معروف صحافی حامد میر قاتلانہ حملے میں زخمی
کراچی: سینئر صحافی اور ٹیلی ویژن کے مایہ ناز اینکر پرسن حامد میر قاتلانہ حملے میں زخمی ہو گئے ہیں جہاں ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔
حامد میر ایئر پورٹ سے اپنے دفتر کی جانب جا رہے تھے کہ ناتھا خان پل سے قبل دو موٹر سائیکلوں پر سوار نامعلوم افراد نے ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔
رپورٹس کے مطابق حامد میر کو ہوش آ گیا ہے اور ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔
کراچی پولیس کے چیف شاہد حیات کے مطابق سینئر صحافی کو تین گولیاں لگیں اور اب ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
وزیر اطلاعات سندھ نے حامد میر پر حملے میں ملوث افراد کی نشاندہی کرنے والے کے لیے 50 لاکھ روپے نقد انعام کا اعلان کیا ہے۔
حامد میر کے دوستوں اور ساتھیوں کے مطابق سینئر صحافی نے کہا تھا کہ اگر ان پر حملہ ہوا تو اس کے ذمے دار پاکستان انٹیلی جنس ایجنسی اور اس کے لیفٹننٹ ڈائریکٹر جنرل ظہیر الاسلام ہوں گے۔
دوسری جانب آئی ایس پی آر کے ترجمان نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے انکوائری کا مطالبہ کیا ہے تاکہ حملے کے پیچھے حقائق کو منظر عام پر لایا جاسکے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ کے خلاف بغیر کسی ثبوت کے الزام تراشی کرنا قابل مذمت اور گمراہ کن ہے۔
صدر پاکستان ممنون حسین نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور پی پی کی رہنما شیری رحمان نے بھی واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی پرزور مذمت کی ہے۔
ابھی تک کسی بھی گروپ نے حامد میر پر حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی۔
حامد میر پر یہ پہلی مرتبہ حملہ نہیں کیا گیا، اس سے قبل 2012 میں بھی حملے کی کوشش کی گئی تھی جب اسلام آباد میں ان کی گاڑی میں بم رکھ دیا گیا تھا تاہم خوش قسمتی سے بم ڈسپوزل اسکواڈ نے موقع پر پہنچ کر بم کو ناکارہ بنا دیا تھا۔
تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) نے اس حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ سینئر صحافی کو ان کے سیکولر نظریات کی بنا پر نشانہ بنایا گیا۔
گزشتہ ماہ لاور میں مشہور کالم نگار اور اینکر رضا رومی وک نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں ان کا ڈرائیور ہلاک ہو گیا تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے پاکستان کو صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک قراردیا ہے۔
ایک میڈیا واچ ڈاگ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ملک میں سات صحافیوں کو ہلاک کردیا گیا تھا۔
تبصرے (5) بند ہیں