• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

'چوروں کا میلہ' اور 'بھولے بادشاہ'

شائع May 10, 2014 اپ ڈیٹ June 2, 2014
خان صاحب کا اصرار ہے کہ وہ جمہوریت کو تگڑا کرنے کے لیے تحریک چلا رہے ہیں۔ ایسا ہی ہے تو پھر 11 مئی کا تاریخی دن ہی کیوں؟
خان صاحب کا اصرار ہے کہ وہ جمہوریت کو تگڑا کرنے کے لیے تحریک چلا رہے ہیں۔ ایسا ہی ہے تو پھر 11 مئی کا تاریخی دن ہی کیوں؟

اپنے عمران خان یا تو بہت بھولے بادشاہ ہیں یا پھر انھیں راج نیتی یعنی "طاقت کی سیاست" کو سمجھنے کی فرصت نہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء اور جعلی ریفرنڈم کی حمایت پر وہ ایک دفعہ قوم سے علی الاعلان معافی مانگ چکے ہیں مگر آج کل یہی لگ رہا ہے کہ حضرت وہ 'مومن' ہیں جو دوسری بار ڈسے جانے کے لیے پھر سے تیار ہیں۔

کپتان صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ قوم انہیں ایک دفعہ معاف کر کے پچھلے انتخابات میں تیسری بڑی سیاسی جماعت کا درجہ دلوا چکی ہے لہٰذا اب معافی کی گنجائش 'نشتہ' ہے۔ سیاست کے میدان میں ایسا چانس کم کم ہی ملتا ہے۔

خان صاحب کا دعویٰ ہے کہ چوہدری افتخار، آصف علی زرداری، میاں نواز شریف اور میڈیا نے 'رل مل' کے 2013 میں جس انتخابی میلے کا انعقاد کروایا تھا وہ محض 'دیہاتی کی چادر' چرانے کا منصوبہ تھا اور وہ دیہاتی عمران خان تھے۔

کچھ سیانے تو بھولے کپتان کو اس دیہاتی سے تشبیہ دیتے ہیں جس نے پہلے تو بینک میں رقم رکھوانے کا فیصلہ کیا مگر بینک کے قائدوں سے تنگ آ کر اپنی رقم کو موزوں ہی میں رکھنا بہتر سمجھا۔ ایسا شخص رہزنوں سے رقم لٹوانے کے بعد اسے 'خدائی حکم' سمجھ کر بس صبرشکر ہی پر گذارا کرتا ہے۔

ایسے 'سادہ لوح' یاستدانوں کی ہمارے ہاں ایک طویل فہرست ہے جو بس موقع کی تاک میں رہتے ہیں اور دوسروں کو استعمال کرنے کے چکّر میں اکثر خود استعمال ہوتے ہیں۔ ہجرت، خلافت و عدم تعاون سے متاثرہ یہ وہی 'ذہین افراد' ہیں جن کے ہاتھ میں بقول جناح صاحب ایک ایسے بینک کا چیک ہوتا ہے جو خود کنگال ہو چکا ہے۔

کبھی اگر خدانخواستہ ایسے 'بھولے بادشاہ' کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو ان کی کامیابی ونسٹن چرچل جیسی ہی ہوتی ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی سپر پاور تو امریکہ بن گیا اور چرچل جنگ جیتنے کی دہائیاں ہی دیتے رہ گئے۔ البتہ برطانیہ کے عوام اصل حقیقت جانتے تھے کہ حضرت چرچل نے انھیں کہاں مروایا ہے، چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہونے والے 1946 کے انتخابات میں چرچل کو مسترد کر کے لیبرپارٹی کو جتوا دیا تھا۔

حلوے میں اگر مٹھاس کم ہو تو سرکا ڈالنے سے مٹھاس ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ حلوہ ہی کھانے کے قابل نہیں رہتا۔ جمہوریت کا بھی یہی خاصا ہے کہ وہ 'زیادہ جمہوریت' کی متقاضی ہوتی ہے نہ کہ محلاتی سازشوں یا گھیراؤ جلاؤ پر انحصار کرتی ہے۔ مگر یہ بات خان صاحب کو کون سمجھائے گا؟ انھیں یہ بات 2025 میں سمجھ آئے گی کہ جب چڑیاں کھیت چک چکی ہوں گی۔

