• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

میڈیا کے چٹخارے

شائع April 16, 2014
پاکستانی میڈیا کو جتنی زیادہ آزادی ہے اسکی اپروچ اتنی ہی جانبدارانہ ہے، عوام کی پولرائزیشن میں میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے  --  السٹریشن -- خدا بخش ابڑو
پاکستانی میڈیا کو جتنی زیادہ آزادی ہے اسکی اپروچ اتنی ہی جانبدارانہ ہے، عوام کی پولرائزیشن میں میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے -- السٹریشن -- خدا بخش ابڑو
یہ عوام کو بیچ رہے ہیں انفوٹینمنٹ (Info-tainment ) اور وہ بھی "ٹارگیٹڈ انفوٹینمنٹ"- آپ کو یہی محسوس ہوگا کہ آپ کو حالات حاضرہ سے آگاہی حاصل ہو رہی ہے، ملک میں جو کچھ چل رہا ہے آپ اس سے پوری طرح واقف ہیں- ٹیلی ویژن معلومات عامہ سے متعلق آپ کی تمام ضروریات پوری کر رہا ہے- کیا واقعی میں ایسا ہے؟  --  السٹریشن -- خدا بخش ابڑو
یہ عوام کو بیچ رہے ہیں انفوٹینمنٹ (Info-tainment ) اور وہ بھی "ٹارگیٹڈ انفوٹینمنٹ"- آپ کو یہی محسوس ہوگا کہ آپ کو حالات حاضرہ سے آگاہی حاصل ہو رہی ہے، ملک میں جو کچھ چل رہا ہے آپ اس سے پوری طرح واقف ہیں- ٹیلی ویژن معلومات عامہ سے متعلق آپ کی تمام ضروریات پوری کر رہا ہے- کیا واقعی میں ایسا ہے؟ -- السٹریشن -- خدا بخش ابڑو

یہ اس بلاگ کا پہلا حصّہ ہے


بڑے سنہرے دن تھے وہ جب ٹیلی ویژنز پر صرف پی ٹی وی کا راج تھا- سہہ پہر سے نشریات کا آغاز ہوتا، شام سے رات آٹھ بجے تک بچوں کے لئے پروگرامز، موسیقی کے پروگرام، انہی کے بیچ مختصر خبریں، آٹھ بجے شب ڈرامہ نشر ہوتا، ٹھیک نو بجے دن بھر کی خبریں، اس کے بعد حالات حاضرہ کا پروگرام، ویک اینڈز پر فلمیں یا ٹیلی ڈرامے-

زندگی بڑی سادہ اور پرسکون تھی- نہ ٹاک شوز کی جھک جھک، نہ کنزیومرازم کا وبال- بعض شوقین گھروں کے اینٹینا پر بوسٹر لگا کر انڈین چینل 'دوردرشن' دیکھنے کی کوشش کرتے تھے، جس میں کامیابی کبھی ہوتی کبھی نہ ہوتی، مہینے میں ایک دو بار سنیما کا بھی چکر لگ جاتا.

ان تمام چیزوں کے بیچ ایک ٹھہراؤ تھا، لوگوں میں برداشت کا مادہ زیادہ تھا اور آپس میں نفرتیں کم، ایک دوسرے کے لئے کافی وقت بچتا تھا-

پھر سیٹلائٹ چینلز کا دور آیا، کیبل آگیا ٹیلی ویژن پر ملکی اور غیرملکی چینلوں کی بھر مار ہوگئی- ریٹنگ کی دوڑ شروع ہوگئی، چینلز پر نت نۓ پروگرام آنے لگے- آج ہر چینل اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکّر میں لگا ہے-

اس رسہ کشی کے بیچ تمام چینل ایک ہی دائرے میں گھومتے نظر آتے ہیں ڈرامے، اشتہارات، ٹاک شوز، اشتہارات خبریں، اشتہارات پھر گھوم کر وہی سلسلہ - کبھی کبھی تو یہ فرق کرنا ہی مشکل ہوجاتا ہے کہ ڈرامہ کونسا ہے، اشتہار کونسا اور ٹاک شو کونسا- صبح سے شام تک یہی بھیڑ چال جاری رہتی ہے- عام عوام ٹیلی ویژن کے آگے زومبیوں کی طرح بیٹھی جو کچھ سکرین پر چل رہا ہوتا ہے تکتی رہتی ہے- ٹی وی پر کیا دکھایا جا رہا ہے اس حوالے سے لوگوں کا کوئی خاص ذوق یا معیار نظر نہیں آتا-

