• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

!مار ڈالو، کاٹ ڈالو

شائع April 23, 2014
مجھے احساس ہوا کہ مجھے اس پر شدید غصہ آ رہا ہے اور میں اسے سچ بولنے پر چیخ چیخ کر ڈانٹنا چاہتا ہوں-
مجھے احساس ہوا کہ مجھے اس پر شدید غصہ آ رہا ہے اور میں اسے سچ بولنے پر چیخ چیخ کر ڈانٹنا چاہتا ہوں-

مجھے خبر ملی اور میں جیسے سکتے میں بیٹھا رہ گیا- اسے سینے پر گولی لگی تھی، وہ اسپتال میں تھا اور اس کی حالت نازک تھی-

میں اس سب کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا- خاص طور پر اس لئے کہ اس نے تو ہر وہ چیز کی تھی جو میں نے اس سے کہی تھی- وہ تو ایک مصالحت پسند شخص ہے جو کبھی میرے مشورے کے خلاف نہیں گیا-

اس نے ہر وہ چیز کی جو میں پہلے ہی سے کرتا آ رہا ہوں- اور اگر میں بچ گیا ہوں تو اسے بھی بچنا چاہئے-

میں فوری طور پر اسپتال کی طرف بھاگا جہاں وہ تھا- وہاں میں نے غصے میں بھرے، حیران و پریشان اور انجانے چہروں کا ایک سمندر فیسلٹی کے باہر جمع دیکھا-

میں نے اس میں سے غالب اکثریت کو پہچان لیا- وہ سب میری ہی طرح کے لوگ تھے، اسی انڈسٹری سے جہاں سے میں ہوں- وہ سب اسی رستے کے مسافر تھے جس پر میں کامیابی سے سفر کر چکا ہوں- اور یہاں اس موقع پر وہ سب بھی میری ہی طرح کنفیوز تھے-

ان میں سے ایک میری طرف دوڑا تو میں نے اس سے پوچھا "کیسا ہے وہ؟"

اس نے ہکلاتے ہوئے بتایا "ڈاکٹر زیادہ پرامید نہیں، اس کے بچنے کے امکانات کم ہی ہیں"-

بات کرتے کرتے وہ جیسے مرجھا سا گیا- وہ واضح طور پر دہلا ہوا تھا، اس کے ماتھے پر شکنوں کا جیسے جال سا بن گیا تھا اور اس کا پورا جسم پسینے میں شرابور تھا-

غصے کی ایک سرد لہر جسے میری ہڈیوں میں اتر گئی- مٹھیاں زور سے بھیچنے پر جیسے میرا چہرہ سرخ ہو گیا اور میں نے جسے دھاڑ کر کہا "وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے؟"

"اس نے جھوٹ کو جانے کیوں نہ دیا جیسا کہ ہم نے اتفاق کیا تھا کہ ہم یہی کریں گے"-

مجھے ذرا فاصلے سے آواز آئی "کوئی نہیں جانتا"-

ہم نے اپنے سر اٹھا کر اس شخص کی جانب دیکھا جو بولا تھا- اس کا چہرہ بھی میرے چہرے جیسا تھا- وہ تیزی سے پھنکارتا ہوا ہماری جانب لپکا- اس نے ہماری آنکھوں میں ایک عجیب اور بے نام سے ویرانی کے ساتھ دیکھا-

اس نے سرگوشی کے انداز میں کہا "میں نے اسے زور سے بولتے دیکھا تھا- میں نے اسے خبردار بھی کیا تھا کہ آئندہ ایسا نہ کرے لیکن اس نے ایک نہ سنی"-

پہلا شخص بھی مضطربانہ لیکن محتاط انداز میں بولا "میں بھی اس کا گواہ ہوں- ایک دم سے ہی لاپرواہ ہو گیا تھا- وہ کسی وارننگ کو سننے والا نہیں تھا"-

میں نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں تو پر ہجوم ہال میں درجنوں پریشان لوگ نظر آئے- ڈاکٹر اور دوسرا میڈیکل عملہ لوگوں سے جانے کے لئے کہ رہا تھا پر کامیابی نہیں ہو رہی تھی-

میں بڑبڑایا "اس سب کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے- یہ گولی رکنے والی نہیں- ایک دفعہ اگر فائر ہو جائے تو جب تک یہ اپنے تمام ٹارگٹس کو ختم نہیں کر دیتی اسے روکنا مشکل ہے"-

ان سب نے مجھے خوفزدہ انداز میں دیکھا- ان کی بے چین آنکھیں ادھر ادھر اس گولی کو دیکھ رہی تھیں جو کسی بھی وقت کسی بھی جانب سے آ سکتی تھی-

دوسرے شخص نے حیرانی کا اظہار کیا "ایک گولی بھلا کیسے اتنی زیادہ بار مار سکتی ہے --- کیسے؟

میں نے خاموشی سے بتایا "وہ گولی خاص طور پر ہمارے لئے بنائی گئی ہے، جو آواز اٹھاتے ہیں، لکھتے ہیں اور تبدیلی چاہتے ہیں- فوری طور پر یہ احساس ہونے کے بعد کہ انہیں ایک راز کے بارے میں بتا دیا ہے مجھے جھرجھری سی آ گئی-

