رقص کا عالمی دن
آج رقص کا عالمی دن منایا جا رہا ہے- مگر ہمارے ہاں اس بات کی کیا اہمیت ہے؟
ہمارے ہاں توہر وہ چیز جو فطرت کے قریب ہو، اسے کچھ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا جب کہ رقص کو اعضاء کی شاعری کہا جاتا ہے۔
اور شاعری سے زیادہ انسان کے اندر گداز پیدا کرنے چیز کیا ہو گی!۔
رقص انسانی فطرت میں شامل ہے، انسان کی سرشت کا حصّہ ہے، رقص کے لئے بنیادی تقاضہ لے اور تال کا ہونا ہے اور کائنات میں کون سی ایسی شے ہوگی جس میں ردھم نہ ہو، جس میں غنائیت نہ ہو، جس میں حرکت نہ ہو؟
رقص کی مختلف شکلیں ہیں، یہ خوشی کے موقع پر بھی کیا جاتا ہے اور وجدان کی کیفیت میں بھی۔
ہماری صوفی روایت اور تہذیب میں بھی رقص اپنے تمام تر دلفریب پہلوؤں کے ساتھ موجود ہے۔
اگر آپ کو کسی صوفی بزرگ کے عرس میں شریک ہونے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ جان گئے ہوں گے کہ ایسے مقام پر رقص کرنا عقیدت کا ایک ایسا اظہار ہوتا ہے جس میں رقص کرنے والا دنیا تو کیا اپنے آپ کو بھی فراموش کر دیتا ہے، یعنی رقص ایک طرح کی نفی ذات بھی ہے۔
شاعر تشنہ بریلوی کہتے ہیں۔۔
دنیا ہے آج تشنہ_ دیدار ناچیے
محفل کو چھوڑ کر سرِ بازار ناچیے
اُلٹا پڑا ہے مصر کا بازار ناچیے
یوسف ہے آج خود ہی خریدار ناچیے
یہ جو خود خریدار ہونے کی بات ہے یہی رقص کا اصل ہے، یعنی انسان اپنے آپ کو ایک ایسی دنیا میں لے چلے جہاں دوسروں کا وجود اور آپ کا وجد ہم معنی ہوجائیں۔
تبصرے (1) بند ہیں