آخر اس بھیڑ چال کے بیچ یہ ٹی وی چینلز بیچ کیا رہے ہیں؟

جناب یہ عوام کو بیچ رہے ہیں انفوٹینمنٹ (Info-tainment ) اور وہ بھی "ٹارگیٹڈ انفوٹینمنٹ"- آپ کو یہی محسوس ہوگا کہ آپ کو حالات حاضرہ سے آگاہی حاصل ہو رہی ہے، ملک میں جو کچھ چل رہا ہے آپ اس سے پوری طرح واقف ہیں- ٹیلی ویژن معلومات عامہ سے متعلق آپ کی تمام ضروریات پوری کر رہا ہے- کیا واقعی میں ایسا ہے؟

ذرا چینلز کے معمولات پر غور کریں تو صبح کے وقت آپ کو گھریلو خواتین کے لئے مخصوص پروگرام نظر آئیں گے جس میں ہسٹیریائی قہقہے لگاتی ہوئی ڈیزائنر ڈریسز میں ملبوس خاتون میزبان وزن کم کرنے، رنگ گورا کرنے یا گرتے ہوۓ بالوں کو روکنے کے نسخے بتاتی نظر آئیں گی.

ان شوز کو مزید مستند authentic بنانے کے لئے ڈاکٹر صاحبان یا بیوٹی اسپیشلسٹ کی مدد لی جاتی ہے. سب کی تان ایک ہی بات پر آکر ٹوٹتی ہے کہ جی آپ ہماری پروڈکٹ استعمال کریں!

اگلے چینل پر جائیں تو آپ کو زرق برق کپڑوں میں ادھیڑعمر خواتین گڑیا گڈے کی شادی مناتی نظر آئیں گی یا لوگوں کے گھریلو مسائل نمٹاتی نظر آئیں گی یعنی جو کام پرانے وقتوں میں محلے کی بڑی بوڑھیاں کرتی تھیں اب وہ یہ خواتین ٹی وی پر آکر کرتی ہیں-

مزید آگے چلیں اور آپ خود کو مذہبی پروگراموں کے بیچ پائیں گے جہاں آپ کے تمام مسائل کا حل استخاروں اور وظائف کے ذریعے نکالنے کا طریقہ بتایا جا رہا ہوتا ہے یعنی 'مذہبی' پروگرامز کے نام پر عوام کو توہمات کا عادی بنایا جارہا ہے-

اس کے بعد باری آتی ہے کوکنگ چینلز کی، یہاں ہر ایرا غیرا خود کو شیف کہلاتا دکھائی دیتا / دیتی ہے اور سب کا ایک ہی دعویٰ ہوتا ہے کہ ان سے اچھا اور کفایتی کھانا کوئی اور بنا ہی نہیں سکتا- گھریلو خواتین ایسے پروگرامز بہت شوق سے دیکھتی ہیں-

مورننگ شوز کے بعد ڈراموں کی قطار لگ جاتی ہے، ملکی و غیر ملکی ڈرامے سارا دن چلتے رہتے ہیں (پاکستانی ڈراموں کا کیا معیار ہے اس پر ہم پھر کبھی بات کریں گے)-

شام ہوتے ہی مرد حضرات گھر آتے ہیں اور ٹی وی پر بھانت بھانت کے ٹاک شوز شروع ہوجاتے ہیں جن میں وینا ملک اور میرا کے سکینڈلز سے لے کر رٹائرڈ جنرل پرویز مشرّف تک، سب پر بے تکان بحث کی جاتی ہے. تقریباً ہر چینل پر ایک ہی موضوع چل رہا ہوتا ہے-

تمام چینلز اپنی استطاعت کے مطابق مہمان بلاتے ہیں اور پھر 'کہانی گھر گھر کی' یا 'ساس بھی کبھی بہو تھی' قسم کے تماشے شروع ہوجاتے ہیں-

