• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

قاعدے اور قانون کی ضرورت

شائع April 18, 2014
پریس کے لئے کوئی ریگولیٹری نظام اس وقت تک قابل عمل نہیں ہو سکتا جب تک پریس خود اسے قبول نہ کرے- اے ایف پی فائل فوٹو۔۔۔۔
پریس کے لئے کوئی ریگولیٹری نظام اس وقت تک قابل عمل نہیں ہو سکتا جب تک پریس خود اسے قبول نہ کرے- اے ایف پی فائل فوٹو۔۔۔۔

اصولی طور پر کوئی وجہ نہیں کہ صحافیوں کی بھی ایسی انضباطی باڈی نہ ہو جیسے وکیلوں کی بار کونسل ہوتی ہے یا ڈاکٹروں کی میڈیکل کونسل- تاہم، پریس کے معاملے میں، اس بات کا بھی امکان ہے کہ سخت قوائد و ضوابط سے 'لوگوں کی آواز' کہلانے والے اس حساس میڈیم کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں- دوسری جانب پریس بھی کسی دوسرے پیشے کی طرح زیادتی کر سکتا ہے-

برطانیہ میں ایک خود مختار پریس واچ ڈاگ کے قیام کے لئے، سیلف ریگولیشن پر BBC ٹائپ رائل چارٹر کی اشاعت پر سامنے والے مسائل سے اہم سبق ملتے ہیں- وہ اسکینڈلز جن سے ملک کا پریس دہل کر رہ گیا، انتہائی سنگین نوعیت کے تھے- روپرٹ مرڈوک کے کثیر پیمانے پر سرکولیٹ ہونے والے "نیوز آف دی ورلڈ" کو بند ہونا پڑا- اس کے ایڈیٹر اور نیوز انٹرنیشنل کی چیف ایگزیکٹو، ریبیکا بروکس پر سنگین جرائم کا مقدمہ چل رہا ہے-

مقدمے کی سماعت کے دوران نیوز روم کے طریقوں کے انکشاف نے بائنڈنگ قوانین کے کیس کو مزید مظبوط کیا ہے- پریس کونسل اور اس کا جان نشیں، پریس کمپلینٹس کمیشن دونوں ہی نااہل ثابت ہوئے ہیں-

قومی سطح پر اٹھنے والے اشتعال اور ہنگامے کے نتیجے میں لارڈ برائن لیونسن کی سربراہی میں پریس کے کلچر، طریقوں اور اخلاقیات کے بارے میں ایک انکوائری کا قیام عمل میں آیا-

نومبر 2012 میں شائع ہونے والی ان کی رپورٹ میں ایک خودمختار بورڈ کی تحت ایک آزاد اور خودمختار سیلف ریگولیٹری باڈی کی سفارش کی گئی جس کے بورڈ کے سربراہ کا تقرر ایک آزاد اپائنٹمنٹ پینل کرے- یہ بورڈ زیادہ تر آزاد پریس پر مشتمل ہو-

بورڈ میں رکنیت والے ہر ایک کے لازمی ہو کہ اس کے پاس شکایات سے نبٹنے کا ایک مناسب اور تیز طریقہ کار موجود ہو- بورڈ کے پاس یہ اختیار اور طاقت ہو کہ وہ سٹینڈرڈ کوڈ کی خلاف ورزی کے بارے میں شکایات سن کر فیصلہ کر سکے- یہ ریگولیٹری باڈی ان whistle-blowers کے لئے بھی ایک ہاٹ لائن کا کام کرے جنہیں لگتا ہے کہ انہیں کوڈ کے خلاف کام کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے-

اس رپورٹ کے خیر مقدم احتجاج اور اس سمجھدار کوشش کو برباد کرنے کی دھمکیوں کے ساتھ کیا گیا- دی اکنامسٹ نے اسے "اوسط درجے، چالاکی اور خطرے کا مکسچر" قرار دیا- ایک ہفتے کے اندر، اس کے اور دوسرے اخباروں کے ایڈیٹرز نے آپس میں مل کر ایک کوڈ آف کنڈکٹ یا ضابطہ اخلاق عمل پر اتفاق کر لیا جسے قانونی حمایت حاصل نہیں تھی-

وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایک اور برائٹ آئیڈیا دیا- ان کا کہنا تھا کہ نیا پریس واچ ڈاگ، پارلیمنٹ کے بجائے ایک رائل چارٹر کے تحت قائم ہونا چاہئے- دسمبر میں انہوں نے تمام قومی اخباروں کے ایڈیٹرز سے لارڈ لیونسن کی سفارشات کا متبادل پیش کرنے کے لئے کہا اور ساتھ ہی انہوں نے خبردار بھی کر دیا کہ اگر وہ ایسا نہ سکے تو انہیں اس حوالے سے قانون لانا پڑے گا-

چند ہی گھنٹوں میں ایڈیٹرز کی جانب سے اعلان کر دیا گیا کہ وہ ایک آزاد اور خود مختار ریگولیٹر کے قیام کے حوالے سے ایک وسیع تر فریم ورک پر متفق ہو چکے ہیں جو کہ لارڈ لیونسن کی 47 میں سے 40 سفارشات پر پورا اترتا ہے-

تیس اکتوبر، 2013 کو رائل چارٹر پر پرائیوی کونسل (PRIVY COUNCIL) نے بھی مہر لگا دی- پی سی سی کی جگہ نیا ریگولیٹر (چارٹر کے تحت قائم ہونے والا ریگولیٹر) لے لے گا، جس کے بورڈ کا چناؤ آزاد اور پریس انڈسٹری کے ممبران کریں گے- ایک نیا صنعتی واچ ڈاگ اپنی آزادی کو یقینی بنانے کے چارٹر ریگولیٹر کی نگرانی کرے گا-

چارٹر ریگولیٹر ایک نیا اسٹینڈرڈز کوڈ مرتب کرے گا جس میں آزادی تقریر کی اہمیت اور اخلاقیات، پرائیویسی اور درستگی کے معیار کے پہلوؤں کو مدنظر رکھا جائے گا- ریگولیٹر کو اس بات کا بھی اختیار ہو گا کہ وہ خلاف ورزی پر پبلیشر کے ٹرن اور کے ایک فیصد تک جرمانہ عائد کر سکے-

یہ libel suits کے مقابلے میں ایک سستا متبادل فراہم کرے گا جس میں نقصان کے ازالے کے لئے بھاری رقوم دی جائیں گی- اس نئے ریگولیٹری نظام سے باہر رہنے والے پبلشرز کو سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اگر ان کے خلاف قانونی کاروائی ہوئی- اکتیس اکتوبر، 2013 تک کسی بھی قومی اخبار نے نئے نظام کو قبول نہیں کیا-

زیادہ تر میڈیا مالکان نے چارٹر کو مسترد کر دیا تو لٹریچر، آرٹ، میڈیا اور سیاست سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات نے اسے قبول کرنے کیلئے اپیل شائع کی-

سیکھنے والے سبق واضح ہیں- پہلا تو یہ کہ پریس کے لئے کوئی ریگولیٹری نظام اس وقت تک قابل عمل نہیں ہو سکتا جب تک پریس خود اسے قبول نہ کرے جس میں مالکان اور صحافی دونوں شامل ہیں-

رائے عامہ جب تک اس کا مطالبہ نہ کرے، اس کی حمایت نہیں آئے گی- بڑی سیاسی جماعتیں، رپورٹ کے حوالے سے تقسیم ہیں- اور آخر میں میڈیا کو خود بھی اپنی صفوں میں جاری زیادتیوں کو ماننا اور احتساب اور شفافیت کے اصولوں کا قبول کرنا ہو گا-

پریس کونسل آف انڈیا ایک نظرانداز غیر متعلقہ چیز بن کر رہ گئی ہے کیونکہ اس کا ڈھانچہ ہی تمام اصولوں کے منافی ہے- اسے پریس کونسل ایکٹ 1978 کے تحت، بنا پریس سے مشاورت کئے اس طرح قائم کیا گیا تھا کہ تمام ایڈیٹرز کو اس میں سے خارج رکھا گیا-

اس کی بنیادی خامی یہ نہیں کہ اس پاس "دانت" نہیں جیسا کہ اس کے متعدد چیئر پرسنز عوامی احترام حاصل کرنے میں ناکام رہے-

کونسل اہم معاملات پر ناکام تو رہی پر اس نے صحافیوں کو دھمکانے اور اشتہارات سے انکار جیسے معاملات پر اہم فیصلے بھی دیے- اسے پریس کی مشاورت سے سخت اصلاحات کی ضرورت ہے-

انگلش میں پڑھیں


لکھاری ممبئی میں رہتے ہیں اور لکھاری کے علاوہ وکیل بھی ہیں-

ترجمہ: شعیب بن جمیل

اے جی نورانی

لکھاری ممبئی میں مقیم مصنف اور وکیل ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024