالبات اور ماسک پہنے جدید اسلحے سے لیس طالب علموں کی مسلسل لائیو فوٹیج دکھا کر حکومت سے یہ سوال کرتے رہے کہ ملک کے دارالخلافہ میں حکومت کی رٹ کو چیلینج کرنے والوں کے خلاف آپریشن میں تاخیر کیوں کی جا رہی ہے؟ لیکن جب حکومت نے آپریشن کرکے لال مسجد اورجامعہ حٖفصہ کو ان شدت پسندوں سےآزاد کرالیا تو تقریباَ تمام پاکستانی میڈیا نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے حکومت کو درجنوں "معصوم بچیوں" اور بے گناہوں کا قاتل قرار دینا شروع کر دیا۔ جس سے عوام اس کنفیوژن میں مبتلا ہوئے کہ میڈیا کا رویہ آپریشن سے پہلے درست تھا یا اس کے بعد؟
میڈیا کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پرویز مشرف ہی کے دور میں جب پاکستان بھر بالخصوص کوئٹہ میں فرقے کے نام پر معصوم لوگوں کا بے دریغ خون بہایا جارہا تھا تب بھی کسی نڈر صحافی یا اینکر کو اس بات کی توفیق نہیں ہوئی کہ اس موضوع پر اپنا کوئی ٹاک شو سجاتا. نہ ہی کسی باخبراور صاف گو صحافی نے فرقے کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں اور ان کے سرپرستوں کے بارے میں کبھی لب کشائی کی جرآت کی.
طالبان اور القاعدہ کو "مردان حُر" کا خطاب دینے والے اور اسامہ بن لادن کو مسلمانوں کا ہیرو قرار دینے والے بھی یہی پاکستانی صحافی تھے جن میں سے کئی آج بھی میڈیا پر آکر بڑی بیباکی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ان مردان حُر کے طالبانی نظام کی تمنا کرتے ہیں جو معصوموں کے چیتھڑے پہلے اڑاتے ہیں اور جرم بعد میں بتاتے ہیں۔
آج بھی "دلیر اور جرات مند" صحافیوں کی دلیری اور جرآت کا یہ عالم ہے کہ طالبان اور ان کے اتحادی دہشت گردوں کے ہاتھوں شکار ہونے والے معصوم لوگوں کے قتل عام پر نہ صرف چھپ سادھے ہوئے ہیں بلکہ پھولے ہاتھ پاؤں اور اُڑی رنگت کے ساتھ اپنے لائیو پروگرام میں ان کی منتیں ترلے کرتے نظر آتے ہیں۔
اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح بھی ہماری اسی میڈیا کی ایجاد ہے جس کے مطابق افغانیوں کے گلے کاٹنے والے 'اچھے طالبان' ہیں جبکہ پلٹ کر ہمی کو میاؤں کرنے والوں کو 'برے طالبان' کہا جاتا ہے۔
جہاں تک لشکر جھنگوی جیسے گروہوں کا تعلق ہے تو شاید ان کے بارے میں ہمارے صحافی ابھی تک اس مخمصے کا شکار ہیں کہ انہیں دہشت گرد کہا جائے یا مردان حُر؟ کیوں کہ ہمارے یہ باخبر صحافی ابھی تک یہ نہیں جان پائے ہیں کہ لشکرجھنگوی "اپنوں" کا قتل عام کرتے ہیں یا "دشمنوں" کا؟
جاری ہے ………..
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (4) بند ہیں