یہ تجزیہ کار، تازہ ترین واقعات کو کرید کرید کر عوام پر نۓ نۓ انکشافات کرتے ہیں- الزام در الزام کا سلسلہ چلتا ہے- دوسرے دن دفتروں، دکانوں، پارکوں اور سوشل میڈیا میں انہی موضوعات پر عوام گرما گرم بحث کرتی نظر آتی ہے-

دراصل جنوب ایشیائی پسمنظر ہونے کی بنا پر ہماری عوام کو چٹخاروں کی عادت ہے اور الیکٹرانک میڈیا ہمیں مرچ مصالحہ ڈال کر چٹخارے دار چاٹ پیش کرتا ہے اور عوام بغیر کوئی سوال کیے وہ مصالحہ بھری چاٹ قبول کر لیتی ہے- اس کے بعد جو بدہضمی ہوتی ہے اس کے نتائج تو ہم آۓ دن دیکھ ہی رہے ہیں-

چینل چلانے کے لئے اس کے علاوہ اور بھی حربے استعمال کیے جاتے ہیں، ان میں سے ایک 'اسٹنگ آپریشن' ہیں- کچھ عرصے سے یہ 'اسٹنگ آپریشن' مستقل رجحان بن گۓ ہیں- کیمرا مین اور چند معتبر حضرات کو ساتھ لے کر یہ 'سماج سدھارو' خدائی فوجدار کہیں بھی گھس جاتے ہیں، کبھی پارکوں میں بیٹھے جوڑوں کے پیچھے بھاگتے ہیں تو کبھی خواجہ سراؤں کے محلے میں آدھی رات کو آدھمکتے ہیں-

تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ یہ سب 'معاشرے کی بھلائی' کے لئے کیا جا رہا ہے- ظاہر ہے ایسے 'چٹخارے دار' پروگرام ہمارے 'نیک صالح' ویورز بہت شوق سے دیکھتے ہیں-

لیکن کیا واقعی یہ پروگرام ہمیں کوئی فائدہ پنہنچاتے ہیں؟

کبھی آپ نے غور کیا کہ ان ٹی وی چینلز پر شاذ و نادر ہی بچوں کے لئے کوئی پروگرام پیش کیا جاتا ہے، نتیجتاً بچے غیر ملکی کارٹون چینلز یا پھر بھونڈے مزاح والے 'بلبلے'، 'ہلکا نہ لو' یا 'قدوسی صاحب کی بیوہ' جیسے ڈراموں پر اکتفا کرتے ہیں-

ذرا مزید دھیان دیں تو شاید آپ جان پائیں کہ ان چینلز پر سائنسی تحقیقات یا بین الاقوامی صورتحال پر بھی کوئی پروگرام پیش نہیں کیا جاتا- پچھلے دنوں ہمارے دو بڑے پڑوسی ممالک ہندوستان اور افغانستان میں عام انتخابات منعقد ہوۓ، دونوں پر سواۓ ہائی لائٹس کے کسی قسم کی تفصیلی رپورٹس پیش نہیں کی گئیں حالانکہ دونوں کے داخلی معاملات میں ہمارا ملک ہمیشہ سے دلچسپی لیتا رہا ہے اس کے باوجود وہاں ہونے والے ایک بڑے جمہوری عمل کو ہمارے میڈیا نے نظرانداز کر دیا-

چلیں یہ تو ایک غیر ملک کی بات تھی، ہمارے اپنے ملک میں ہونے والے بہت سے ایونٹس میڈیا نہایت آرام سے نظر انداز کردیتا ہے، بلوچ لانگ مارچ کی ہی مثال لے لیجیے، ہم کتنا جانتے ہیں اس کے بارے میں؟ کتنے شرکاء تھے، انکی یہ جدوجہد کہاں تک پنہچی؟ ذرا بتائیں کتنا ایئر ٹائم اس خبر کو دیا گیا؟