اگر ان کی بات مان بھی لی جائے کہ چوہدری افتخار، زرداری اور میاں صاحب 'رلے' ہوئے ہیں تو پھر وہ اس اتحاد میں 'جنرل کیانی' کے نام کو کیوں شامل نہیں کرتے؟ جس جمہوری تسلسل کو آج وہ داغدار کرنے چلے ہیں اس کے ایک اہم ترین سرخیل جنرل کیانی بھی تھے، مگر ان کا نام لینے سے دلیر کپتان بوجوہ کتراتے ہیں۔

خان صاحب کا اصرار ہے کہ وہ تو جمہوریت کو تگڑا کرنے کے لیے یہ تحریک چلا رہے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر انھوں نے 11 مئی کے تاریخی دن ہی کا انتخاب کیوں کیا؟

یہ تو وہ دن ہے جو اس 'پہلے جمہوری تسلسل' کی یادگار ہے جب پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ووٹوں کے ذریعہ وفاق و صوبوں میں پرانی منتخب حکومتیں گئیں اور نئی منتخب حکومتوں نے اقتدار سنبھالا. 65 سالوں میں یہ دن دیکھنے کی آرزو لیے کتنے ہی درد دل رکھنے والے پاکستانی راہی ملک عدم ہو چکے ہیں۔ ہم میں سے کون ہے جو یہ نہ چاہتا ہو کہ انتخابی عمل آزاد، غیرجانبدار اور شفاف ہو۔ مگر کیا اس کے لیے مولانا طاہر القادری اور شیخ رشید کے ساتھ مل کر حلوے میں سرکا ڈالنا ضروری ہے؟

سونے پی سہاگہ یہ کہ سرکا ایسے وقت ڈالا جارہا ہے جب افغانستان میں عبداللہ عبداللہ اور انڈیا میں نریندر مودی آنے کو پر طول رہے ہیں۔ اب آپ خود سوچیں اس نازک ترین دور میں یہ 'دور کی کوڑی' کون لایا ہے؟ یہ کس کے مفاد میں ہے؟

خان صاحب کو 2013 کے انتخابات میں نہ صرف قومی اسمبلی میں تیسری پوزیشن ملی ہے بلکہ ایک اہم صوبائی حکومت بھی۔ اب ان کی مخالفانہ سیاست کے زریں اصولوں کے ساتھ ساتھ لوگ یہ حق بھی رکھتے ہیں کہ اس صوبائی حکومت کی کارکردگی کا موازنہ بھی کریں۔

اگر وہ صدق دل سے وہی چاہتے ہیں جس کا اظہار آج کل اپنے بیانوں سے کر رہے ہیں تو پھر 11 مئی کی بجائے کسی دوسرے دن کا انتخاب کریں اور شفاف، غیرجانبدار اور آزاد الیکشن کمشن ہی نہیں بلکہ میڈیا ریگولیشنز کے حوالہ سے متبادل تجاویز لے کر آئیں۔ ان تجاویز پر تمام سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی نمائندہ تنظیموں سے مشاورت کریں اور پھر منتخب ایوانوں میں اس کے لیے جدوجہد کریں۔

اگر پچ خراب ہے تو اس کا قصوروار کھلاڑیوں یا تماشایوں کو تو نہیں قرار دیا جا سکتا اور نہ ہی خراب پچ کا بہانہ تراش کر 'کرکٹ' کو بند کیا جانا چاہیے۔

شیخ رشید اور طاہرالقادری کے پلّے تو گنوانے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں سو ان کے 'انقلابی پن' کا راز تو سمجھ آتا ہے مگر خان صاحب اس کھوبے میں اپنی مقبولیت کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ 2013 کے انتخابات کے بعد انھیں 'اصغرخاں ثانی' کا خطاب ملنا بند ہو گیا تھا مگر اپنی حالیہ سیاست کے بل بوتے پر انھوں نے یہ اعزاز دوبارہ حاصل کرنے کی بھرپور کوششیں شروع کر دی ہیں۔

لیکن، یہ 2014 ہے کپتان صاحب! خلافت، ہجرت و قومی اتحاد کا زمانہ گذر چکا ہے، اب 'نیا راستہ' پاکستان کی بدل چکی سیاسی حقیقتوں کو تسلیم کرکے ہی نکل سکے گا، جس کا مطلب یہ کہ اس "نۓ پاکستان " میں اب جمہوریت کی بے توقیری کی قطعی کوئی گنجاش نہیں۔

