ملالہ فنڈ سے ستر لاکھ ڈالرز کے استعمال کا حکومتی فیصلہ
اسلام آباد: دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے ملالہ یوسف زئی کی کوششوں کے بارے میں ملک میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی رائے تنگ دلی پر مبنی ہیں، لیکن تعلیم کے ایک منصوبے کے لیے ملالہ کی طرف سے قائم کیے گئے فنڈ کی رقم کو حکومت نے استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
اس حوالے سے شک و شبہات صرف عام لوگوں میں ہی نہیں پائے جاتے کہ تعلیم کے لیے سرگرم نوجوان لڑکی کو حقیقت میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی طرف سے ہی گولی مار کر ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی تھی، بلکہ ایسے لوگ بھی جو حکومت کے اعلٰی عہدوں پر فائز ہیں، ملالہ کی ان کوششوں کو کمتر سمجھتے ہیں جنہیں بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے۔
نوجوان ملالہ، جنہیں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے حملے کے بعد دنیا بھر میں تیزی سے شہرت حاصل ہوئی تھی، وہ اکتوبر 2012ء دوران اس حملے میں شدید زخمی ہوگئی تھیں۔ ان پر یہ حملہ لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے ان کی کوششوں کی وجہ سے کیا گیا تھا۔
انہوں نے لڑکیوں کو بااختیار بنانے، ان کی آواز بلند کرنے، ان کی صلاحیتوں پر پابندیاں ختم کرنے اور تبدیلی کا مطالبہ کرنے کے لیے ملالہ فنڈ قائم کیا تھا۔
فروری میں وزارتِ خزانہ کی طرف سے اقوامِ متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے، جس کے تحت ملالہ فنڈ میں سے سترلاکھ ڈالرز کی رقم ملک کے دوردراز علاقوں کے لیے ایک تعلیمی منصوبے پر خرچ کی جائے گی۔
چھتیس مہینوں کے اس منصوبے کو تین مرحلوں میں مکمل کیا جائے گا۔ اس منصوبے کا ایک خاکہ پہلے مرحلے میں تیار کیا جائے گا، جو چھ مہینے تک جاری رہے گا۔ اس پر کام اٹھارہ مارچ کو شروع ہوچکا ہے۔
دوسرے مرحلے میں اس منصوبے پر عملدرآمد کیا جائے گا، یہ مرحلہ دو برس میں مکمل ہوگا۔
اس مرحلے میں لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کو وسعت دی جائے گی اور تعلیمی معیار کی بہتری کے ذریعے لڑکیوں کی تعلیم کی شرح میں اضافے کی کوشش کی جائے گی۔
تیسرے مرحلے میں دستاویزات مکمل کی جائیں گی۔
جب ملالہ پر حملہ ہوا تھا، اُسی دن سے ٹی ٹی پی کی وکالت کرنے والے ایک سازشی تھیوری تیار کرکے سامنے لائے تھے، اور کہا گیا تھا کہ یہ واقعہ ملک کو بدنام کرنے کے لیے سی آئی اے نے کروایا تھا، حالانکہ ٹی ٹی پی کے ترجمان نے اس حملے کے لیے ذمہ داری قبول کرلی تھی۔
لیکن پوری دنیا لڑکیوں کی تعلیم کے مقصدکے حوالے سے ملالہ کی حمایت پر کمربستہ ہوگئی۔ ملالہ کے لیے بین الاقوامی اعزازت کی گویا لائن لگ گئی اور یہاں تک کہ انہیں نوبل امن انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔
گزشتہ سال بارہ جولائی کو انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا اور اس دن کو ’ملالہ ڈے‘ کے نام سے منسوب کردیا گیا۔
ملالہ کی تقریر پر پنجاب کے وزیرِ اعلٰی شہباز شریف کا ردّعمل حیران کن تھا۔
رپورٹ کے مطابق انہوں نے سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر اپنے ایک ٹوئیٹ میں کہا تھا کہ ’’ملالہ نے اچھی تقریر کی تھی، جو مزید بہتر ہوسکتی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ عالمی توجہ حاصل کرنے اور اندرون ملک و بیرون ملک ہر ایک کو خوش کرنے کی کوشش میں لکھی گئی تھی۔‘‘
اس تبصرے کو تنقید کا نشانہ بنانے پر اسے ٹوئیٹر سے فوری طور پر ہٹا دیا گیا تھا۔
اس سال جنوری میں پی ٹی آئی کی قیادت میں خیبر پختونخوا کی حکومت نے پشاور یونیورسٹی میں ملالہ کی کتاب’’آئی ایم ملالہ‘‘ کی تقریب رونمائی کو روک دیا گیا تھا۔
اس اقدام پر پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنی پارٹی کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
بعد میں یہ معلوم ہوا کہ حکومت نے طالبان کی انتقامی کارروائی کے خوف سے یونیورسٹی انتظامیہ کو تقریب رونمائی کے انعقاد سے روک دیا تھا۔
تبصرے (2) بند ہیں