چلیں یہ بھی چھوڑیں، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ہمارے وزیر اعظم جو کہ اتفاق سے ملک کے وزیرخارجہ بھی ہیں اور مسلسل بیرون ملک دوروں میں مصروف رہتے ہیں، آخر یہ غیر ملکی دورے کس لئے کیے جا رہے ہیں؟ ان کی نوعیت کیا ہے؟ ان سے کیا نتائج برآمد ہو رہے ہیں؟ بیرون ملک ہمارے وزیر اعظم کیا معاہدے کرتے پھر رہے ہیں؟

ہم ان سب سے بالکل ناواقف ہیں کیونکہ میڈیا ان حوالوں سے کوئی رپورٹ پیش ہی نہیں کرتا- اور رپورٹ اس لئے پیش نہیں کی جاتی کیوں کہ اس میں وہ چٹخارہ نہیں ہے جس سے ریٹنگ بڑھے-

ذرا یاد کر کے بتائیں اب تک ملکی چینلز پر آپ نے کتنے سائنسی یا تاریخ سے متعلق کتنے تحقیقاتی پروگرام دیکھے ہیں؟

یادداشت کی زمین پر خیال کے گھوڑے دوڑا کر دیکھیں تو آپ کو یہ زمین یکسر بنجر ملے گی کیونکہ اکثریت پاکستانی چینلز کی سوئی صرف ایک ہی ریکارڈ پر اٹکی ہوئی ہے- یہ کنویں کے مینڈک کی طرح باہر آنے کو تیار ہی نہیں-

موجودہ وقت کے کیا تقاضے ہیں، ان کے آس پاس دنیا کس تیزی سے بدل رہی ہے میڈیا کو اس سے کوئی سروکار نہیں- یہ اپنے ہی دائرے میں گھومے جارہے ہیں اور ساتھ ہی عوام کو بھی گھما رہے ہیں- ہماری عوام کو بھی اپنے زخم کرید کرید کر اس سے رستا خون دیکھنے کی عادت ہے اور میڈیا اس بات سے اچھی طرح واقف ہے- چناچہ ایک ہی موضوع، ایک ہی بحث کو بار بار، بار بار، بار بار ……….. گھما پھرا کر مختلف زاویوں سے پیش کیا جاتا ہے اور عوام اسے 'معلومات عامہ' سمجھتی ہے-

بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی، پاکستانی میڈیا کو جتنی زیادہ آزادی میسر ہے اس کی اپروچ اتنی ہی جانبدارانہ ہے- یہی وجہ ہے کہ ملک کے داخلی معاملات پر عوام کو پولرائز کرنے میں میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے-

بعض دانشور حضرات ملک میں نفرت انگیز جذبات ابھارنے کا مورد الزام مذہبی اداروں کو ٹھہراتے ہیں لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس جرم میں الیکٹرانک میڈیا بھی برابر کا شریک ہے- یہ ایسے عناصر کی تشہیر اور نمائندگی کرتا نظر آتا ہے جو ملکی سالمیت کے لئے خطرہ ہیں-

میڈیا کے اس عمل نے ملک دشمن عناصر کو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور اپنے ناپاک کرتوت جائز ثابت کرنے کا موقع دیا ہے-

ہماری عوام خصوصاً نوجوان نسل کو سیاسی اکھاڑوں کی نہیں بلکہ ایک صحتمند ماحول کی ضرورت ہے جہاں انکی بہتر ذہنی، اخلاقی اور تعلیمی نشونما ہوسکے- اب سوال یہ ہے کہ آخر کب ایک ترقی پذیر ملک کا الیکٹرانک میڈیا، اپنے کردار کو پہچان پاۓ گا- کیا کبھی ریٹنگ کی دوڑ سے باہر نکل کر یہ چینلز صحیح معنوں میں عوام کو معیاری تفریحی اور معلوماتی پروگرام فراہم کریں گے؟ یا یہ منکی بزنس یوں ہی چلتا رہے گا؟

جاری ہے...

ناہید اسرار

ناہید اسرار فری لانس رائیٹر ہیں۔ انہیں حالات حاضرہ پر اظہارخیال کا شوق ہے، اور اس کے لیے کی بورڈ کا استعمال بہتر سمجھتی ہیں- وہ ٹوئٹر پر deehanrarsi@ کے نام سے لکھتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024