یہ جاننے کے بعد، کہ میں بھی، اپنے شدید زخمی کولیگ ہی کی طرح، وہ سب کچھ کئی موقعوں پر کر چکا ہوں جو میرے کولیگ نے چند گھنٹوں پہلے کیا، میری ریڑھ کی ہڈی میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی-

میرے ارد گرد ہجوم میری جانب جھک سا گیا تا کہ وہ اس پراسرار گولی کے بارے میں اور جان سکیں لیکن میں نے بند رکھی-

ایک کانوں کو پھاڑ دینے والے سناٹے نے جیسے ہمیں گھیر لیا تھا حتیٰ کہ انٹینسیو کیئر یونٹ سے ایک نرس تیزی سے چلتی ہوئی باہر آئی اور میرا نام پکارا-

میں نے اس کی جانب قدم بڑھائے تو ہر کوئی مجھے دیکھ رہا تھا- نرس بولی "وہ تم سے ملنا چاہتا ہے- اس کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے"-

میں نے اس کی جانب قدم بڑھائے تو ہر کوئی مجھے دیکھ رہا تھا- نرس بولی "وہ تم سے ملنا چاہتا ہے- اس کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے"-

میں تیزی سے اندر داخل ہوا- اس نے اپنی اکھڑتی سانسوں کو مشکل سے قابو کرتے ہوئے اپنا سر میری جانب موڑا-

میں اس کے بیڈ کے پاس گیا اور اس کا ہاتھ تھام لیا- مجھے محسوس ہوا کہ اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں ٹھنڈا پڑتا جا رہا ہے-

مجھے ایسا لگا جیسے میرے حلق میں کوئی گرہ پڑ رہی ہو تو مجھے احساس ہوا کہ مجھے اس پر شدید غصہ آ رہا ہے اور میں اسے سچ بولنے پر چیخ چیخ کر ڈانٹنا چاہتا ہوں- میں نے اس سے کہا تھا کہ کی بورڈ کو سوشل میڈیا پر تفریح کیلئے استعمال کرو مگر اس نے تو اسے استدلال کے لئے استعمال کیا- میں اس بات پر اس کی ملامت کرنا چاہتا تھا-

میں اس سے صرف یہی کہہ سکا "تم بہتر ہو رہے ہو"- ایک ہلکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر آ کر جیسے یکدم ختم ہو گئی- اس نے ایک لاپرواہ انداز کو برقرار رکھتے ہوئے جواب دیا "میں جلد ہی مرنے والا ہوں- میں صرف تمہیں خبردار کرنا چاہتا تھا کہ گولی اب تمہاری طرف آ رہی ہے"- میں نے اپنا سر ہلایا تاکہ اسے بتا سکوں کہ میں یہ بات جانتا ہوں-

اس کے الفاظ نے مجھے شش و پنج میں مبتلا کر دیا- اس نے مجھے قریب ہونے کا اشارہ کیا- میں نے اس کے لرزتے منہ کے پاس اپنا کان کیا تو وہ بولا-

"تم سچ بولنے پر میری ملامت نہیں کرو گے"-

میں نے جواب دیا "نہیں، نہیں کروں گا- لیکن کیا میں تم سے ایک بات پوچھ سکتا ہوں؟"

اس نے سر ہلایا-

میں نے پوچھا "تم نے یہ سب کیوں کیا؟ چیزیں جیسی ہیں کیا تم اس سے خوش نہیں تھے، کیا تم اپنی زندگی سے خوش نہیں تھے؟"

اس کی سانسیں اکھڑنے لگیں "میں یقیناً خوش تھا، لیکن وہ میں نہیں تھا جس نے یہ کیا- وہ میں نہیں تھا جس نے سچ بولا- وہ کوئی اور تھا-

میں نے دیکھا کہ وہ اپنے لرزتے ہاتھوں سے اپنے جسم کی طرف اشارہ کر رہا ہے- اس نے کہا "وہ کوئی اور تھا -- میرے اندر"-

اس نے اپنی آخری سانس لی اور اس کا سر ایک جانب لڑھک گیا اور میں پیچھے ہٹ گیا-

ڈاکٹر اور دوسرا عملہ فوری طور پر کمرے میں آ گئے اور میرے ارد گرد چیختی مشینوں کا معائینہ کرنے لگے-

جس لمحے انہوں نے اسے مردہ قرار دیا میں نے دیکھا کہ کوئی اس کے جسم سے اچھل کر نکلا ہے اور میرے اندر سرایت کر گیا ہے-

مجھے اپنے اندر سے آواز آئی "میں کوئی ہوں"-

میں نے ایک لمحے کا وقفہ لیا اور پھر میں نے کہا "کیا تم اس گولی کا سامنا کرنے کو تیار ہو جو تمہیں ڈھونڈ رہی ہے؟"

مجھے ایک حیران کن اطمینان محسوس ہوا اور میں کمرے سے باہر نکل گیا-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: شعیب بن جمیل

حسن منصور
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024