• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

'میری نیند ہی میرے کام کا وقفہ ہے'

شائع April 26, 2014
۔ —. فائل فوٹو رائٹرز
۔ —. فائل فوٹو رائٹرز

انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والی اس بین الاقوامی تنظیم نے تارکین وطن ملازمین کے ساتھ امتیازی سلوک اور تشدد کے مسائل کو حل کرنے کے لیے قانون سازی پر زور دیا ہے۔

ایمنسٹی کی اس رپورٹ کا عنوان ہے ’’میری نیند ہی میرے کام کا وقفہ ہے: قطر میں غیر ملکی تارکین وطن گھریلو ملازمین کا استحصال‘‘۔

اس رپورٹ کے مطابق قطر میں گھروں میں کام کرنے والے غیرملکیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان تارکین وطن کے ساتھ ان کی بھرتی کے وقت ہی دھوکہ دہی کا معاملہ کیا جاتا ہے، اور ان کے بنیادی حقوق تلف کردیے جاتے ہیں اور ان کو سخت حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔

اس رپورٹ کی تیاری میں شامل ریسرچرز نے بتایا کہ ’’قطر میں گھروں کے اندر کام کرنے والی خواتین کو ان کے مالکان بری طرح تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، انہیں تھپڑ مارے جاتے ہیں، ان کو بالوں سے پکڑ کر کھینچا جاتا ہے، ان کی آنکھوں میں کوئی چیز ڈال دی جاتی ہے اور سیڑھیوں سے دھکا دے کر گرادیا جاتا ہے۔‘‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ کے مصنف جیمز لینچ نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ قطر میں گھروں کے اندر کام کرنے والی غیر ملکی خواتین اور دوسرے ملازمین پر لیبر قوانین سے خارج کردیا جاتا ہے۔

انہوں نے غیرملکی ورکروں پر لیبر قوانین کے عدم اطلاق کے اثرات میں سے ایک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’گھریلو ورکروں کو قانونی تحفظ حاصل نہیں ہوتا، یوں ان سے اپنی مرضی کے مطابق قانونی طور پر آٹھ گھنٹے سے کہیں زیادہ وقت تک کام لیا جاسکتا ہے۔‘‘

اس رپورٹ کے مطابق ’’ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جن گھریلو ملازم خواتین کے انٹرویوز کیے، ان میں سے چودہ خواتین نے بتایا کہ وہ ہفتے کے ساتوں دن کم از کم پندرہ گھنٹے تک کام کرتی ہیں۔ انہیں کوئی ہفتہ وار چھٹی نہیں ملتی۔ چنانچہ وہ ہفتے بھر میں اوسطاً ایک سو گھنٹے سے بھی زیادہ کام کرتی ہیں۔‘‘

ایمنسٹی کی رپورٹ میں باون گھریلو ملازم خواتین، سرکاری حکام، ان ممالک کے سفارتخانے کے حکام جہاں سے ان غیرملکی ملازمین کا تعلق ہے اور بھرتی کرنے والے اداروں کے حکام کے انٹرویوز شامل کیے گئے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے غیرملکی تارکین وطن کو قانونی تحفظ نہ دینے کے الزامات کی صحت سے قطر کی وزارت خارجہ نے انکار کیا ہے۔

قطر کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’’تاریکین وطن ملازموں کے اس طبقے کو لیبر قوانین سے خارج کردینے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انہیں قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے۔‘‘

وزارتِ خارجہ کے بیان میں زور دیا گیا ہے کہ ’’قطر کے قانون میں گھریلو ملازمین پر جسمانی اور جنسی تشدد کے مجرموں کے لیے سخت سزائیں موجود ہیں۔‘‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل جیمز لنچ اس قانون کے نفاذ کی یہ صورت بیان کرتے ہیں کہ ’’ناروا سلوک کا نشانہ بننے والی خواتین اپنے اسپانسر کے خلاف کیس دائر کرسکتی ہے اور یہ امر حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ ’’عام طور پر گھروں میں کام کرنے والی خواتین ورکروں کو گھر سے باہر جانے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی۔ ان کے موبائل فون تک زبردستی چھین لیے جاتے ہیں۔ ہمیں ایسی کوئی مثال نہیں مل سکی کہ کسی گھریلو ملازم نے ناروا سلوک پر سول عدالت میں اپنے مالک کے خلاف کوئی مقدمہ دائر کیا ہو۔‘‘

واضح رہے کہ قطر میں اس وقت تقریباً چوراسی ہزار غیرملکی خواتین گھروں میں ملازمت کررہی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا سے ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ قطر 2022ء میں عالمی فٹبال کپ کی میزبانی کرےگا۔ فٹبال عالمی کپ کی تیاریوں کے حوالے سے بھی قطر پر مزدوروں کے ساتھ بدسلوکی کیے جانے کے مختلف الزامات عائد کیے گئے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024