مووی ریویو: دیکھ تماشا دیکھ
![]() |
سکرین شاٹ |
حمید عرف کرشن عرف تانگے والا ایک غریب شرابی شخص تھا جو حادثاتی طور پر متھا سیٹھ (ستیش کوشک) کے ہورڈنگ بورڈ کے نیچے دب کر مرجاتا ہے- غریب خود تو مر جاتا ہے لیکن اپنے پیچھے پورے گاؤں کو آگ لگا جاتا ہے- اس کے مرتے ہی ہندو- مسلم آبادی پر مشتمل پورا گاؤں جیسے حرکت میں آجاتا ہے، دونوں پارٹیاں مردہ تانگے والے کو اپنا بندہ ثابت کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہیں- شر پسند اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہیں، مقامی اخبار میں اس خبر کو خوب اچھالا جاتا ہے، دنگے فساد ہونے لگتے ہیں یعنی 'اس بہتی گنگا' میں ہر کوئی ہاتھ دھونے پہنچ جاتا ہے۔
![]() |
سکرین شاٹ |
'دیکھ تماشا دیکھ' کوئی روایتی بولی وڈ فلم نہیں- یہ سماجی ڈرامہ جنوب ایشیائی معاشرے کا عکاس ہے، جہاں مذہب اور ذات پات کے نام پر اپنی سیاست کی دکان چمکائی جاتی ہے- رائٹر شفاعت خان اور ڈائریکٹر فیروز عبّاس خان نے سماج کے ایک ایسے ناسور کو چھیڑا ہے جسے اکثر مواقع پر جان بوجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے- تہذیب کے پردے میں یہ ناسور اندر ہی اندر پکتا سڑتا رہتا ہے اور ایک وقت آتا ہے جب یہ پھٹ پڑتا ہے اور اس سے پھیلنے والا تعفن اور زہر پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
فلم میں کوئی مرکزی کردار نہیں اگر کہانی گھومتی ہے تو ایک مردہ انسان کے گرد- اس کی اصل جان فلم کے سکرین پلے میں ہے- شروعات میں تمام کرداروں کا مختصر تعارف کرایا گیا ہے، نیوز پیپر کا مالک متھا سیٹھ ایک کاروباری تھلتھلا شخص، ایڈیٹر کلکرنی اصولوں اور سچائی کا علمبردار، گرم خون اور سچائی کا شیدائی رپورٹر رفیق، حمید/کرشن کی مسلمان بیوی فاطمہ، فاطمہ کی بیٹی شبو، بیٹا انور، بے ضمیر حوالدار ساونت، انصاف پسند انسپکٹر وشواس راؤ، ہندو شرپسند باندیکر، شبو کا عاشق پرشانت وغیرہ- ایک ایک کر کے فلم میں سین آتے جاتے ہیں اور کہانی آگے بڑھتی ہے- بیچ بیچ میں اس واقعہ سے متاثر ہونے والے خاندانوں کی کہانی بھی چلتی رہتی ہے۔
![]() |
سکرین شاٹ |
فلم میں ڈائریکٹر نے کچھ ایسے سٹیریو ٹائپ مناظر اور کردار دکھائے ہیں جو ذرا غور کیے جائیں تو دونوں ممالک کے معاشرے میں نظر آئیں گے، مثلاً متھا سیٹھ کا نیوز پیپر ایڈیٹر کلکرنی اور اپنے پالتو کتے کے ساتھ ایک جیسا سلوک، صاف پتا چلتا ہے کہ ڈائریکٹر معاشرے کے خوشامدی کرداروں پر چوٹ کر رہے ہیں، اسی طرح ایک مولوی کی تقریر کے دوران جلسے میں موجود لوگوں کو حوروں کی خوشخبری دینا، مولوی صاحب کے پیچھے اسٹیج پر لگے بینر پر اونٹ اور کھجور کے درخت کے نقش و نگار، فلم کے آخر میں دونوں گروہوں کے کرتا دھرتاؤں کو آپس میں ہنسی مذاق کرتے دکھانا، یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو ہمیں اپنے گرد و پیش جا بجا نظر آئیں گی۔ اسی طرح اخبار کے مارکیٹنگ مینجر کا رپورٹر رفیق سے کہنا، 'رفیق تم مسلمان ہو، شاعر ہو شاعری کرو'۔
![]() |
سکرین شاٹ |
اس کہانی میں اصل مزے کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کا کرشن عرف حمید سے کوئی تعلق بنتا تھا ان کا پورے قصّے میں دور دور تک کچھ اتا پتا نہیں- تانگے والے کے اصل گھرانے کے سوا باقی پورا گاؤں 'بیگانے کی شادی میں عبدللہ دیوانہ ہے' کی مانند کرشن/حمید کو اس کا 'حق' دلانے پر تلا ہوا ہے۔
'دیکھ تماشا دیکھ' کے ڈائریکٹر فیروز عبّاس خان مذہب کے نام پر منافقت اور موقع پرستی کو بے نقاب کرتے نظر آتے ہیں- انتہائی حساس اور متنازعہ موضوع پر بنائی گئی اس فلم کی ریلیز بھی ایسے وقت کی گئی ہے جب انڈیا میں جنرل الیکشنز جاری ہیں، جس کا واحد مقصد عوام کی آنکھیں کھولنا ہے- فلم کامیڈی ہرگز نہیں ہے ہاں البتہ اسے طنز و مزاح کی کیٹگری میں رکھا جا سکتا ہے۔
![]() |
سکرین شاٹ |
فلم کا اختتام قدرے مختلف ہے، ڈائریکٹر ایسے حالات سے نمٹنے کا گُر سکھاتے ہیں- اینڈنگ حقیقت سے دور تو ہے مگر ناممکن نہیں- جو لوگ مذہب کا نام آتے ہی عقل اٹھا کر طاق پر رکھ دیتے ہیں ان کے لئے یہ ایک سبق ہے کہ برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شر پسند عناصر کو خود پر حاوی ہونے نہ دیں۔
فلم کی ایک اور خصوصیت، اس میں آپ کو کوئی گیت نہیں ملے گا نہ ہی سین کو ڈراماٹائز کرنے کے لئے دھوم دھڑاکے والے بیک گراؤنڈ میوزک کا سہارا لیا گیا، اسے حقیقت سے قریب تر رکھنے کے لئے نیچرل ساؤنڈ کے ساتھ فلمایا گیا۔
فلم کے پروڈیوسر سنیل اے. لللا اور فیروز عبّاس خان ہیں- سنیماٹوگرافی ہیمنت چترویدی کی ہے۔ اس کی ریلیز اٹھارہ اپریل دو ہزار چودہ کو ہوئی- فلم کا دورانیہ ایک گھنٹہ پچاس منٹ ہے۔
نمایاں اداکاروں میں:۔
متھا سیٹھ : ستیش کوشک
فاطمہ : تنوی اعظمی
ساونت : گنیش یادیو
وشواس راؤ : ونے جین
باندیکر : شرد پونکشے
شبو : اپوروا ارورہ
ستار : جینت واڈکر
رفیق شیخ : انگت مہاسکر
کلکرنی : دھیریش جوشی
ایک مشورہ ہے کہ فلم کے بعض لمبے سینز پر بور نہ ہوجائیے گا، فلم کا اصل مزہ اس کی اینڈنگ میں ہے- آخر میں آپ مایوس نہیں ہوں گے۔