آج بھی اگر عمران میڈیا اور الیکشن کمشن کے حوالے سے متبادل تجاویز لے کر منتخب سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی نمائندہ تنظیموں کے پاس جاتے ہیں تو ان کی بات میں وزن پڑ جائے گا مگر 11مئی کی ٹائمنگ اور "شیخ و قادری اتحاد" سے تاثر یہی مضبوط ہوتا ہے کہ وہ بند ہو چکے بینک کے پوسٹ ڈیٹڈ چیک پر ہی امید لگاۓ بیٹھے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

عامر ریاض

عامر ریاض لاہور میں رہتے ہیں۔ تعلیم، بائیں بازو کی سیاست، تاریخ ہند و پنجاب ان کے خصوصی موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (8) بند ہیں

فہیم May 10, 2014 12:40pm
عمران خان نیازی صاحب اپنا ایک وعدہ بھی پورا نہ کرسکے . بس سیاست میں آنے کے بعد عمران خان نیازی ایک ہی کام کرتے رہے، دھول چہرے پر تھی اور آئینہ صاف کرتے رہے.
Liaquat Ali Malik May 10, 2014 03:47pm
Right...!!!!
Liaquat Ali Malik May 10, 2014 03:47pm
Right...!!!!
Azeem Hassan May 10, 2014 10:10pm
مجھے تو حیرانی ان کے حمایئیتیوں پر ہے وہ کس پاگل کے پیچھے لگے ہوئے ہیں جو نا پورا ڈیموکریٹ ہے نہ طالبان نہ کھل کے فوج کے ساتھ ہے نہ عوام کے ساتھ جہاں اس کی حکومت ہے وہاں کی کارکردگی نا قابل ستائیش ہے سیاست میں کبھی کچھ کہتا ہے کبھی کچھ اپنی جماعت کے اندر وہ پھوٹ ڈلوا چکا ہے اسی گندے معاشی نظام کو چلانا چاہتا ہے جس کی بنیاد مزدور کے خون پسینے اور ہڈیوں پر رکھی جاتی ہے نہ اس کے پاس ویژن ہے نا کسی کی مانتا ہے اس کے پیچھےلگنے والے بھی کیا عجیب لوگ ہیں
نجیب جٹ May 11, 2014 11:26am
بھاء جی آپ نے بہت ہی سُندر، حقیقت پر مبنی، نہ جھٹلائے جانے والا اور عین سولہ آنے زمینی حقائق پر فِٹ بیٹھنے والا تجزیہ لکھا ہے عمران خان کی موجودہ سیاسی سائکی پر۔ یہی کالم ابھی ابھی میں نے روزنامہ مشرق بتاریخ اج یعنی گیارہ مئی ایڈیشن لاہور میں بھی پڑھا ہے۔
Aaqib May 11, 2014 02:51pm
@Azeem Hassan: ji voh janunia loog hain jo app logo kay mufaparasat kays sath nhi. jo app logo sa alag hain or ak alag pachan chatay hain pakistan ki duniya mein. pichay 60 saal sa yahi party bazi hai yahi siyasatdan hain or yahi vote ka tarqa hai. or mujhya khusi hai us ka himaiti honay par and fakhir hai jo sach bolta hai n sachi baat karta hai jo shahid us mulk kay rahnay walo ko aj tu samjh nhi ati ho ge but jo us mulk sahi bahir hain and apna mulk sa muhabat kartay hain un ko is ka achi tarha sa andza hai. insaf kia hai.. vote ki hai. vote ka haq kia hai. zaaat baradari komiyat subiyat pa vote nhi daytay.
Khan May 11, 2014 05:44pm
Bholy to Aamir Riaz sb (article writer) hien, who could not identify a person with all of his stakes in Pakistan (vs Sharif's in UK, Damam, India), who failed to see hundreds of videos showing ballots spread in streets. Who couldn't remember those who before elections promised for breaking " Kashkol" and after election borrowing $25b in just 11 months (vs $60b in 63 years). I simply feel pity for him. koyee baat naheen! shayed bahut he bholay hien
kamran May 12, 2014 05:45pm
Very wrong. I don't agree with your thoughts.

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024