• KHI: Zuhr 12:38pm Asr 5:02pm
  • LHR: Zuhr 12:08pm Asr 4:33pm
  • ISB: Zuhr 12:13pm Asr 4:38pm
  • KHI: Zuhr 12:38pm Asr 5:02pm
  • LHR: Zuhr 12:08pm Asr 4:33pm
  • ISB: Zuhr 12:13pm Asr 4:38pm

ملکۂ غزل اقبال بانو کی یادیں

شائع April 21, 2014
غزل گائیک اقبال بانو۔- بشکریہ فوٹو گریب
غزل گائیک اقبال بانو۔- بشکریہ فوٹو گریب

ملکۂ غزل اقبال بانو کو پرستاروں سے بچھڑے پانچ برس بیت گئے لیکن اُن کی گائی ہوئی غزلیں آج بھی سننے والوں کے کانوں میں رس گھول رہی ہیں۔

تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے جیسے متعدد معروف نغموں کو اپنی آواز دینے والی شہرت یافتہ گلوکارہ 1935 کو دہلی میں پیدا ہوئیں۔

اقبال بانو نے دہلی میں کلاسیکی موسیقی کی تعلیم حاصل کی اور آل انڈیا ریڈیو کے دہلی سٹیشن کے ذریعے اپنے کریئر کا آغاز کیا۔

سنہ 1950 کی دہائی میں اقبال بانو نے پاکستان کی نوزائیدہ فلم انڈسٹری میں ایک پلے بیک سنگر کے طور پر اپنی جگہ بنالی تھی۔

گمنام، قاتل، انتقام، سرفروش، عشقِ لیلیٰ، اور ناگن میں ان کے پس پردہ گیت اور غزلیں پاکستانی فلم انڈسٹری کا ایک اہم سنگ میل تصور کی جاتی ہیں۔

خصوصاً فلم قاتل کیلئے گائی ہوئی ان کی غزل تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے اور الفت کی نئی منزل کو چلا نے پاکستان کیساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی انتہائی مقبولیت حاصل کی۔

لیکن ان کا طبعی رجحان ہلکی پھلکی موسیقی کی بجائے نیم کلاسیکی گلوکاری کی طرف رہا۔

ٹھمری اور دادرے کے ساتھ ساتھ انھوں نے غزل کو بھی اپنے مخصوص نیم کلاسیکی انداز میں گایا۔

فیض احمد فیض کے کلام کو گانے کے حوالے سے مہدی حسن کے بعد سب سے اہم نام اقبال بانو کا ہے۔

اقبال بانو نے یوں تو ہر طرح کے گیت گائے لیکن ان کی شہرت کا سبب غزلیں اور نظموں کی شاندار گائیکی بنی۔

وہ نہ صرف لفظوں کو ان کی بھرپور معنویت کے ساتھ ادا کرتی تھیں بلکہ ان کے اندر رچی موسیقیت سے بھی بہ خوبی واقف تھیں۔

اسی طرح انہوں نے ایک مشہور غزل 'داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے' کو بھی اپنی دلفریب گائیکی سے ایک نیا رخ بخشا۔

مگر ضیاءالحق کے آخری دِنوں میں فیض کی نظم 'لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے' اقبال بانو کا ٹریڈ مارک بن گئی اور ہر محفل میں اس کی فرمائش کی جاتی تھی، یہ سلسلہ ان کی وفات سے چند برس پہلے تک جاری رہا۔

اردو کے علاوہ انھوں نے فارسی غزلیں بھی گائیں جو کہ ایران اور افغانستان میں بہت مقبول ہوئیں۔

انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے 1990 میں صدارتی ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔

وہ اکیس اپریل 2009 کو مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئی تھیں۔

موسیقی کے ماہرین اقبال بانو کو انمول تحفہ کہتے ہیں، جو قدرت صدیوں میں کسی قوم کو عطا کرتی ہے۔

آج وہ ہم میں نہیں مگر منفرد انداز میں گائی گئی غزلوں کی بناء پر وہ آج بھی اپنے پرستاروں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 26 مارچ 2025
کارٹون : 25 مارچ 2025